سیرت اهل بیت (ع) 3/ امام محمد باقر (ع) 1
Monday, 11 September 2017، 10:11 PM
🚩زندگی امام محمد باقر علیہ السلام🚩
محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب اہل تشیع کے پانچویں امام جو "امام باقر(ع)"(57-114ق) کے نام سے معروف اور باقر العلوم کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کی مدت امامت 19 برس تھی۔ واقعۂ عاشورا کے موقع پر آپ بہت چھوٹے تھے۔[1] اپنے زمانے میں تشیُّع کے فروغ کے لئے مناسب تاریخی حالات کو دیکھتے ہوئے آپ نے عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ آپ کا مدفن مدینہ میں ہے۔[2]
اکابرین اہل سنت نے امام باقر(ع) کی علمی اور دینی شہرت کی گواہی دی ہے۔ ابن حجر ہیتمی کہتا ہے:
ابو جعفر محمد باقر نے علوم کے پوشیدہ خزانوں، احکام کے حقائق اور حکمتوں اور لطائف کو آشکار کردیا۔ آپ نے اپنی عمر اللہ کی طاعت میں گذار دی اور عرفاء کے مقامات میں اس مرتبے تک پہنچ گئے تھے کہ بیان کرنے والوں کی زبانیں اس کی وضاحت سے قاصر ہیں اور آپ سے سلوک اور معارف میں کثیر اقوال نقل ہوئے ہیں۔[3]
انگشتریوں کے نقش
امام باقر علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:
رَبِّ لَا تَذَرْنِی فَرْداً[8] اور الْقُوَّةُ لِلّهِ جَمِیعاً۔[9]
ولادت اور شہادت
امام ابو جعفر محمد باقر(ع) بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے[10] گوکہ بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت اسی سال کی 3 صفر المظفر منگل وار ثبت کی گئی ہے۔[11]
نام
پیغمبر اسلام نے آپ کی ولادت سے دسیوں برس قبل آپ کا نام محمد اور آپ کا لقب باقر مقرر کیا تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔ روایت جابر بن عبداللہ اور دیگر روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔[12] علاوہ ازیں آئمہ معصومین کے اسمائے گرامی کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔[13]
شہادت
امام باقر(ع) 7 ذوالحجۃ الحرام سنہ 114ہجری کو [14] رحلت کرگئے۔ امام محمد باقر(ع) کی رحلت و شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی[15] اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقر(ع) کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (اموی – مروانی بادشاہ) ہشام بن عبدالملک براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔[16] بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بن مروان ہے جس نے امام(ع) کو مسموم کیا۔[17] بعض روایات میں حتی کہ زید بن حسن کو آپ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امام(ع) کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛ [18] ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔[19] بہر صورت امام محمد باقر(ع) ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں رحلت فرما گئے ۔[20] کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امام(ع) کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔
اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقر(ع) کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقر(ع) کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز خاندان محمد(ص) کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ ہشام بن عبدالملک امام باقر(ع) کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔
ظاہر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد سے فائدہ اٹھائے اسی بنا پر ابراہیم بن ولید ـ جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسول(ص) کا دشمن تھا ـ کی خدمت حاصل کرے اور ابن ولید بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کرے جو خاندان رسول(ص) کے اندر موجود اور اس خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہو اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقر(ع) کی زندگی کے اندرونی ماحول تک پہونچ رکھتا ہو اور کوئی بھی اسے اس رسائی سے روک نہ سکتا ہو تا کہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اور امام(ع) کو شہید کیا جاسکے۔
امام محمد باقر(ع) جنت البقیع میں اپنے والد کے چچا امام حسن مجتبی علیہ السلام اور والد امام زین العابدین علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔[21]
17/09/11