سیرت اهل بیت (ع) 4 /امام محمد باقر (ع) 2
Monday, 11 September 2017، 10:13 PM
🚩 امام محمد باقر علیہ السلام 🚩
🔹رسول خدا(ص) کا سلام🔹
شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا:
ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہیں سلام کیا؛ انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:
تم کَون ہو؟ - یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے۔میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔اس کے بعد جابر نے کہا: بےشک رسول اللہ(ص) تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔میں نے کہا: و علی رسول اللہ السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ؛ لیکن یہ کیسے اے جابر!جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤ حتی کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لو جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالی اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔[25]
امامت
امام محمد بن علی بن الحسین بن علی، باقر علیہ السلام سنہ 95ہجری میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114ہجری (یا 117 یا 118 ہجری) میں ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک شیعیان آل رسول(ص) کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔
دلائل امامت
جابر بن عبداللہ سے مروی ہے: میں نے رسول اللہ(ص) سے امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد کے آئمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار حسن وحسین، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار علی بن الحسین اور ان کے بعد محمد بن علی جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور۔۔۔۔ میرے خلفاء اور آئمہ معصومین ہیں۔[26]
علاوہ ازیں رسول اللہ(ص) سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام باقر العلوم محمد بن علی الباقر علیہ السلام سمیت تمام ائمہ(ع) کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[27]
امام سجاد(ع) اکثر و بیشتر لوگوں کو امام باقر(ع) کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے عمر بن علی نے اپنے والد امام زین العابدین(ع) سے دریافت کیا کہ "آپ "محمد باقر" کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجاد(ع) نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتی کہ حضرت ہمارےقائم قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔[28]
شیخ مفید رقمطراز ہیں: امام باقر(ع) فضل، علم، زہد اور جود و کرم میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مداحی کرتے تھے اور عوام و خواص آپ کا احترام کرتے نظر آتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الہی اور فنونِ اخلاق و آداب کے فروغ اور ترویج میں امام حسن علیہ السلام اورانکے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقر(ع) جتنے گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) میں نہیں چھوڑے ہیں۔ حضرت امام باقر(ع) کی خدمت میں شرف حضور حاصل کرنے والے باقی ماندۂ اصحاب رسولؐ امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہاء مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کے فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان آپ ایک ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد انشاد کیا کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزین کیا کرتے تھے۔[29]
ہمعصر خلفا
امام باقر(ع) کا عہد امامت درج ذیل پانچ اموی خلفا کے ہمزمان تھا:
ولید بن عبدالملک(86 تا 96) ہجری سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99) ہجری عمر بن عبدالعزیز(99 تا 101) ہجری یزید بن عبدالملک(101 تا 105) ہجری ہشام بن عبدالملک (105 تا 125) ہجری
آپ کے ہم عصر اموی (مروانی خلفاء) میں سے عمر بن عبدالعزیز عدل و انصاف کا پابند اموی خلیفہ تھا ۔اس کے سوا باقی خلفا عدل کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے اور ان سب نے شیعیان آل رسول(ص) سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویئے اور آتش انتقام کے شعلے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔
17/09/11