معارف قرآن و اھل البیت (ع)

معارف قرآن و اھل البیت (ع)

سیرت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام۔

تحریر: علامہ محمد علی فاضل ادام اللہ عزہ

سیاسی اور معاشرتی کیفیت

ایک معلم کا کارنامہ
آپ کی خدمت میں عرض کریں کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دور حکومت میں عمر بن عبدالعزیز کی حکومت کا دور بھی گزرا ہے، جو کہ تمام اموی حکمرانوں سے منفرد تھے، آئیے ان کی انفرادیت کا راز جانتے ہیں۔۔۔۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تمام اموی خلفاء میں سے صر ف حضرت عمر بن عبد العزیز ہی نے اتنا بڑا اقدام کیا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی کے بظاہر دو چھوٹے چھوٹے واقعات نے ان کی اس حد تک کا یا پلٹ دی۔
پہلا واقعہ ان کے بچپن کے زمانے میں رونما ہوا جب وہ عبید اللہ نامی ایک شخص کے پاس علم حاصل کر رہے تھے۔ عبید اللہ ایک خدا شناس ، خدا ترس  صاحب ایمان بادشاہ مطالعہ شخص تھا۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن عمربن عبدالعزیز بنی امیہ کے ہم سن و سال بچوں کے ساتھ کھیل کو دمیں مصروف تھے کہ بچے حسب معمول کھیل کھیل میں بار بار حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر سب و شتم کر رہے تھے۔ اور عمر بن عبد العزیز بھی ان کی ہم نوائی میں  وہی الفاظ دہرا رہےتھے اتفاق سے اسی دوران ان کا استاد بھی وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس نے سنا کہ اس کا شاگرد بھی دوسرے بچوں کی طرح حضرت علی علیہ السلام کو نعوذ باللہ لعنت کر رہا ہے۔ استاد سمجھ دار تھا اس نے وہاں پر تو انہیں  کچھ نہیں کہا بلکہ سیدھا مسجد چلا گیا ۔ اتنے میں درس کا وقت ہو گیا۔ عمر بن عبد العزیز بھی درس پڑھنے کیلئے مسجد میں آگئے استاد نے جو نہی اپنے اس شاگرد کو آتے دیکھا تو نماز پڑھنا شروع کردی، وہ استاد کا انتظار کرنے لگے کہ نماز سے فارغ ہوں اور درس پڑھائیں۔ مگر استاد نے نمازکو معمول سے کچھ زیادہ طول دے دیا۔ شاگرد بھانپ گیا کہ استاد اس سے ناراض ہیں اور نماز ایک بہانہ ہے استاد نے نماز ختم کی اور غضب  آلود نگاہوں کے ساتھ اپنے شاگرد کی طرف دیکھا اور پوچھا:’’ تمہیں کب سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ خداوند عالم بدر والوں اور بیعت رضوان والوں سے راضی ہونے کے بعد ان پر ناراض ہو گیا ہے اور انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ہے ؟؟‘‘
ہم یہاں پر یہ عرض کر تے جائیں کہ حضرت علی علیہ السلام جنگ بدر اور بیعت رضوان میں شرکت کر نے والوں میں سے ایک ہیں بلکہ ان سب سے والا اور بر تر ہیں،، بہر حال شاگرد نے جواب دیا: ’’ میں نے اس بارے میں کوئی بات کسی سے نہیں سنی‘‘
استاد نے کہا: تو پھر کس بنا پر تم (نعوذباللہ)علی کو لعنت کر رہے تھے؟؟
عمر نے کہا: میں اپنے اس عمل پر معذرت خواہ ہوں ، اللہ کی بارگاہ میں بھی توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کر تا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کر وں گا۔
استاد کے منطقی اور موثر الفاظ نے اس کے دل پر کافی حد تک اثر کیا، اس نے اسی دن سے تہیہ کر لیا کہ آئندہ کبھی علی علیہ السلام کو  نا سزا نہیں کہے گا۔ لیکن پھر بھی وہ کو چہ بازار اور بچوں کو کھیلتے ہوئے سنتا رہا کہ لوگ بے باکا نہ علی کو نا سزا کہہ رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک اور واقعہ رونما ہوگیا ۔ جس نے اس تہیہ کو مزید پختہ کر دیا

موافقین ۰ مخالفین ۰ 17/09/11
جعفر علی نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی