معارف قرآن و اھل البیت (ع)

معارف قرآن و اھل البیت (ع)

🎓ولایت فقیہ🎓

کیا ایک دینی حکومت میں انسان کی آزادی اور کرامت کا خیال لکھا گیا ہے ۔⁉️

آسمانی اور الہٰی قوانین کے مطابق ،یہ لوگ ہیں ،جو کسی بھی حکومت دینی ،کے مستقبل کا انتخاب کرتے ہیں اور قوانین الہی ،اس سلسلے میں، لوگوں کے لیے اہمیت  قائل رکھتا ہے۔
🖇یعنی ایک ایسی ڈموکر یسی ہو ،جس میں اسلامی معاشرے کے لوگ خدا کے احکام ،اور ہدایت کے مطابق نمائندے کا انتخاب کرتے ہیں ،ایک ایسا انتخاب جو خدا کے احکام کے مطابق ہو اور ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہو
❌آج غرب میں ڈموکراسی کی خاطر،صرف لوگوں کی خواہشات پر توجہ کی جاتی ہے اور بدترین قوانین بنائے جاتے ہیں ۔ جن کی واضح مثال جنسی بے راہروی ہے۔یہ قوانین رسمی طور پر ملک کے قانون میں شامل کیے جاتے ہیں ۔
✅لیکن ایک اسلامی نظام میں ، لوگ انتخاب کرتے ہیں ،فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے ملک کے مستقبل کو منتخب لوگوں کے سپرد کرتے ہیں ،لیکن  یہ ڈموکریسی خدا کے احکام کے زیر سایہ چلتی ہے اور صراط مستقیم سے خارج نہیں ہوتی اور دینی ڈموکریسی کا یہ سب سے اہم نکتہ ہے ۔
✳️تفکر اسلامی کے مطابق خدا نے انسان کو حقوق دیے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ شخص اپنا اختیار کسی کو سونپ سکتا ہے  کہےکہ آغا آپ آؤ اور ہمارے لیے اس کام کو انجام دو  اسی کو ووٹ دینا کہتے ہیں اور اس شخص کا انتخاب کیا جاتاہے ،جو اسے دینی احکام کے مطابق صراط مستقیم پر   ،کمال تک پہنچا سکے ۔

‼️خوارج کہتے تھے کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی حکم نافذ نہ ہو حکومت خدا کا حق ہے لیکن حضرت علیؑ نے فرمایا کہ یہ بات صیح ہے کہ حکومت خدا کا حق ہے وہ جو خلق کرتا ہے قانون اور مقررات بھی اسی کے جاری ہوتے ہیں آپ کہہ رہے ہو قانون اور حکومت خدا کے لیے ہے لیکن یہ قانون اجرا کون کروائے گا
کیا آپ یہ کہتے ہو کہ خدا کے علاوہ کوئی قوانین کا اجرا نہ کروائے ؟؟۔۔۔ آخر کار انسانی معاشرے کو رہبر کی ضرورت ہے ۔ حاکم چاہیے۔ امیر چاہیے۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ایک انسانی معاشرے میں احکام کو جاری کروایا جائے، صرف قوانین کا ہونا کافی نہیں ہے ۔ ایک شخص کا وجود لازمی ہے جو قانون کے اجرا اور اس کی نگرانی کرے ۔
❇️اگر انسان کسی حکومت کے تحت زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اسے اس حکومت کے تحت زندگی گزارنی چاہیے جس کے قبضے میں زمین و آسمان ہے اور یہ حکومت،حکومت  الہی ہے۔
⚠️معاشرہ جس میں ولایت نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا ۔ اور وہ معاشرہ جس میں ولایت ہو وہ انسان کو اس کے کمال تک لے کر جاتا ہے ۔
جس بھی نظام حکومت میں انسان زندگی گزارتا ہے اس کے عبودیت  خدا ، اور بندگی انسان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ؟❓

📢اصول کافی میں ہے امام صادقؑ نے فرمایا " خدا شرم نہیں کرتا اس قوم پر عذاب کرنے میں جن کا امام خدا کی جانب سے نہ ہو چاہے وہ دیندار ہی کیوں نہ ہو اور لوگ چاہے نیکوکار اور پرہیزگار ہوں

لیکن خدا شرم کرتا ہے کہ اس امت کو عذاب کرے کہ جس کے پاس امام ہو جو خدا کی جانب سے دین سکھائے چاہے وہ امت اپنے اعمال میں ستمگر اور بدکار ہی کیوں نہ ہو ۔" ( الکافی ۔ ج،ا،ص 376)

♦️ہوسکتا ہے میں اور آپ ولایت کو ماننے والے ہوں لیکن اہم یہ ہے کہ جس معاشرے میں ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ اس میں ولایت کی حکومت ہے یا نہیں !  ان دونوں میں بہت فرق ہے ۔

رسول اکرمﷺ کے بعد 25 سال تک اسلامی معاشرہ ولایت مدار نہ تھا۔ ہاں ولایت کو ماننے والے لوگ موجود تھے 25 سال کے بعد جب امام علیؑ حاکم بنے تو معاشرہ ولایت مدار ہوگیا
اسی لیے اگر ہم ایک یادو شخص ولایت کو قبول کرتے ہیں یا پورا معاشرہ ولایت مدار ہے اور حاکم خدا کی جانب سے ہے ان دونوں میں بہت فرق ہے ۔!!

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:30
جعفر علی نقوی

🎓ولایت فقیہ🎓

⁉️⁉️کیا حکومت اسلامی کے بغیر احکام اور قوانین اسلامی اجراء نہیں کیے جاسکتے ؟؟؟

💬وطن کی حدود کے دفاع کیلئے، ٹیکس ،خمس اور زکوت وصول کرنے کیلئے،اور قصاص اور اسلامی سزاؤں پر عمل درآمد کرانے کیلئے ایک اسلامی حکومت کا ہونا لازمی ہے اسی لیے حکومت کی تشکیل اور قوانین کا اجراء ولایت مداری کا ایک حصہ ہے ۔

جو احکام رسول اکرمؐ  لے کر آتے ہیں وہ کسی ایک زمان و مکان کیلئے محدود نہیں اور ان کے اجراء کیلئے ایک اسلامی حکومت کی ضرورت ہے ۔

اگر اسلامی قوانین کی ماہیت اور کیفیت کا مطالعہ کریں ان سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے اجراء کیلئے ایک اسلامی حکومت کا وجود لازمی ہے ۔

اور ایک اسلامی حکومت کے اجراء کے بغیر ان پر عمل درآمد ممکن نہیں ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:22
جعفر علی نقوی

 🎓ولایت فقیہ🎓
⁉️غیبت کے زمانے میں جب ہماری پہنچ امام زمانہ عج پر نہیں پھر بھی اسلامی حکومت تشکیل دینا ضروری ہے ؟؟؟

غیبت صغرا کو گزرے ہزار سال سے زیادہ ہو چلے ہیں اور ظہور کا وقت بھی معلوم نہیں تو کیا اس مدت میں اسلامی قوانین اور احکام کا اجرا ہونا ضروری نہیں ہے !!!اور اگر یہ قوانین اور احکام لاگو نہ ہوں تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے گا ۔‼️
✅اور اگر ہم معاشرے میں اسلامی احکام اور قوانین لاگو کروانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے پہلی ضرورت اسلامی حکومت کا قیام ہے کہ ایک اسلامی حکمران کی حکومت ہو جو کسی بھی معاشرے میں لوگوں کو اسلامی قوانین کے مطابق لے کر چل سکے ۔اور امام کی غیبت میں اس حکومت کو ولایت فقیہ کی حکومت اور حاکم کو ولی فقیہ کہا جاتا ہے
⁉️کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دین کو سیاست سے جدا کردیا جائے تو اسلام کی پاکیزگی زیادہ اچھے طریقے سے قائم رکھی جاسکتی ہے ۔ دین اور سیاست علحدہ علحدہ ہیں؟ کیا یہ درست ہے ؟

💪🏻انقلاب اسلامی ایران ،اس بات کو غلط ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہے لیکن ابھی بھی لوگ اس انقلاب کی مخالفت کرتے ہیں کہ دین اور سیاست کا آپس میں تعلق نہیں ہونا چاہیے حالانکہ پیغمبر اکرمؐ  جونہی مکہ سے نکل کر مدینے پہنچے آپ ص نے سب سے پہلے ایک ایسی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جس میں سیاست ، لشکر ، اقتصاد ۔۔۔۔سب شامل تھا ۔یعنی یہ نہیں کہا کہ میں صرف تمہارے اعتقاد اور اخلاق درست کرنے آیا ہوں ۔ اور جاؤ تم لوگ اپنے لیے کسی اور کو حاکم بنالو۔ پیغمبر ﷺ نے سیاست کو پوری طرح سے اپنے ہاتھ میں لیا جبکہ آپ پیغمبر ص کے عہدے پر فائز تھے ۔
✍🏻ویسے بھی اگر پیغمبر ﷺ کو سیاست سے لینا دینا نہ ہوتا مسجد میں بیٹھ کر فقہ سکھاتے تو کسی کو آپ سے کوئی مسئلہ نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی جنگ ہوتی ۔
🕌اور سید الشھداء ع بھی اگر صرف فقہ سکھاتے اور شرعی مسائل بتاتے تو یزید بھی ان کا بہت احترام کرتا اور ان سے اسے کوئی مسئلہ نہ ہوتا ۔
⚠️حتٰی کوئی امام بھی اگر حاکم وقت کی مخالفت نہ کرتا تو نہ کوئی جنگ ہوتی نہ کوئی لڑائی ۔
سب سے بری چیز جو ہم نے سیکھ لی ہے وہ یہی ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ عبادت کرو، نماز ، روزہ انجام دو اس نے دین کا چہرہ مسخ کردیا ہے۔
♻️اسلام پورے کا پورا سیاست سے منسلک ہے ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:21
جعفر علی نقوی

🎓ولایت فقیہ🎓
⁉️کیا قرآن بھی سیاسی اسلام کا تعارف کرواتا ہے؟؟

🖊مسلمان سالوں تک قرآن سے دور رہے اور اسکی تعلیمات کو نہ جان سکے اور نہ عمل کرسکے ۔اور یہی وجہ باعث بنی کہ کچھ لوگوں نے قرآن کی تعلیمات میں تحریف کی اور کچھ لوگوں نے ان تحریفات کو قبول کرلیا۔

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیهِ بَأْسٌ شَدِیدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللَّهُ مَن یَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَیْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ

📝بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں
(سورة حدید آیت 25 )

⛔️حالانکہ قرآن ظالمین کے قول پر اعتماد کرنے سے منع کرتا ہے اور ظالم کے احکام پر چلنے کو ایمان کے متضاد سمجھتا ہے ۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ یَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ یُرِیدُونَ أَن یَتَحَاکَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن یَکْفُرُوا بِهِ وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِیدًا

📌کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا خیال یہ ہے کہ وہ آپ پر اور آپ کے پہلے نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لے آئے ہیں اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک کھینچ کر لے جائے
(نساء 60 )

لَا إِکْرَاهَ فِی الدِّینِ ۖ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۚ فَمَن یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ

🦋دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے. ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے. اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے اور خدا سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے
(بقرہ 256)
حالانکہ اسلام کی پہلی تعلیم توحید ہے یعنی ہر قسم کی مادی ، سیاسی طاقتوں کا انکار اور ہرقسم کے جاندار اور بےجان بتوں کا انکار ہے ۔
🔖اسی پر چلتے ہوئے رسول اکرمؐ نے مدینے میں پہلی اسلامی توحید پر چلنے والی حکومت کی بنیاد رکھی ۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگوں نے کہہ دیا کہ دین سیاست سے علحدہ ہے اور بعض نے قبول بھی کرلیا ۔
( کتاب ولایت فقیہ ۔ قانون  عزت و اقتدار )

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:19
جعفر علی نقوی

🎓ولایت فقیہ🎓

اگر قرآن اور انبیاء حکومت اور سیاست کے قیام کاحکم دیتے ہیں کیا آئمه ع نے حکومت کے لیے کوئی کوشش کی ؟

👈سب آئمه اطهار کا مقصد حاکمیت الهی کا قیام تها  اسی لیے حکمران آئمه اطهار ع کو شهید  کروادیتے کیونکه آپ امامت کا دعوی کرتے تهے اس زمانے کے باقی بڑے علما کو حاکم کچھ نه کہتے تهے کیونکه کوئی بهی امام ہونے کا دعوی نه کرتا تھا حتی اگر آئمه ع اس بات کا بهی دعوی کرتے که همارے پاس علم کامل ہے تب بھی مسائل پیش نه آتے لیکن آئمه اطهار ع، امامت ، حاکمیت الهی اور سیاست کی تعلیم دیتے اسی لیے ان کو شھید کروادیا جاتا .

    📣امام صادق ع نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا .
رسول اکرم ص معاشرے کے رهبر ، امام اور حاکم تهے پهر باری بار ی تمام آئمه کے نام لیے پهر اپنا نام بهی لیا ، (الکافی ج 4 ص 446 )  

   🔎اس زمانے کے اهل زهد کو حکمرانوں اور حکومت سے کوئی مسئله نه تها .. جیسے حسن بصری کونے میں بیٹھ کر عبادت کرتے اور کسی بهی قسم کے سیاسی مسائل میں اپنے آپ کو نه الجھاتے
 بر عکس .صلح امام حسن ع کے بعد امام جعفر ع کے زمانه امامت تک شیعه همیشه ایک حکومت علوی برقرار کرنے کی کوششوں میں رهے ہیں . تاکه اسلامی حکومت دوباره خالص طور پر قائم کی جاسکے ..
( کتاب ولایت فقیہ ۔ قانون  عزت و اقتدار )

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:17
جعفر علی نقوی
 
آیت تطهیر اور آیت حضرت ابراهیم علبه السلام میں اهل بیت سے مراد کون ہیں؟
 

 

 

 

سوال کی وضاحت:

سوال: آیت تطہیر اور آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام میں اہل بیت سے مراد۔

پہلی آیت میں اہل بیت سے مراد حضرت ابراہیم کے اہل بیت ہیں اور دوسری آیت میں اہل بیت سے مراد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت ہیں۔

لیکن رہا یہ مسئلہ کہ ان دونوں آیتوں میں اہل بیت سے مراد کون افراد ہیں؟ اس سلسلہ میں اہل تسنن و اہل تشیع کے درمیان اختلاف ہے۔

اہل تسنن نے تمام رشتہ داروں کو شامل کیا ہے اور شیعوں نے صرف خاص گروہ کو شامل کیا ہے۔ شیعہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات اور اہل تسنن کی روایات سے استفادہ کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ اہل تسنن نے اس سلسلہ میں مرکز وحی سے دوری اختیار کی ہے اس لئے ان کے درمیان خود اس بارے میں اختلاف ہے کہ اہل بیت سے مراد رشتہ داروں کا کون سے لوگ ہیں۔

شیعوں کے مدعا کی دلیل:

لغت میں اہل بیت:

عربی لغت میں اھل الرجل کا استعمال، انسان کے خاص اور قریبی رشتہ داروں کے لئے ہوتا تھا۔ لہذا اہل بیت کا استعمال، ابتدائی طور پر بچوں حتی قریبی رشتہ داروں کو بھی شامل ہوگا۔

قرآن کی اصطلاح میں اہل بیت :

لیکن دینی اصطلاح میں لفظ "اہل" کے لئے ایک خاص اصطلاح وضع ہوئی ہے:

قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ "اہل" انبیاء کے خاندان میں سے بعض خاص لوگوں کے لئے استعمال ہوا ہے اور سب رشتہ دار مراد نہیں ہیں۔ اس لئے کہ قرآن میں جناب نوح علیہ السلام کے بیٹے کو ان کے اہل سے خارج کیا گیا ہے۔ چہ جائی کہ ازواج کو شامل کیا جائے [جیسے جناب نوح و لوط کی ازواج]

قَالَ یَانُوحُ إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ أَهْلِکَ  إِنَّهُ عَمَلٌ غَیرُْ صَالِح [سورہ ھود آیت ۴۶]

خداوند متعال نے فرمایا اے نوح وہ آپ کے خاندان سے نہیں ہے وہ ایک غیر صالح عمل [والا انسان] ہے۔

لہذا کسی رسول کے اہل بیت کے معنی کو سمجھنے کے لئے منبع وحی یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کو ذریعہ قرار دیں اور ان سے اہل بیت کے معنی دریافت کریں۔

اور اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کے بارے میں مناسب ہے کہ ان احادیث نبوی کی طرف رجوع کیا جائے جن پر شیعہ اور سنی اتفاق ہے۔

سورہ احزاب کی اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں، اہل تسنن حدیث کساء کی روایت کو نقل کرتے ہیں:

 

عن صَفِیَّةَ بِنْتِ شَیْبَةَ، قَالَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ خَرَجَ النَّبِیُّ صلی الله علیه وسلم غَدَاةً وَعَلَیْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَیْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِیٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ (إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا).

صحیح مسلم: 130/7 ح 6414

عائشہ کہتی ہیں رسول خدا صبح کے وقت باہر گئے اور ان کے کاندھوں پر کالے بالوں کے نقش و نگار والی عبا تھی۔ پھر حسن ابن علی آئے ان کو آپ نے عبا میں لیا۔ پھر حسین آئے ان کو بھی عبا میں داخل کیا۔ پھر علی آئے ان کو بھی عبا میں داخل کیا۔ پھر فرمایا: خداوند متعال چاہتا ہے کہ آپ اہل بیت سے رجس کو دور رکھے اور آپ کو پاک رکھے۔

ودعا رسول الله صلی الله علیه وسلم الحسن والحسین وعلیا وفاطمة فمد علیهم ثوبا فقال اللهم هؤلاء أهل بیتی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا

سنن النسائی الکبری ج5/ص113

رسول خدا نے، حسن و حسین اور علی و فاطمہ کو بلایا پھر ایک کپڑا آپ پر ڈالا اور کہا پروردگارا یہ میرے اہل بیت ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک و پاکیزہ قرار دے۔

3871 حدثنا محمود بن غیلان حدثنا أبو أحمد الزبیری حدثنا سفیان عن زبید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة أن النبی صلی الله علیه وسلم جلل علی الحسن والحسین وعلی وفاطمة کساء ثم قال اللهم هؤلاء أهل بیتی وخاصتی أذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا فقالت أم سلمة وأنا معهم یا رسول الله قال إنک إلی خیر قال هذا حدیث حسن وهو أحسن شیء روی فی هذا وفی الباب عن عمر بن أبی سلمة وأنس بن مالک وأبی الحمراء ومعقل بن یسار وعائشة

سنن الترمذی ج5/ص699

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ جناب ام سلمہ فرماتی ہیں: رسول خدا نے حسن، حسین، علی، اور فاطمہ پر عبا ڈالی۔ پھر فرمایا خدایا یہ میرے اہل پیت اور خاص ہیں۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ قرار دے۔

ام سلمہ کہتی ہیں میں نے رسول خدا سے پوچھا کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں [اہل بیت میں سے]؟ تو آپ نے کہا تم خیر پر ہو [اہل بیت میں سے نہیں ہو لیکن نیک لوگوں میں سے ہو]۔

ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور اس سلسلہ میں بہترین روایت ہے۔ ۔ ۔

البانی اپنی کتاب (صحیح سنن الترمذی، الألبانی 3: 306 ح 3205)  میں اس کو حدیث صحیح جانتے ہیں۔

اس کے علاوہ حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

هذا حدیث صحیح علی شرط البخاری ولم یخرجاه.

المستدرک: 416/2، 146/3.

یہ حدیث بخاری اور مسلم کی نظر کے مطابق صحیح ہے لیکن انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے۔

اسی طرح اسی مفہوم کی ایک روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

هذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاه.

المستدرک: 416/2.

یہ حدیث مسلم کی نظر کے مطابق صحیح ہے لیکن انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے۔

حتی طبرانی ج/۳ ص ۵۲ میں حدیث نمبر  ۲۶۶۲ سے ۲۶۷۳ تک دس احادیث لے کر آتے ہیں کہ جس میں اسی مفہوم کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف علی، فاطمہ، حسن، اور حسین ہیں اور یہاں تک کہ ام سلمہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ہیں ان کا شمار بھی ان میں نہیں ہے۔

نیز احمد بن حنبل اور طبرانی اس حدیث کے ضمن میں نقل کرتے ہیں کہ ام سلمہ کہتی ہیں:

فرفعت الکساء لأدخل معهم فجذبه من یدی وقال: إنّک علی خیر.

مسند أحمد ج 6 ص 323، المعجم الکبیر للطبرانی ج 3 ص 53

پھر میں نے چادر کو اوپر اٹھایا تاکہ ان کے ساتھ داخل ہو جاؤں تو آنحضرت نے چادر کو میرے ہاتھ سے کھینچ لیا اور فرمایا تم خیر پر ہو۔

مزے کی بات یہ ہے وہابیوں کے نظریاتی بزرگ ابن تیمیہ نے اس بارے میں کہا ہے:

والحسن والحسین من أعظم أهل بیته اختصاصا به کما ثبت فی الصحیح أنه دار کساءه علی علی وفاطمة وحسن وحسین ثم قال اللهم هؤلاء أهل بیتی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا

منهاج السنة النبویة ج4/ص561

اس عبارت کے معنی واضح ہیں کہ خدایا یہی ہیں کہ جو میرے خاندان سے ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھ اور انہیں پاک قرار دے۔

اس عبارت میں اہل بیت کی طہارت کی کوئی شرط بیان نہیں کی گی ہے۔ یعنی ان کا تقوی مفروض اور یقینی ہے۔

لیکن ہم قرآن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے سلسلہ میں دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال فرماتا ہے:

یَا نِسَاءَ النبی لَستُنَّ کَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إن اتَّقَیتُنَّ (سوره احزاب آیه 32)

اے ازواج رسول خدا تم باقی عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر با تقوی ہو۔

نیز اہل سنت کی بعض صحیح روایتوں میں آیا ہے کہ کچھ بزرگان صحابہ صراحتا ازواج رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل بیت میں شمار نہیں کرتے ہیں۔

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ دَخَلْنَا عَلَیْهِ فَقُلْنَا لَهُ لَقَدْ رَأَیْتَ خَیْرًا لَقَدْ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّیْتَ خَلْفَهُ وَسَاقَ الْحَدِیثَ بِنَحْوِ حَدِیثِ أَبِی حَیَّانَ غَیْرَ أَنَّهُ قَالَ أَلَا وَإِنِّی تَارِکٌ فِیکُمْ ثَقَلَیْنِ أَحَدُهُمَا کِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ هُوَ حَبْلُ اللَّهِ مَنْ اتَّبَعَهُ کَانَ عَلَی الْهُدَی وَمَنْ تَرَکَهُ کَانَ عَلَی ضَلَالَةٍ وَفِیهِ فَقُلْنَا مَنْ أَهْلُ بَیْتِهِ نِسَاؤُهُ قَالَ لَا وَایْمُ اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَکُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنْ الدَّهْرِ ثُمَّ یُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَی أَبِیهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَیْتِهِ أَصْلُهُ وَعَصَبَتُهُ الَّذِینَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ

صحیح مسلم ج4/ص1874 کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل علی بن أبی طالب

پھر ہم نے [زید بن ارقم ] سے کہا کہ اہل بیت رسول خدا کون لوگ ہیں؟ کیا ان کی ازواج ہیں؟ جواب دیا: نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے۔ عورت شادی کے بعد ایک طویل عرصے تک شوہر کے ساتھ رہے اور پھر شوپر کسی بناء پر اس کو طلاق دے دے تو وہ عورت اس خاندان کا جز نہیں رہتی بلکہ اپنے باپ اور خاندان اور رشتہ داروں کی طرف واپس چلی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ دوسری روایتوں میں بھی بیان ہوا ہے کہ جس کا مضمون اس روایت سے مخالف ہے لیکن جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ اس اختلاف کا سبب قرآن اور احادیث رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح استفادہ نہ کرنا ہے۔

لیکن ہم نے شروع میں قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے واضح کردیا کہ دین کی نظر میں ہر پیغمبر کے اہل بیت کی تعداد خاص رہی ہے۔

اس کے بعد ہم نے اہل تسنن کی کتابوں سے بعض روایات ذکر کی تھیں کہ جس میں ہم نے اہل سنت کی کتابوں میں موجود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات کے ذریعہ اہل بیت


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:08
جعفر علی نقوی



✍️🌹تقلید و اجتہاد 🌹✍️

🕌🌹امام حسن عسکری علیہ السلام🌹🕌


فقہاء(مجتہدین) میں سے ایسا شخص جو:

اپنے نفس کی (گناہوں سے) حفاظت کرنے والا ہو،
اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو،
ہوا و ہوس (خواہشاتِ نفسانی) کی مخالفت کرتا ہو،
اور اپنے مولا کی پیروی کرتا ہو،

تو پھر عوام کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تقلید (پیروی) کریں.
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 August 17 ، 23:55
جعفر علی نقوی


Velayat-e faqih


❓کیا آپ قرآن کی کسی آیت سے ولایت فقیہ کا اثبات کرسکتے ہیں ؟؟ ❓

📣امام صادقؑ نے بھی علماء کی ولایت کے اثبات کیلئے قرآن سے مثال دی ہے۔
جن خصوصیات کی بدولت کوئی شخص بھی امامت کا مستحق ہوتا ہے ،وہ ہیں
✔️پاکدامنی، گناہوں سے دوری اور معصیت سے دوری جو انسان کو،آتش دوزخ کے لائق بناتی ہے ( ان سے دوری اختیار کرنا ہے ) ۔
✔️تمام حرام اور حلال کا علم ہونا اور ان احکام کا جن کی لوگوں کو ضرورت ہوسکتی ہے
 
  ✔️تیسری خصوصیت قرآن کا علم هونا ہے ( قرآن کی عمومی اور خصوصی شناخت،ناسخ اور منسوخ)
💬ابی عمر زبیری نے پوچھا .اس بات کی کیا دلیل ہےکه امامت اسی کا حق ہے جس میں یه خصوصیات پائی جاتی ہیں
📢حضرت نے جواب دیا که خداوند متعال کا قول ہے که یه وه لوگ جو خدا کی طرف سے حکومت بنانے کی اجازت رکهتے ہیں ان کے بارے میں ہے
إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ یَحْکُمُ بِهَا النَّبِیُّونَ الَّذِینَ أَسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا  وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ

بیشک ہم نے توریت کو نازل کیا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے اور اس کے ذریعہ اطاعت گزار انبیایہودیوں کے لئے فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ والے (ربانیون)اور علمائے یہود (الاحبار)اس چیز سے فیصلہ کرتے ہیں جس کا کتاب خدا میں ان کو محافظ بنایا گیا ہے
( سوره مائده آیت 44 )

🔶اسی لیۓ رهبروں کا دوسرا گروه ربانیون ہے ،انبیاء نہیں ہیں وه لوگ جو معاشرے کے لوگوں کو اپنے علم سے تربیت کرتے ہیں ،

🔷تیسرا گروه احبار ، علماء ہیں جو ربانیون کے علاوه ہیں
(المیزان،فى تفسیر القران،ج٥،ص ٣٦١)(البرھان فی تفسیر القران،ج۲،ص۳۰۶)(تفسیرالعیاشی،ج۱،ص۳۲۲،۳۲۳)
تفسیر نور الثقلین،ج۱ص۶۳۴)(میزان الحکمہ،ج۱،ص۲۵۳)(بحار الانوار،ج۲۵،ص۱۴۹)
اس آیت اور حدیث کے مطابق خدا کی ولایت رسول اور آئمه ع کو منتقل ہوتی ہے
❓اب زمانه غیبت میں آپ کسی بھی معاشرے کی رهبری کس کے سپرد کرنا پسند کریں گے اسکو جسے دین ، خدا ،قرآن کا علم نهیں ہے یا اسے جو ان علوم پر عبوررکهتا ہے
❓وه شخص رهبری کے لائق ہے جسے اسلامی احکام کا علم نہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرتا ہے یا وہ شخص جو عادل ہے اور قرآن کےاحکام استنباط کرسکتا ہے ظاہری بات ہے کہ دوسرے  شخص کو ترجیح ہے ۔
✅الفقھا امناء الرسل
رسول اکرم ص نے فرمایا
فقھا جب تک دنیا دنیا میں داخل نہ ہوں پیغمبروں کے امین ہیں
آپ ص سی سوال ہوا دنیا میں داخل ہونے سے کیا مراد ہے ؟
آپ ص نے فرمایا جب کسی سلطان جائر کی پیروی کریں ،اگر ایسا کریں اپنے دین کے لیے اُن سے با حذر رہو
(الکافی ، ج ا،ص 26)
یعنی جو ذمہ داریاں پیغمبروں کی ہیں وہ ذمہ داریاں فقھا کہ سپرد کی جاسکتی ہیں ۔وہ فقھا جو پاک ہوں اور اسلامی احکام پر عمل کریں
(کتاب،ولایت فقیہ،کانون عزت و اقتدار)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 August 17 ، 23:52
جعفر علی نقوی


❓اسلام میں سیاست کا کیا مطلب ہے؟

❇️اسلام میں سیاست کا مفهوم کسی بھی معاشرے کی رهبری کرنا ہے جو دین کا جزو ہے
❌جس مقصد کے لیے سیاست کا لفظ آج کل استعمال کیا جاتا ہے یعنی جھوٹ فریب ،وه سیاست دین کے مفهوم.کے بر عکس ہے ۔
📍سیاست کسی بھی معاشرے کی هدایت کا باعث ہے
سیاست کسی بھی معاشرے کے تمام پهلو ؤں کی طرف نظر رکهتی ہے اور انهیں اوج کی طرف لے کر جاتی ہے اور دهیان رکهتی ہے که معاشرےاور ملت کی اصلاح کس چیز میں ہے اور یه انبیاء کا مخصوص کام ہے باقی لوگ اس طرح کی سیاست قائم نہیں کرسکتے .یه انبیاء ،اولیاء اور علماء حق  جن کی  سیاسی نگاه تیز ہو انکا کام ہے

📌(المیزان ، البرھان، تفسیر عیاشی اور نور الثقلین )📌



۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 August 17 ، 23:40
جعفر علی نقوی



✅خدا تعالیٰ ولایت کو مختلف طریقوں سے لوگوں میں جاری کرتا ہے یہ ولایت ایک جگہ شخص کا نام لے کر منبتخب کی گئی جیسا کہ کہ ہمارا ماننا ہے کہ حضرت علیؑ  خدا کے ولی ہیں اور خدا نے ان کی ولایت اور امامت کا انتخاب کیا ہے اور دوسری جگہ صفات اور کردار بتا ئی گئیں کی ان خصوصیات کا حامل شخص ولایت کا مالک ہے

✔️اب اگر امام علیؑ  مختلف علاقوں میں اپنے نمائندے بھیجتے تھے تو ہم ان نمائندوں کے بارے میں بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ خدا کا انتخاب ہیں کیونکہ خدا کے نمائندے نے انہیں منتخب کیا ہے ۔

☑️اسی طرح اگر کسی ولایت کے بارے میں خدا صرف خصوصیات بیان کرتا ہے کر جس میں بھی یہ خصوصیات ہیں وہ خدا کا ولی اور نمائندہ ہے ،تو بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ اسے خدا نے انتخاب کیا ہے اور یہ خدا کی ولایت ہے جسے وہ لوگوں پر جاری کروائے گا ۔
🌹ایک جگہ خدا کے نمائندوں کو 12 ناموں  کے ساتھ مشخص کیا گیا ۔اور دوسری جگہ ولایت کی خصوصیات بیان کی گئیں ان دونوں کی ولایت کو ہم خدا کی طرف سے قبول کرتے ہیں ۔

🖋اور ہماری امت کے فقہاء میں سے جو شخص بھی دنیاوی خواہشات سے اپنے نفس کا نگہبان اور خدا کے دین کا محافظ اور  نفسانی خواہشات کا مخالف اور  خدا کے امر کا مطیع ہوگا ۔۔۔۔۔
الاحتجاج علی اھل الجاج
ج،2،ص 458
اگر اس حدیث کے ذریعے خصوصیات بیان کی جارہی ہیں تو اب جس میں یہ خصوصیات پائی جائیں گی وہ بھی خدا کی طرف سے ولایت کا حامل ہو گا

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 August 17 ، 23:32
جعفر علی نقوی