تقلید 3
🔵 تقلید کی ضرورت 🔵
عقلًا اور شرعًا جو شخص آیات اور روایات سے حکم شرعى کا استنباط نہیں کر سکتا اسے ’’تقلیدِ فقہى‘‘ کرنا ضرورى ہے.
جو
شخص خود تقلید کے مرحلہ میں ہو اور بعض ایسى روایات پیش کرے جو اس کے خیال
میں قابلِ بحث ہیں، اس کى مثال اس مریض کى سى ہے جسے ڈاکٹر نے علاج کا
نسخہ دیا ہو اور وہ طب کے کورس کى کتابوں سے کوئى ایک پیراگراف نکال کر لے
آیا ہو اور ڈاکٹر سے کہے کہ یہاں کچھ لکھا ہے اور آپ نے کچھ اور بتایا ہے!!
یقینا ڈاکٹر کے لیے تفصیل کے ساتھ اس مریض کو کچھ سمجھانا ممکن نہیں ہے
کیونکہ وہ طب کى علمى اصطلاحات سے بھى نابلد ہے اور تحقیقى دنیا سے بھى
آشنا نہیں ہے. یہى صورتحال یہاں ہے.
🔹ہم فتوى کے مقابلے میں صرف اس
وقت کچھ پیش کر سکتے ہیں جب خود صاحبِ اجتہاد ہوں اور ان تمام باریکیوں کو
سمجھتے ہوں. مثلا اگر ایک شخص نے مطلوبہ علومِ دینى حاصل کیے ہوں اور تمام
علوم پر کامل دسترس رکھتا ہو اس مرحلہ کے بعد ایک روایت سے ایک حکم لینے
کے لیے عملى طور پر درج ذیل امور سے گزرنا ضرورى ہے:
1) اس موضوع کى تمام روایات کو جمع کرے.
2) روایات کى سندى تحقیق کرے.
3) روایات کے ظاہر کو دیکھے کہ ظاہرِ روایت کیا معنى دے رہى ہے.
4) یہ دیکھے کہ ان روایات میں سے کس کى دلالت حجت ہے اور کس کى نہیں.
5) روایات میں عام و خاص، مطلق و مقیّد، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، ظاہر نص ۔۔۔ ان سب قواعد کا خیال رکھے.
6) قواعد فقہیہ اور اصولیہ اپنے مبنى کے تحت جارى کرے.
7) فقہاءِ عظام کے اقوال کو مدنظر رکھے اور ان پر دقّت کرتے ہوئے استدلالى نوعیت کو جانے.
🔹ان
مراحل سے گزرنے کے بعد ہم ایک حکم شرعى بیان کر سکتے ہیں. اس لیے چند
روایات ذکر کر کے فتوٰی کے مقابل انہیں پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ
روایات واقعًا امام علیہ السلام سے صادر ہوئى ہیں یا نہیں؟ اس کا جاننا
ضرورى ہے۔ جب ثابت ہو جائے کہ فلاں فلاں روایت صحیح ہے اور فلاں ضعیف تو
صحیح کے معنى پر قواعد جارى کیے جائیں گے۔
🔻پس ہم کسى فتوٰی کے
مقابل اس طرح سے روایت کو پیش نہیں کر سکتے۔ بلکہ ضرورى ہے کہ روایت کو
بیان کر کے کاملًا تفصیلى بحث کریں۔ اس لیے آپ ان روایات کے ذیل میں مندرجہ
بالا نکات کى روشنى میں تفصیلى بحث کریں تو سلسلہِ بحث آگے بڑھایا جا سکتا
ہے۔ ورنہ ہمارے اوپر تقلید کرنا ضرورى ہے.