امامت 5
امامت کی تعریف کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف پایاجاتا ھے، اور اختلاف ھونا بھی چاہئے کیونکہ شیعہ نظریہ(جو کہ مکتب اھل بیت علیھم السلام کے پیروکار ھیں) کے مطابق امامت اصول دین میں سے ھے، جبکہ اھل سنت کے یھاں امامت کو فروع دین اور عملی احکام میں شمار کیا جاتا ھے۔
اسی وجہ سے فریقین امامت کو ایک نگاہ سے نھیں دیکھتے لہٰذا اس کی تعریف الگ الگ کرتے ھیں
اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں کہ ایک سنی عالم دین، امامت کی تعریف اس طرح کرتے ھیں:
”اٴلإمَامَةُ ریاسةٌ عَامةٌ فِی اٴمورِ الدِّینِ وَالدُّنیا، خلافةٌ عَنِ النَّبِی“[1]
” پیغمبراکرم(ص)کی جانشینی کے عنوان سے دین و دنیا کے امور میں عام سرپرستی کا نام ”امامت “ھے۔
اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت کی حد تک ایک ظاھری ذمہ داری ھے، لیکن دینی اور اسلامی حکومت کی شکل میں پیغمبراکرم(ص)کی جانشینی کا عنوان(آنحضرت کی جانشینی یقینی حکومتی امور میں) رکھتی ھے، اور یہ بات ظاھر ھے کہ ایسے امام کو لوگوں کی طرف سے منتخب کیا جاسکتا ھے۔
لیکن بعض حضرات نے امامت کی تعریف اس طرح کی ھے: ”امامت یعنی پیغمبراکرم کی طرف سے دینی احکام و قوانین نافذکرنے اور دین کی محافظت کرنے میں جانشین ھونا، اس طرح کہ تمام امت پر اس کی اطاعت واجب ھو“۔[2]
چنانچہ یہ تعریف بھی پھلی تعریف سے الگ نھیں ھے بلکہ مفھوم و معنی کے لحاظ سے تقریباً ایک ھی ھے۔
ابن خلدون نے بھی اپنی تاریخ(ابن خلدون) کے مشھور و معروف مقدمہ میں امامت کی تعریف اسی طرح کی ھے۔[3]
شیخ مفید(رحمة اللہ علیہ) کتاب ”اوائل المقالات“ میں عصمت کی بحث کرتے ھو ئے فرماتے ھیں: ”وہ ائمہ جو دینی احکام کے نافذ کرنے، حدود الٰھی کو قائم کرنے، شریعت کی حفاظت کرنے اور لوگوں کی تربیت کرنے میں پیغمبراکرم(ص)کے جانشین ھیں، ان کو(ھر گناہ اور خطا سے) معصوم ھونا چاہئے، جس طرح انبیاء علیھم السلام معصوم ھوتے ھیں۔[4]
چنانچہ اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت و ریاست سے بالاتر ھے بلکہ انبیاء علیھم السلام کی طرح تمام ذمہ داریاں امام کی بھی ھوتی ھیں سوائے وحی کے، اسی وجہ سے جس طرح نبی کا معصوم ھونا ضروری ھوتا ھے اسی طرح امام کا بھی معصوم ھوناضروری ھے۔
اسی وجہ سے شرح احقاق الحق میں شیعہ نقطہ نظر سے امامت کی تعریف یوں کی گئی ھے:
”ھِیَ مَنصَبٌ إلٰھیّ حَائزٌ لِجَمیعِ الشوٴونِ الکریمةِ وَالفَضَائلِ إلاَّ النَّبوة و مایلازم تلک المرتبة السّامیة“[5]
”امامت ایک الٰھی منصب اور خدا کی طرف سے ایک ذمہ داری کا نام ھے جونبوت اور اس سے متعلق دوسرے امور کے علاوہ تمام بلند امور اور فضائل کو شامل ھے“۔
چنانچہ اس تعریف کے مطابق ”امام“ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبراکرم (ص)کے ذریعہ معین ھوتاھے اور(مقام نبوت کے علاوہ) پیغمبراکرم(ص)کے تمام امتیازات و خصوصیات رکھتا ھے، اور اس کا کام دینی حکومت کی ریاست میں منحصر نھیں ھے، اسی دلیل کی بنا پر امامت اصول دین میں شمار ھوتی ھے نہ کہ فروع دین اور عملی فرائض میں۔
امامت اصول دین میں سے ھے یا فروع دین میں سے؟
مذکورہ بحث سے اس سوال کا جواب واضح ھوجاتا ھے، کیونکہ امامت کے سلسلہ میں نظریات مختلف ھیں، متعصب سنی عالم ”فضل بن روزبھان“”نہج الحق“(جس کا جواب ”احقاق الحق“ ھے) اس طرح کہتاھے: اشاعرہ کے نزدیک امامت اصول دین میں سے نھیں ھے بلکہ فروع دین میں سے ھے اور اس کا تعلق مسلمانوں کے افعال او راعمال سے ھے۔[6]
اس لحاظ سے اھل سنت کے دوسرے فرقوں میں بھی کو ئی فر ق نھیں ھے کیو نکہ ان سب کے یھاں امامت عملی فرائض میں شمارھوتی ھے، اور یہ لوگوں کی ذمہ داری ھوتی ھے کہ امام یا خلیفہ کا انتخاب کرلیں، صرف مکتب اھل بیت علیھم السلام کے ماننے والے اور اھل سنت کے بہت کم افراد جیسے قاضی بیضاوی، اور ان کا اتباع کرنے والے، امامت کو اصول میں شمار کرتے ھیں۔[7]
ان کی دلیل بھی واضح اور روشن ھے، کیونکہ ان کے نزدیک امامت ایک الٰھی منصب ھے، یعنی امام خدا کی طرف سے منصوب ھوتا ھے، جس کی ایک شرط معصوم ھونا ھے اور خدا کے علاوہ کوئی اس(کے معصوم ھونے) کو نھیں جانتا، اور ائمہ علیھم السلام پر ایمان رکھنا اسی طرح ضروری ھے جس طرح پیغمبراکرم(ص)پر ایمان رکھنا ضروری ھے کیونکہ امامت، نبوت کی طرح شریعت کا اصلی ستون ھے، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ شیعہ، امامت کے سلسلہ میں اپنے مخالفوں کو کافر شمار کرتے ھوں، بلکہ شیعہ تمام اسلامی فرقوں کو مسلمان شمار کرتے ھیں، اورانھیںاسلامی برادر سمجھتے ھیں، اگرچہ امامت کے سلسلے میں ان کے ھم عقیدہ نھیں ھیں، اسی وجہ سے کبھی پنجگانہ اصول دین کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ھیں: پھلے تین اصول یعنی خدا، پیغمبر اسلام(ص)اور قیامت کو اصول دین شمار کرتے ھیں اور ائمہ علیھم السلام کی امامت اور عدل الٰھی کو اصول مذھب شمار کرتے ھیں۔
ھم اپنی اس گفتگو کو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیھما السلام کی حدیث پر ختم کرتے ھیں جو امامت کے مسئلہ میں ھمارے لئے الھام بخش ھے، ”امامت یعنی زمام دین، نظام مسلمین، دنیا کی صلاح اور مومنین کی عزت ھے، امامت، اسلام کی بنیاد اور بلند شاخیں ھیں، امام کے ذریعہ نماز روزہ، حج، زکوٰة اور جھاد کامل ھوتے ھیں، بیت المال میں اضافہ ھوتا ھے اور ضرورتمندوں کے لئے خرچ کیا جاتا ھے، احکام اور حدود الٰھی نافذ ھوتے ھیں امام ھی کے ذریعہ اسلامی ملک کے سرحدی علاقوں کی حفاظت ھوتی ھے۔
امام، حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام شمار کرتا ھے(اور ان کو نا فذکرتا ھے) حدود الٰھی کو قائم کرتا ھے، دین خدا کا دفاع کرتا ھے، اور اپنے علم و دانش اوروعظ و نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو راہ خدا کی دعوت دیتا ھے۔ [8]([9])
[1] شرح تجرید قوشنچی ، صفحہ ۴۷۲۔
[2] شرح قدیم تجرید، شمسالدین اصفھانی اشعری( توضیحالمراد تعلیق بر شرح تجرید عقائد، تالیف سید ھاشم حسینی تھرانی صفحہ ۲۷۲ کی نقل کے مطابق)
[3] مقدمہ ابن خلدون، صفحہ ۱۹۱۔
[4] اوائلالمقالات ، صفحہ ۷۴، طبع مکتبةالداوری۔
[5] احقاقالحق ،، جلد ۲، صفحہ ۳۰۰، (حاشیہ نمبر ایک)
[6] احقاقالحق ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۴۔ دلائلالصدق ،جلد ۲، صفحہ ۴۔
[7] دلائلالصدق ،جلد ۲، صفحہ ۸۔
[8] اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۲۰۰۔
[9] تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸۔