نظریہ ولایت فقیہ کا مختصر خاکہ
آیت اللہ مصباح یزدی
آیت اللہ مصباح یزدی
نظریہ ولایت فقیہ اسلام کے سیاسی فلسفہ کا
نظریہ ہے، ہر نظریہ کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جو اس کے ماننے والوں کی
نظر میں معتبر ہوتے ہیں ۔
اصول اول: حکومت کی ضرورت
نظریہ ولایت
فقیہ کے لئے سب سے پہلی اصل جو کہ دوسرے سیاسی نظریات میں بھی معتبر ہے ،
وہ یہ ہے کہ ہر معاشرہ کے لئے حکومت کی ضرورت ہے، اس نظریے کا مخالف صرف
(مکتب آنار شیسم ) ہے، آنار شیت، معتقد ہیں کہ بشر اخلاقی اصول کے ذریعہ
زندگی گزارسکتا ہے اور حکومت کی ضرورت نہیں ہے ، یا وہ کم از کم اس بات کے
معتقد ہیں کہ اگر حکومت ہو بھی تو اس کو ایسا کردار ادا کرنا چاہیے کہ
اخلاقی اعتبار سے انسانوں کی زندگیوں کو نظم دے سکے ، یعنی حکومت عوام کو
ایسا تعلیم و تربیت دے کہ انہیں حکومت کی ضرورت نہ ہو۔
لیکن تمام فلسفی
مکاتب اس کو حقیقت کے خلاف مانتے ہیں اور عملی لحاظ سے بھی ہزاروں سال کے
تجربے سے ہم کو معلوم ہے کہ انسانی معاشرے میں ایسے افراد ہمیشہ پائے جاتے
ہیں جو اخلاقی قوانین کے پابند نہیں ہوتے اور اگر کوئی ایسی قدرت نہ ہو جو
ان کو کنٹرول کرے تو پورے معاشرے کی زندگی درہم برہم ہو جائے گی۔ بہرحال یہ
ایسی اصل ہے کہ جس کو سبھی نے قبول کیا ہے ، صرف آنار شیسم نے اس کو قبول
نہیں کیا۔ یہ اصل، نظریہ ولایت فقیہ میں ضروری اور مسلم قرار پائی ہے۔
اصل دوم
حکومت کسی خاص شخص یا گروہ کے ذریعہ سے شرعی جواز نہیں پاسکتی حکومت کی سادہ الفاظ میں اس طرح تعریف کی جاسکتی ہے:
حکومت ایسی قدرت ہے جو معاشرے پر برتری رکھتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ ان کو ایک خاص راستے کی طرف ہدایت کرے ۔
حکومت یہ کام دو طریقہ سے انجام دیتی ہے کبھی طاقت کا استعمال کرتی ہے اور
کبھی طاقت کے استعمال کے بغیر معین راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
یعنی ایسے لوگ جو حکومت کے مد نظر اس راستے کے مخالف راستہ اختیار کرتے ہیں
ان کو پولیس اور فوج کا سہارا لے کر قوانین پر عمل کرنے کے لئے مجبور کرتی
ہے۔
یہ تعریف ، شرعی اور غیر شرعی دونوں حکومتوں کو شامل ہے۔
لہٰذا یہ دیکھنا ہوگا کہ جو حکومت شرعی جواز رکھتی ہے ، کیا کوئی شخص یا
گروہ ذاتاً مشروعیت رکھتا ہے، یا یہ کہ حکومت کا شرعی جواز کسی شخص کے لئے
ذاتی نہیں ہے بلکہ ایسا امر ہے جو کسی اور کے ذریعہ اس کو عطا ہوتی ہے ۔
ایک فلسفی نظریہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس جسمانی طاقت ہو اور فکر و ذہن کے
اعتبار سے دوسروں سے بہتر ہو، یا حسب و نسب کے لحاظ سے اولیٰ ہو، ایسا شخص
خود بخود اور ذاتاً حکومت کے لئے معین ہو جاتا ہے۔
ایسے افکار بعض
سیاست مداروں یا فلسفۂ سیاست سے دیکھے اور سنے گئے ہیں ۔ لیکن نظریہ ولایت
فقیہ اس نظریہ کے مخالف ہے ، نظریہ ولایت فقیہ کا مبنیٰ و اساس یہ ہے کہ
حکومت کسی شخص یا انسان کا ذاتی حق نہیں ہے اور کسی کے لئے خود بخود معین
نہیں ہوتی ہے، یعنی ایسا کسی کے لئے نہیں ہے کہ جب وہ پیدا ہواس لئے حکومت
کا حق ہو، حکومت کرنے کا حق میراثی نہیں ہے کہ ماں باپ سے منتقل ہو کر اس
کو مل جائی، بلکہ حکومت کا شرعی جواز خاص منبع و مرکز سے حاصل ہوتا ہے،
اکثر فلاسفہ اور فلسفہ سیاست میں نظر رکھنے والوں نے اس نظریہ کو قبول کیا
ہے،اور اس موضوع پر نظر رکھنے والوں کی کثیر تعداد ہے، ان میں جمہوریت کو
قبول کرنے والے بھی شامل ہیں وہ بھی اس مسئلہ میں ہمارے موافق ہیں کہ حکومت
کا شرعی جواز میراث میں ملنے والی نہیں ہے اور ذاتی طور پر کسی کے لئے
معین نہیں ہے بلکہ حکومت صرف اسی منبع و مرکز سے ہی حاصل ہو سکتی ہے جو
ذاتی طور پر حکومت کا حق رکھتی ہو۔
ان دو اصول کو قبول کرنے کی وجہ سے
فلسفہ سیاست کے کچھ نظریے ہماری بحث سے خارج ہو گئے ، ان میں سے ایک مکتب
آنار شیسم، اور وہ مکاتب ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ افراد یا خاص گروہ
ذاتی طور پر حکومت کا شرعی جواز رکھتے ہیں ۔
اصل سوم
حکومت کے شرعی جواز کا منبع و مرکز فقط خداوند عالم ہے۔
جب ہم نے دوسری اصل(حکومت کسی کا ذاتی حق نہیں ہے) کو قبول کرلیا پھر یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا منبع و مرکز ہے جو حکومت کا شرعی جواز
انسان کو عطا کر سکتا ہے، یہی وہ مقام ہے کہ جہاں پر نظریہ ولایت فقیہ، اور
اسلام کا سیاسی فلسفہ دوسرے مکاتب سے جدا ہوتا ہے اور یہ اصل نظریہ ولایت
فقیہ اور اسلام کے سیاسی فلسفہ کی اساس و بنیاد ہے۔
اور تمام مسلمان اس کے موافق ہیں ، شاید دوسرے آسمانی شریعتوں کو ماننے والے جو اسلام کو نہیں مانتے وہ بھی قبول کرتے ہوں ۔
اس بنیاد پر حاکمیت و حکومت امرونہی کرنا یہ سب خداوند عالم کا ذاتی حق ہے
اس نکتہ پر بھی توجہ لازم ہے کہ معاشرے میں حکومت کے امور کو سنبھالنا
انسانوں سے مخصوص ہے لہٰذا حکومت، اس خاص معنی میں خداوند عالم پر صدق نہیں
کرتی ہے۔
بلکہ خداوند عالم کی حکومت کا مطلب اس سے وسیع معنی مراد ہیں
حکومت و حاکمیت خداوند عالم کا ذاتی حق ہے لہٰذا دنیا میں حاکم کا معین
کرنا بھی خداوند عالم کے لئے ہی مخصوص ہے وہ خدا کہ جس نے تمام موجودات اور
دنیا کو خلق کیا وہی تمام موجودات کا حقیقی مالک بھی ہے۔
’’جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کچھ خدا ہی کا ہے۔‘‘
اس جگہ پر جو ہم نے لفظ مالک حقیقی استعمال کیا ہے وہ مالک اعتباری کے
مقابلہ میں ہے۔ مالکیت اعتباری: یعنی کچھ لوگ آپس میں ایک قرار داد کو قبول
کرلیتے ہیں اور اس کے مطابق اس شخص کو مالک کہا جاتا ہے ، لہٰذا یہ قرار
داد ممکن ہے ہر معاشرے میں فرق رکھتی ہو، مثال کے طور پر کسی معاشرے میں یہ
قرار داد کریں کہ جو کوئی بھی سونے کی کان کو کشف کرے گا سونا اسی کا ہوگا
، لیکن کسی معاشرے میں یہ کہیں کہ جتنی بھی سونے کی کانیں ہیں، سب عمومی
ملکیت ہیں اور اس کی سرپرستی حکومت کے ذمہ ہے۔
مالکیت حقیقی: ایک رابطہ
تکوینی سے شروع ہوتی ہے کہ تمام موجودات جس کی ملکیت ہیں اور تمام موجودات
اسی مالک کے وجود سے موجود ہوئی ہیں اس کو اصطلاح میں علت و معلول کا
رابطہ کہا جاتا ہے ، یہ ایسی مالکیت ہے جو اعتباری نہیں بلکہ حقیقتاً اور
تکویناً تمام موجودات اس کی ملکیت ہیں ، تمام موجودات کے وجود کا انحصار اس
کی ذات پر ہے ، اس طرز تفکر کی بنیاد پر تمام انسان خدا کی ملکیت ہیں اس
لئے کہ اسی نے انسان کو خلق کیا ہے ، صرف یہی نہیں کہ کوئی انسان کسی انسان
پر کسی طرح کے تصرف کا حق نہیں رکھتا بلکہ ہر فرد خود اپنے اوپر بھی ہر
طرح کے تصرف کا حق نہیں رکھتا ہے، اس لئے کہ خود وہ شخص کسی اور کی ملکیت
میں ہے، اس نظریہ کی بنیاد پر کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بدن
کے کسی عضو کو کاٹ ڈالے، یا اپنی آنکھیں پھوڑلے یا خود کشی کرلے، اس لئے
کہ خود اس کا وجود اس کی ملکیت نہیں ہے۔
اس نظریہ کو سیاسی فلسفہ کے
بہت سے مکاتب نیز دوسرے تمدن کے لوگ قبول نہیں کرتے ہیں، لیکن کم سے کم یہ
تو ثابت ہے کہ ہر انسان کو اپنے اوپر اختیار ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ
حکومت کا لازمہ یہ ہے کہ عوام کے جان و مال اختیارات و حقوق میں تصرف کرے،
لہٰذا اسلام کے نظریہ کے مطابق انسان کو اپنے نفس پر جو اختیار خدا نے دیا
ہے اس کے علاوہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان پر حکومت اور تصرف کا حق نہیں
رکھتا ہے اس لئے کہ سب خدا کی ملکیت ہیں ۔
بہرحال یہ اسلامی تفکر کی اساس ہے کہ خدا کے اذن کے بغیر اس کے بندوں میں کسی طرح کا تصرف نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس اصل کو قبول کرنے کے بعد اسلام کا سیاسی فلسفہ دوسرے موجودمکاتب سے جدا
ہو جاتا ہے نیز نظریہ ولایت فقیہ اور حکومت و سیاست کے دوسرے نظریات میں
اساسی فرق ہوجاتا ہے۔ اور یہی وہ مرحلہ ہے کہ جہاں سے ہمارا سیاسی نظریہ
دوسرے سیاسی نظریات سے جدا ہوتاہے جیسے کچھ نظریات کا کہنا ہے کہ حکومت کا
شرعی جواز ہوشیار اور تیز لوگوں کے لئے ہے یا کچھ کا کہنا ہے کہ حکماء
فلاسفہ کو حکومت کا حق ہے ، یا کچھ کا کہنا ہے کہ مال دار اور اشراف کو
حکومت کا حق ہے، یا ان لوگوں کا حق ہے، جو جنگ میں جیت کر دوسرے پر غالب
آجاتے ہیں ، یا ڈیموکریسی کا نظریہ وغیرہ اور یہ تمام نظریات اسلامی نظریہ
کے برخلاف دوسرا راستہ اختیار کرلیتے ہیں مثلاً ڈیموکریسی کے نظریہ کی اساس
یہ حکومت اصل میں عوام کا مال اور ان کا حق ہے اور عوام کا ووٹ ہے کہ اس
شخص کی حکومت کو شرعی جواز عطا کرتا ہے اور قانونی اعتبار سے اس کو طاقت
استعمال کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔
لیکن ہم نے تیسری اصل کی جو وضاحت
کی ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ڈیموکریسی کا نظریہ، ولایت فقیہ کے نظریے
کے موافق نہیں ہے اس لئے کہ اس اصل کے مطابق جس طرح انسان کے افراد کو
ذاتاً اور اصالتاً حکومت کا حق حاصل نہیں ہے اسی طرح تمام انسان جمع ہو کر
یا پورا معاشرہ اصالتاً اور ذاتاً ایسا حق نہیں رکھتے ہیں ، اس لئے کہ
انسان کا تمام وجود اور جو چیزیں وجود سے متعلق ہیں، سب خدا کی حقیقی ملکیت
ہیں ، لہٰذا ان کا عمل مالک حقیقی کے امرونہی کے مطابق ہونا چاہیے اور
انسانوں کو ذاتاً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں پر حکومت کریں یا کسی کو
حاکم بنائیں ۔
اصل سوم کے حاشیہ میں اسی کی ایک فرع کے عنوان سے اس
مطلب کو بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ یہ بھی تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل قبول
ہے کہ خداوند عالم نے اپنے اصیل اور ذاتی حاکمیت کے حق کو اس سے نیچے
مرتبہ میں اپنے رسول محمدؐ بن عبداللہ کو عطا کیا ہے اور آنحضرتؐ کی حکومت
کو لوگوں کی جان و مال زندگی و اختیارات میں تصرف کو شرعی جواز عطا کیا ہے ۔
بہرحال ہم پھر اس مطلب کی تاکید کررہے ہیں کہ نظریہ ولایت فقیہ یا اسلامی
حکومت اس کے صحیح معنی میں جو کہ اسلامی مفکرین (وہ تعبیر کہ جو امام خمینی
ؒ نے مرحوم آیت اللہ مطہری ؒ کے بارے میں بیان کی ہے) نے سمجھا اور بیان
کیا ہے ڈیموکریسیکے نظریہ سے جدا ہے ہم کبھی بھی نظریہ ولایت فقیہ کو
ڈیموکریسی پر تطبیق نہیں کر سکتے ہیں ۔
اور جنہوں نے یہ کوشش کی یا
کررہے ہیں کہ نظریہ ولایت کو ڈیموکریسی پر تطبیق کریں ، چاہے وہ لوگ کہ
جنہوں نے صدر اسلام میں رسول خداؐ کی وفات کے بعد ایسا کرنے کی کوشش کی اور
کسی دوسرے کو حکومت کے لئے انتخاب کرلیا یا وہ لوگ کہ جو آج کے زمانے میں
مغربی تمدن سے دھوکہ کھا کر ولایت فقیہ کی ایسی تعبیر کررہے ہیں یہ خدا و
رسولؐ کی صحیح نص کے خلاف ہے، ایسے لوگوں نے یا اسلام کو صحیح طریقہ سے
نہیں سمجھا یا شخصی اور سیاسی اغراض کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، دین اسلام کے
نظریہ کے مطابق، حکومت کا حق اور حاکم معین کرنا ذاتاً و اصالتاً خداوند
عالم سے مخصوص ہے اور صرف وہی ذات عالی صفات ہے کہ جو اس حق کو انسانوں میں
سے کسی انسان کو تفویض کرسکتا ہے اور اصل سوم کی بحث میں جو ہم نے بیان
کیا اس کے مطابق یہ حق رسول اکرمؐ کوخداوند عالم نے عطا کیا ہے۔
اصل چہارم
دین سیاست سے جدا نہیں
نظریہ ولایت فقیہ کا ایک پیش فرض یہ بھی ہے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے
یعنی ایسا ہر گز نہیں ہے کہ دین اسلام نے انسانوں کی صرف فردی زندگی کو
بیان کیا ہواور اجتماعی مناسبتیں جس میں سیاست و حکومت بھی شامل ہیں ، مد
نظر نہ رکھا ہو اور اس پہلو کو خود انسانوں کے ذمہ کردیا ہوتاکہ اپنی عقل
سے مصلحت اور موافقت کے ذریعہ حاکم معین کریں