معارف قرآن و اھل البیت (ع)

معارف قرآن و اھل البیت (ع)

۳۸ مطلب در سپتامبر ۲۰۱۷ ثبت شده است

رسول خدا (ص) کا امام حسین (ع) کے غم میں گریہ کرنا۔ اہلِ سنت روایات

 

حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں لکھتا ہے کہ

( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علی الجوهری ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهیثم القاضی ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعی عن أبی عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَیْتُ اللَّیْلَةَ حُلْماً مُنْکَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِیدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَیْتُ کَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِکَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِی حَجْرِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) خَیْراً رَأَیْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَیَکُونُ فِی حَجْرِکِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَیْنَ(علیه السلام) فَقَالَتْ وَ کَانَ فِی حَجْرِی کَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ یَوْماً عَلَی النَّبِیِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِی حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَیْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَکَ قَالَ أَتَانِی جَبْرَئِیلُ(علیه السلام) فَأَخْبَرَنِی أَنَّ أُمَّتِی سَتَقْتُلُ ابْنِی هَذَا وَ أَتَانِی بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.

المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 3، ص 176 – 177 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 196 – 197 و البدایة والنهایة، ابن کثیر، ج 6، ص 258 و.

ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔

بہت جلد فاطمه(علیها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔

ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔

حاکم نیشابوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.

اور ایک دوسری جگہ پر لکھتا ہے کہ:

أخبرناه أبو الحسین علی بن عبد الرحمن الشیبانی بالکوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاری ثنا خالد بن مخلد القطوانی قال حدثنی موسی بن یعقوب الزمعی أخبرنی هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبی وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتنی أم سلمة رضی الله عنها ان رسول الله صلی الله علیه وآله اضطجع ذات لیلة للنوم فاستیقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استیقظ وهو حائر دون ما رأیت به المرة الأولی ثم اضطجع فاستیقظ وفی یده تربة حمراء یقبلها فقلت ما هذه التربة یا رسول الله قال أخبرنی جبریل(علیه الصلاة والسلام) ان هذا یقتل بأرض العراق للحسین فقلت لجبریل أرنی تربة الأرض التی یقتل بها فهذه تربتها هذ حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.

المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 4، ص 398.

عبد الله بن زمعه کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔

حاکم نیشابوری کہتا ہے:یہ حدیث بخاری و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔

طبرانی نے معجم کبیر، هیثمی نے مجمع الزوائد اور متقی هندی نے کنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:

وعن أم سلمة قالت کان رسول الله صلی الله علیه وسلم جالسا ذات یوم فی بیتی قال لا یدخل علی أحد فانتظرت فدخل الحسین فسمعت نشیج رسول الله صلی الله علیه وسلم یبکی فأطلت فإذا حسین فی حجره والنبی صلی الله علیه وسلم یمسح جبینه وهو یبکی فقلت والله ما علمت حین دخل فقال إن جبریل علیه السلام کان معنا فی البیت قال أفتحبه قلت أما فی الدنیا فنعم قال إن أمتک ستقتل هذا بأرض یقال لها کربلاء فتناول جبریل من تربتها فأراها النبی صلی الله علیه وسلم فلما أحیط بحسین حین قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا کربلاء فقال صدق الله ورسوله کرب وبلاء، وفی روایة صدق رسول الله صلی الله علیه وسلم أرض کرب وبلاء.

المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 23، ص 289 – 290 و مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 188 – 189 و کنز العمال، المتقی الهندی، ج 13، ص 656 – 657 و….

ام سلمه کہتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ام سلمه کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا(ص) کو دکھائی۔

جب دشمن کے لشکر نے امام حسین(ع) کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین(ع) کو شھید کرنا چاہتے تھے تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلاء ہے۔ امام حسین علیه السلام نے فرمایا کہ رسول اکرم صلّی اللّه علیه و آله نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔

هیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

رواه الطبرانی بأسانید ورجال أحدها ثقات.

اسی طرح، هیثمی مجمع الزوائد میں ، ابن عساکر تاریخ مدینه دمشق میں، مزّی تهذیب الکمال میں  اور ابن حجر عسقلانی  تهذیب التهذیب میں لکھتے ہیں کہ:

عن أم سلمة قالت کان الحسن والحسین یلعبان بین یدی رسول الله صلی الله علیه وسلم فی بیتی فنزل جبریل فقال یا محمد إن أمتک تقتل ابنک هذا من بعدک وأومأ بیده إلی الحسین فبکی رسول الله صلی الله علیه وسلم وضمه إلی صدره ثم قال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة ودیعة عندک هذه التربة فشمها رسول الله صلی الله علیه وسلم وقال ویح وکرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمی أن ابنی قد قتل قال فجعلتها أم سلمة فی قارورة ثم جعلت تنظر إلیها کل یوم وتقول إن یوما تحولین دما لیوم عظیم.

تهذیب التهذیب، ابن حجر، ج 2، ص 300 – 301 و تهذیب الکمال، المزی، ج 6، ص 408 – 409 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 192 – 193 و ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 252 – 253 و مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189 و

ام سلمه سے روایت ہوئی ہے کہ:

امام حسن و حسین علیهما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد(ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی۔  رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے  گریہ کیا اور حسین علیه السلام کو سینے سے لگا لیا۔

پھر رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی  ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شھید ہو گیا ہے۔

ام سلمه نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔

ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

و فی الباب عن عائشة و زینب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبی أمامة و أنس بن الحارث و غیرهم.

اس بارے میں  روایات عایشه، زینب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامه، انس بن حارث اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔

اسی طرح هیثمی ایک دوسری روایت نقل کرتا ہے کہ:

عن أبی أمامة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لنسائه لا تبکوا هذا الصبی یعنی حسینا قال وکان یوم أم سلمة فنزل جبریل فدخل رسول الله صلی الله علیه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعی أحدا أن یدخل علی فجاء الحسین فلما نظر إلی النبی صلی الله علیه وسلم فی البیت أراد أن یدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغیه وتسکنه فلما اشتد فی البکاء خلت عنه فدخل حتی جلس فی حجر النبی صلی الله علیه وسلم فقال جبریل للنبی صلی الله علیه وسلم إن أمتک ستقتل ابنک هذا فقال النبی صلی الله علیه وسلم یقتلونه وهم مؤمنون بی قال نعم یقتلونه فتناول جبریل تربة فقال بمکان کذا وکذا فخرج رسول الله صلی الله علیه وسلم قد احتضن حسینا کاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبی علیه فقالت یا نبی الله جعلت لک الفداء انک قلت لنا لا تبکوا هذا الصبی وأمرتنی ان لا أدع أحدا یدخل علیک فجاء فخلیت عنه فلم یرد علیها فخرج إلی أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتی یقتلون هذا.

مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189 و المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 8، ص 285 – 286 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 190 – 191 و ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 245 – 246 و….

ابو امامه سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ حضرت رسول صلّی اللّه علیه و آلهنے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسین علیه السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔

جبرئیل نے رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو  بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔

جبرئیل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو دی اور کہا کہ یہ خاک اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله غم کی حالت میں حسین علیه السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔

ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلّی اللّه علیه و آله نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔


ترمذی شریف کی عبارت ملاحظہ ہو

عن سلمیٰ قالت دخلت علی ام سلمة وھی تبکی فقلت ما تبکیک قالت رأیت رسول اللہ تعنی فی المنام وعلی راسہ ولحیتہ التراب فقلت مالک یا رسول اللہ قال شھدت قتل الحسین انفاً.(١)

ترجمہ۔؛ سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گئی تو ان کو روتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھاآپ کیوں رو رہی ہیں فرمایا میں نے سرور کائنات کو خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے سراور ریش مبارک پر خاک پڑی ہے تو پوچھا یا حضرتۖ آپ خاک آلود کیوں ہیں تو فرمایا: میں ابھی حسین کی شہادت کا منظر دیکھ رہا تھا ۔(۱) 

ملاحظہ ہوں اہل اسنت کی معتبر کتابیں:

(۱)سنن ترمذی جلد٢ ص٢٤١

(۲)مشکوٰة شریف باب مناقب اہل بیت علیہم السلام ج٣،ص٢٧٦

(۳)صواعق محرقہ ص١٩٣ طبع مصر

(۴)ینابیع المودة ص٣٢٠ باب ٦٠

(۵)تاریخ دمشق ابن عساکر ص٢٦٣ حصہ ذکر امام حسین

(۶)تذکر ة الخواص ص٢٦٨

(۷)تاریخ الخلفاء سیوطی ص ٢٠٨

(۸)کفایة الطالب علامہ گنجی ص٤٣٣            

مشکوة شریف مترجم با عناوین ج٣ ص٢٧٦ پر مذکور ہ روایت پر مترجم نے ایک عجیب حاشیہ لگایا ہے کہ یہ روایت قطعا غلط ہے اس لیے کہ تمام محدثین اورمؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ام سلمہ، شھادت حسین (ع) سے دو سال قبل وفات پاچکی تھیں۔

اما الجواب : اہل سنت کی معتبر کتاب سیرت حلبیة (١) میں صریحا موجود ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمة (رض) کی وفات جبکہ وہ چوراسی سال کی تھیں یزیدبن معاویہ کی حکومت میں ہوئی تھی اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

(ج٣ ص٤١١ طبع دارالمعرفة بیروت)

اہل سنت کے معتبر مؤرخ علامہ ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء (ج٢ ص٢١٠ ) میں لکھتے ہیں کہ بعض نے گمان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) کی وفات   ٥٩ (انسٹھ) میں ہوئی ہے یہ بھی (انکا) وہم ہے ظاہریہ ہے کہ ان کی وفات ٦١ (اکسٹھ) میں ہوئی ہے والظاہروفاتھا فی سنة احدی و ستین رضی اللہ عنہا

نیز علامہ ذھبی نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں ٦١ (اکسٹھ) کے حوادث میں ام المؤمنین حضرت ام سلمة (رض) کی وفات کا ذکر کیا ہے۔

نیز علامہ ذھبی اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء (ج٢ ص٢٠٢) میں لکھتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں حضرت ام سلمہ (رض) نے وفات پائی حتی کہ جب حسین شہید کی شہادت کی خبر سنی تو وہ بے ہوش ہوگئیں اور ان پر بہت محزون ہوئیں ان کی شہادت کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہیں اورپھر انتقال کر گئیں۔

وکانت آخر من مات من امھات المؤمنین عمّرت حتی بلغھا فقتل الحسین (ع) الشھید فو جمت لذلک و غش علیھا و حزنت علیہ کثیرا لم تلبث بعدہ الّا یسیراً۔

نیز اہل سنت کی معتبر کتاب مجمع الزوائد ج٩ ص٢٤٦ پر تصریح موجود ہے کہ جناب أم سلمہ (رض) نےیزید ابن معاویہ کے زمانہ میں   ٦٢ باسٹھ میں انتقال کیا ہے۔ اور اس کو محدث طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال ثقہ ہیں۔

مزیدتائید: حضرت ام سلمہ(رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے حسین بن علی کی شہادت پر جنوں کا نوحہ سنا ہے اس کو طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال صحیح ہیں ( مجمع الزوائد ج٩ ١٩٩)

اگر وہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے پہلے فوت ہوگئی تھیں تو پھر انہوں نے امام مظلوم کی شہادت پرجنّات کا نوحہ کیسے سن لیا؟ حالانکہ جنّات کا نوحہ سننے والی روایت بھی صحیح ہے۔

خلاصہ: یہ کہ حضرت ام سلمہ کی وفات بقول ذھبی حکومت یزیدمیں ٦١ ہجری میں یا صحیح قول کے مطابق ٦٢ باسٹھ ہجری میں ہوئی ہے کما فی مجمع الزوائد بہر حال ان کی وفات امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد ہوئی ہے۔

پس مترجم مشکوة کا یہ دعوی کرنا کہ ان کی وفات شھادت حسین علیہ السلام سے دو سال قبل ہونے پر سب مورخین کا اتفاق ہے، یہ دعوی جہالت پر مبنی ، اورغلط ہے۔

نوٹ :نمبر١

ابن عباس سے بھی اسی مضمون کی روایت کتب میں پائی جاتی ہے (٢) تاریخ الخلفاء ص ٢٣٦ طبع مصر (٣) کفایة الطالب مناقب علی ابن ابی طالب ص ٤٣٨ ؛ الصواعق المحرقہ ص١٩٣.

جس گھر میں ترمذی شریف ہو گویا اس گھر میں نبی موجود ہیں .

ملاحظہ ہو اہل سنت کی معتبر کتاب اسماء الرجال مشکوٰة شریف ص١٨٤ :جس گھر میں یہ کتاب (ترمذی) موجود ہو پس یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے یہاں خود نبی موجود ہیں جو گفتگو فرمارہے ہیں ۔

نوٹ:نمبر٢

مذکورہ روایت سے ام سلمہ زوجہ رسول خدا ۖ کا مصیبت امام حسین کویاد کر کےرونا ثابت کرتاہے کہ مصیبت امام حسین میں رسول ۖ خدانے اپنے سر مبارک اورریش اقدس میں مٹی ڈالی ہے تو پھر مصیبت امام حسین میں رونا اورسر پر خاک ڈالنا بدعت نہیں ہے بلکہ عین سنت رسولۖ ہے۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 18:01
جعفر علی نقوی

مقام حضرت امام حسین (ع) اور اہل سنت والجماعت

 

محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق وباطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی وحریت کے متوالوں کے لئے ظلم وجبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔

 

سید محمد رضوی
محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق وباطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی وحریت کے متوالوں کے لئے ظلم وجبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔

حقیت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی

حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول (ع)حضرت امام حسین (ع)تھے ،تو دوسری طرف ظالم وجابر اور فاسق وفاجر حکمراں یزید پلیدتھا ۔حضرت امام حسین (ع) نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضۂ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی براوئیوں کوفروغ دیا ،اورایک بار پر دور جاہلیت کے باطل اقدارکو زندہ کر کے اس دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،جس کی خاطر پیغمبر اکرم نے 23برس تک اذیت وتکلیف برداشت کی تھی ۔ حضرت امام حسین دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہر ہ سے اسلام کے درخت کی آبیاری کی ،اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے:اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی ہے اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔ آج ہم اپنے اس پروگرام میں احادیث رسول وسنت نبوی کی روشنی میں اہل سنت کے معتبر ماخذ سے حضرت امام حسین کے اعلی مقام ومنزلت پرروشنی ڈالیں گے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کو ان کے علاوہ دیگر اکابرین اہل سنت من جملہ ، ابن ماجہ ، ابو بکر سیوطی ۔ترمزی ، ابن حجر ، حاکم ، ابن عساکر ، ابن اثیر ، حموینی ، نسائی وغیرہ نے بھی مستند حوالوں کے ساتھ حضور اکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :الحسن ولحسین سیدا شبا ب اہل الجنۃ’’ حسن وحسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔

اس حدیث کے راویوں میں حضرت علی کے علاوہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں ،جن میں حضرت عمر وابو بکر ، ابن مسعود ، حذیفہ ، جابر بن عبداللہ ، عبد اللہ بن عمر ، قرہ ، مالک بن الحویرث بریدہ ، ابو سعید خذری ، ابوہریرہ ، انس ، اسامہ اور براء قابل ذکر ہیں۔
حضرت امام حسین کے بارے میں پیغمبر اکرم کی ایک اور مشہور حدیث ہے:

’’حسین منی وانا من حسین ‘‘(حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں)

اس حدیث میں آپ کے ساتھ امام حسین کے خونی رشتے کے علاوہ دونوں بستیوں کے روحانی اور معنوی روابط کی صراحت ملتی ہے، جس کی تعبیر یہ ہے کہ دین اسلام جس کی بنیا د رسول خدا د نے رکھی تھی ، اس کا تحفظ حضرت امام حسین نے کیا۔ اس حدیث کو شیعہ مآخذ کے علاوہ تواتر کے ساتھ سنی مآخذ میں بیان کیاگیا ہے ،اور بعض مآخذ میں اس جملے کے ساتھ دیگر جملے بھی نقل کئے گئے ہیں ،جن میں حضرت امام حسین کے ساتھ حضور اکرم ﷺکی شدید محبت کا اظہار ہوتا ہے ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے حسین سے محبت کی ،اس نے اللہ سے محبت کی ‘‘نیز فرمایا ہے:خدایا جس نے ان دونوں حسنین سے دشمنی کی میں بھی اس کا دشمن ہوں، بعض سنی مآخذ میں ایسے الفاظ بھی اس حدیث کے ساتھ نقل کئے گئے ہیں۔ جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ان لوگوں سے صلح وآشتی چاہتے ہیں جو حضرات حسنین کریمین کے ساتھ امن وسلامتی سے رہیں ،اور ان کے ساتھ آپ نے جنگ کا اعلان کیا ہے ،جو حسنین کے ساتھ جنگ وجدال کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔‘‘حسین مجھ سے ہے ،اور میں حسین سے ہوں‘‘والی حدیث کو نقل کرنے والے سنی اکابرین میں ابن ماجہ ، ترمزی ، ابوہریرہ ، نسائی ، ابن اثیر ، سیوطی ، امام احمد بن حنبل اور طبر ی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت امام حسین کی عظمت اور پیغمبر اکرم کی ان سے فرط محبت کا اندازہ ابو ہریرہ کی اس روایت سے بھی کر سکتے ہیں۔ ابن عبد البر قرطبی نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:’’میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے سنا ہے ،کہ پیغمبر اکرم امام حسین کے دونوں ہاتھوں کو تھامے ہوئے تھے۔ اور امام حسین کے دونوں پاؤں پیغمبر اکرم کے پاؤںپرتھے ، آپ نے فرمایا :اوپر آمیر ا بیٹا، امام حسین اوپر چلے گئے ،اور آپ نے سینہ پیغمبر پر پاؤں رکھا ، اس وقت آپ نے فرمایا :حسین منہ کھولو ، اس کے بعد حضور نے امام نے حسین کو چوما اورفرمایا :پروردگار اس سے محبت کر ، اس لئے کہ میں اس کو چاہتا ہوں، اہل سنت کے مآخذ اور مشہور سنی محدثین ومؤ رخین کی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حسنین سے دوستی مومنین پر فرض ہے اوران سے محبت کے بغیر کسی سخص کا ایمان کامل نہیں ہوتا، اور ان سے مقابلہ کرنے والا یا بغض رکھنے والا ان مآخذ کی روشنی میں خدا اور رسول خدا کا دشمن قرار پاتا ہے۔ ترمزی ، ابن ماجہ ، ابن حضر ، امام احمد بن حنبل ، حاکم ، ابوبکر سیوطی ، ابو سعید خدری ، سبط ان الجوزی ، عباس خلیفہ ہارون الرشید ، مؤ رخ طبری حضرات وغیرہ نے عبداللہ بن عمر ،یعلی بن مرہ ، سلمان فارسی وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے ایسی احادیث نقل کی ہیں ،جن کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نے ان لوگوں سے محبت ودوستی کا اظہار فرمایا ہے جو حسنین کریمین سے محبت ودوستی رکھتے ہیں ،اور ان لوگوںکے ساتھ نفرت وعناد کا اعلان فرمایا ہے ،جو امام حسن وامام حسین سے دشمنی رکھتے اور بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ نیز ان احادیث میںان لوگوں کے لئے جنت نعیم کی بشارت دی گئی ہے جو حسنین سے محبت کرتے ہیں ،اور ان لوگوں کے جہنم واصل ہونے کی خبر دی گئی ہے جو ان دونوں سے بغض وعناد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے بعض حوالوں میں حضرت حسین کے ماں باپ کا بھی ذکر ہے اور یہ ارشاد نبوی نقل کیا گیاہے کہ ’’جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں (حسنین )اور ان کے ماں باپ سے محبت کی ، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے برابر مقام پائے گا۔ ‘‘ان مفاہیم کی حامل احادیث میں ایک وہ حدیث بھی شامل ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر ہیں اور اس کوابن عبد البر ، ابو حاتم اور محب طبری نے روایت کی ہے ۔ حدیث میںکہا گیا ہے کہ حضور نے امام حسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

من احبنی فلیحب ہذین(جس نے مجھ سے محبت کی، اسکو چاہئے کہ ان دونوں سے بھی محبت کرے)

مذکورہ احادیث نبوی کی روشنی میںیہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اہل بیت رسول کے ساتھ دشمنی رسول خدا کے ساتھ دشمنی کے متردف ہے ،اور ان سے محبت کا مطلب خدا ورسو ل سے چاہت کا اظہار ہے۔ ان احادیث کے مفاہیم کوایمان کے اصول وشرائط کے تحت پرکھنا چاہئے ،کیوںکہ تکمیل ایمان کی شرط عشق رسول ہے، جس کے بغیر مسلمان اخروی فلاح نہیں پا سکتا چنانچہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں۔

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 17:59
جعفر علی نقوی

:

مباہلہ کیا ہے؟


” مباہلہ “ در اصل ” بھل“ کے مادہ سے ہے ، اس کا معنی ہے ”رہا کرنا “ اور کسی کی قید و بندکو ختم کردینا ۔ اسی بناء پر جب کسی جانور کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس کے پستان کسی تھیلی میں نہ باندھیں تاکہ اس کا نو زائیدہ بچہ آزادی سے اس کا دودھ پی سکے تو اسے ” باھل “ کہتے ہیں ۔ دعا میں ” ابتھال“ تضرع و زاری اور کام خدا کے سپرد کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔ 

کبھی کبہار یہ لفظ ہلاکت ، لعنت اورخدا سے دوری کے معنی میں اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ بندے کو اس کے حال پر چھوڑدینا منفی نتائج کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ تو تھا ” مباہلہ “ کا مفہوم اصل لغت کے لحاظ سے لیکن اس مروج مفہوم کے لحاظ سے جو اوپر والی آیت میں مراد لیا گیا ہے یہ دو اشخاص کے درمیان ایک دوسرے پر نفرین کرنے کو کہتے ہیں اور وہ ببھی اس طرح کہ دو گروہ جو کسی اہم مذہبی مسئلے میں اختلافَ رائے رکھتے ہوں ، ایک جگہ جمع ہو جائیں ، بار گاہ الہٰی میں تضرع کریں اور اس سے دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا و ذلیل کرے اور اسے سزا و عذاب دے ۔ 

دعوت مباہلہ 

مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںاور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔

” مباہلہ “ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سوفی صد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتہ دیتا ہے ۔ 

کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کردے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔ 

یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہو اتو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا ۔ 

کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمنان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوتِ مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔ 

اسلامی روایات میں ہے کہ “ مباہلہ “ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی چغلی کھاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شو ر و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ ” مباہلہ“ کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور وغل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جالینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صور میںان سے ”مباہلہ “ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے ۔ 

طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) کو گود میںلئے حسن (علیه السلام) کا ہاتھ پکڑے اور علی (علیه السلام) و فاطمہ (علیه السلام) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیںکہ جب میں دعا کرو ، تم آمین کہنا ۔ 

عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔ 

”فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ.......“

گذشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کی نفی پر استدلال تھا ۔ اب اس آیت میں پیغمبر اکرم کوحکم دیا گیا ہے کہ اگر اس علم و دانش کے بعد بھی جو تمہارے پاس پہنچا ہے کچھ لوگ تم سے لڑیں جھگڑیں تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو اور اس سے کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاوٴ ، ہم اپنی عورتوں کو دعوت دیتے یں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاوٴ اور ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو دعوت دو پھر ہم مباہلہ کریں گے اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں گے ۔ 

بغیر کہے یہ بات واضح ہے کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہو ں ، ایک دوسرے پر لعنت و نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا اور نفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذا ب میں مبتلا ہو جائے ۔ 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 14 September 17 ، 22:51
جعفر علی نقوی

🎓ولایت فقیہ🎓
⁉️کہا جاتا ہے کہ ولایت فقیہ امام خمینیؒ  کی ایجاد ہے اس سے پہلے ولایت فقیہ کا تصور اسلام میں نہ تھا ؟؟ کیا یہ بات صیح ہے ؟؟؟
📍ولایت فقیہ ، شیعہ فقہ کا ایک بہت اہم جز ہے ۔ جن کو فقہ کا علم نہیں انہیں اس بات کا تصور ہے کہ یہ امام خمینیؒ  کی ایجاد ہے ۔ قدیمی شیعہ علماء بھی ولایت فقیہ کو تسلیم کرتے ہیں ۔ امام خمینیؒ  نے اس ولایت فقیہ کے نظریے کو آج کی دنیا اور سیاست کے مطابق ڈھال کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس کو ایسا سادہ اور عملی زبان میں بیان کیا کہ ہر صاحب نظر اس نظریے کو سمجھ سکے ۔

📍مرحوم میرزا  شیرازی نے بھی اپنے دور میں تمباکو کے حرام ہونے پر جو فتویٰ لگوایا اسکی جڑیں سیاسی تھیں اور باقی فقہاء اور علماء پر بھی اس پر عمل کرنا واجب تھا ۔
📍اسی طرح میرزا محمد تقی شیرازی نے بھی جہاد اور دفاع کا حکم دیا ۔ جو کے ایک حکومتی حکم تھا ۔ ان شخصیات نے اس وقت مسلمانوں کی صلاح کیلئے یہ سیاسی احکام لاگو کروائے باقی علماء جو ولایت فقیہ کی فقہی ہونے سے موافق ہیں ان میں مرحوم کاشف الغطاء ، مرحوم نراقی اور مرحوم آقا نائینی ہیں ۔

🔎مرحوم کاشف الغطاء ⬅️ ولایت کے چار رتبے ہیں اور تیسرا وه ہے جس میں مجتھد کی ولایت هوتی هےاور وه نائب امام هےاور دلائل سے ثابت هوتا هےکه فقیه معاشرے کے تمام عمومی امور اور معاشرے کی نظام دهی کے لیے ولایت رکھنا هے (الفردوس الاعلی ..ص 54)

🔎مرحوم نراقی ⬅️جهاں جهاں پیغمبر ص اور آئمه کی ولایت کا اطلاق ہوتا ہے (جو اسلام کے محافظ هیں)  فقیه بھی اسی دائره کار میں ولایت اور اختیار رکھتا ہے
(عوان الایام . عائده تحدید ولایه الحاکم ص 178 -188)
📝انصاف کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فقہ شیعہ میں ولایت فقیہ کی جڑیں محکم اور مضبوط ہیں ۔ ہاں اسکی جزئیات میں علماء کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر قدیم زمانے میں علماء نے اسے اہمیت نہیں دی تو اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے اور لوگ اسے قبول کرنے کی آمادگی نہیں رکھتے ہیں لیکن جب آپ ان علماء کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو کوئی عالم بھی اسلام کے علاوہ کسی حاکمیت کو قبول نہیں کرتا ہے ۔
📋صاحب جواہر نے اپنی کتاب جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام ج 21 میں ولایت فقیہ کو ولایت کے باب میں اسے بیان نہیں کیا بلکہ جہاد اور اسکے متعلق ابواب میں ولایت فقیہ کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب جواہر بھی ولایت فقیہ کے دائرہ کار کو وسیع تسلیم کرتے ہیں ۔
کسی بھی اسلامی معاشرے کو کمال تک پہنچنے کے لیے ولی فقیہ کی ضرورت الزامی ہے اور قدیم سے تمام علماء شیعہ کا اس پر اتفاق ہے ۔
🔎محمد  بن نعمان 413 ھ۔ق شیخ مفید ⬅️ جب بھی کسی معاشرے پر سلطان عادل ( امام معصوم ؑ ) کا وجود نہ ہو ۔ فقیہ جو اہل حق ، عادل، تجربہ کار اور صاحب عقل و فضل ہو، اس سلطان عادل کے فرائض کو اپنے دوش پر سنبھالے ۔
المقنہ ص 95
منبع: کتاب ولایت فقیہ،کانون عزت و اقتدار
سازمان بسیج مستضعفین

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 23:24
جعفر علی نقوی

🌷امام باقر(ع)کی بارگاہ میں🌷

💠محب اہل بیت علیہم السلام

📜یا جَابِرُ أَ یَکْتَفِی مَنِ انْتَحَلَ التَّشَیُّعَ أَنْ یَقُولَ بِحُبِّنَا أَهْلَ الْبَیْتِ فَوَ اللَّهِ مَا شِیعَتُنَا إِلَّا مَنِ‏ اتَّقَى‏ اللَّهَ‏ وَ أَطَاعَه‏

🗒اے جابرجو شیعہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں کیا ان کے لئے یہی کافی ہوگا کہ کہیں ہم اہل بیت کے دوستدار ہیں؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ کوئی نہیں ہے سوائے اس کے جو اللہ کا تقوی اختیار کرے اور اس کی اطاعت کرے۔

📚الکافی (ط - الإسلامیة)،ج‏2،ص74؛ وسائل الشیعة، ج‏15، ص234۔

💠ذکر

📜ذکْرُ اللِّسَانِ‏ الْحَمْدُ وَ الثَّنَاءُ وَ ذِکْرُ النَّفْسِ الْجَهْدُ وَ الْعَنَاءُ وَ ذِکْرُ الرُّوحِ الْخَوْفُ وَ الرَّجَاءُ وَ ذِکْرُ الْقَلْبِ الصِّدْقُ وَ الصَّفَاءُ وَ ذِکْرُ الْعَقْلِ التَّعْظِیمُ وَ الْحَیَاءُ وَ ذِکْرُ الْمَعْرِفَةِ التَّسْلِیمُ وَ الرِّضَاءُ وَ ذِکْرُ السِّرِّ الرُّؤْیَةُ وَ اللِّقَاءُ.

🗒زباں کا ذکر حمد وثناء ہے، نفس کا ذکر کوشش اور سختیاں برداشت کرنا، اور روح کا ذکر خوف اور امید ہے اور قلب کا ذکر صدق و صفا ہے اور عقل کا ذکر تعظیم اور حیا ہے، معرفت کا ذکر تسلیم و رضا ہے، باطنی اور خفیہ ذکر مشاہدہ اور ملاقات ہے۔

📚روضة الواعظین و بصیرة المتعظین (ط - القدیمة)، ج‏2، ص390؛ مشکاة الأنوار،ص55؛ مستدرک الوسائل،ج‏5، ص397۔

💠پاکدامنی

📜قالَ لَهُ رَجُلٌ إِنِّی‏ ضَعِیفُ‏ الْعَمَلِ‏ قَلِیلُ‏ الصَّلَاةِ قَلِیلُ‏ الصَّوْمِ‏ وَ لَکِنْ أَرْجُو أَنْ لَا آکُلَ إِلَّا حَلَالًا وَ لَا أَنْکَحَ إِلَّا حَلَالًا فَقَالَ وَ أَیُّ جِهَادٍ أَفْضَلُ مِنْ عِفَّةِ بَطْنٍ وَ فَرْج‏

🗒امام سے کسی نے عرض کیا کہ میں عمل میں کمزور ہوں نماز کم پڑھتا ہوں روزہ کم رکھتا ہوں لیکن کوشش کرتا ہوں حلال کے علاوہ نہ کھاؤں اور حلال کے سوا نکاح نہ کروں۔ آپ نے فرمایا پیٹ اور شرمگاہ کی پاکیزگی سے بہتر کون سا جہاد ہوگا۔

📚المحاسن،ج‏1،ص292۔

💠جہاد

📜۔۔لَا فَضِیلَةَ کَالْجِهَادِ وَ لَا جِهَادَ کَمُجَاهَدَةِ الْهَوَى‏۔۔۔


🗒۔۔۔جہاد جیسی کوئی فضیلت نہیں اور خواہش نفس سے جہاد جیسا کوئی جہاد نہیں۔

📚تحف العقول،ص286؛ الوافی،ج‏26،ص262؛ بحارالأنوار (ط - بیروت)،ج‏75،ص165۔

💠عالم کی فضیلت:

📜عالِمٌ یُنْتَفَعُ بِعِلْمِهِ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِینَ أَلْفَ عَابِد

🗒جس عالم کے علم سے فائدہ حاصل کیا جائے وہ ستر ہزار عابدوں سے افضل ہے۔

📚تحف العقول، ص294؛ بصائر الدرجات، ج‏1،ص6؛ کافی (ط - دار الحدیث)،ج‏1،ص79؛ وسائل الشیعة،ج‏16، ص347۔

💠عالم کون؟

📜لا یَکُونُ الْعَبْدُ عَالِماً حَتَّى لَا یَکُونَ حَاسِداً لِمَنْ فَوْقَهُ وَ لَا مُحَقِّراً لِمَنْ دُونَهُ.


🗒جو شخص اپنے بڑے سے حسد کرے اور اپنے سے چھوٹے کی تحقیر کرے وہ شخص عالم نہیں ہوسکتا۔

📚بحارالأنوار (ط - بیروت)،ج‏75، ص173؛ تحف العقول،ص293۔

💠مومن مومن سے بے نیاز نہیں


📜قالَ‏ یَوْماً رَجُلٌ‏ عِنْدَهُ‏ اللَّهُمَ‏ أَغْنِنَا عَنْ‏ جَمِیعِ‏ خَلْقِکَ‏ فَقَالَ‏ أَبُو جَعْفَرٍ ع لَا تَقُلْ هَکَذَا وَ لَکِنْ قُلِ اللَّهُمَّ أَغْنِنَا عَنْ شِرَارِ خَلْقِکَ فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یَسْتَغْنِی عَنْ أَخِیه‏

🗒ایک دن کسی نے کہا: بارالہا ہمیں تمام لوگوں سے بے نیاز کردے آپ نے فرمایا ایسا نہ کہوں بلکہ کہو خدایا ہمیں بری مخلوقات سے مستغنی بنادے اس لئے کہ مومن اپنے بھائی سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔

📚تحف العقول، ص293؛ بحار الأنوار (ط - بیروت)، ج‏75،ص172۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:22
جعفر علی نقوی

سیرت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام۔

تحریر: علامہ محمد علی فاضل ادام اللہ عزہ

سیاسی اور معاشرتی کیفیت

ایک معلم کا کارنامہ
آپ کی خدمت میں عرض کریں کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دور حکومت میں عمر بن عبدالعزیز کی حکومت کا دور بھی گزرا ہے، جو کہ تمام اموی حکمرانوں سے منفرد تھے، آئیے ان کی انفرادیت کا راز جانتے ہیں۔۔۔۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تمام اموی خلفاء میں سے صر ف حضرت عمر بن عبد العزیز ہی نے اتنا بڑا اقدام کیا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی کے بظاہر دو چھوٹے چھوٹے واقعات نے ان کی اس حد تک کا یا پلٹ دی۔
پہلا واقعہ ان کے بچپن کے زمانے میں رونما ہوا جب وہ عبید اللہ نامی ایک شخص کے پاس علم حاصل کر رہے تھے۔ عبید اللہ ایک خدا شناس ، خدا ترس  صاحب ایمان بادشاہ مطالعہ شخص تھا۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن عمربن عبدالعزیز بنی امیہ کے ہم سن و سال بچوں کے ساتھ کھیل کو دمیں مصروف تھے کہ بچے حسب معمول کھیل کھیل میں بار بار حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر سب و شتم کر رہے تھے۔ اور عمر بن عبد العزیز بھی ان کی ہم نوائی میں  وہی الفاظ دہرا رہےتھے اتفاق سے اسی دوران ان کا استاد بھی وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس نے سنا کہ اس کا شاگرد بھی دوسرے بچوں کی طرح حضرت علی علیہ السلام کو نعوذ باللہ لعنت کر رہا ہے۔ استاد سمجھ دار تھا اس نے وہاں پر تو انہیں  کچھ نہیں کہا بلکہ سیدھا مسجد چلا گیا ۔ اتنے میں درس کا وقت ہو گیا۔ عمر بن عبد العزیز بھی درس پڑھنے کیلئے مسجد میں آگئے استاد نے جو نہی اپنے اس شاگرد کو آتے دیکھا تو نماز پڑھنا شروع کردی، وہ استاد کا انتظار کرنے لگے کہ نماز سے فارغ ہوں اور درس پڑھائیں۔ مگر استاد نے نمازکو معمول سے کچھ زیادہ طول دے دیا۔ شاگرد بھانپ گیا کہ استاد اس سے ناراض ہیں اور نماز ایک بہانہ ہے استاد نے نماز ختم کی اور غضب  آلود نگاہوں کے ساتھ اپنے شاگرد کی طرف دیکھا اور پوچھا:’’ تمہیں کب سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ خداوند عالم بدر والوں اور بیعت رضوان والوں سے راضی ہونے کے بعد ان پر ناراض ہو گیا ہے اور انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ہے ؟؟‘‘
ہم یہاں پر یہ عرض کر تے جائیں کہ حضرت علی علیہ السلام جنگ بدر اور بیعت رضوان میں شرکت کر نے والوں میں سے ایک ہیں بلکہ ان سب سے والا اور بر تر ہیں،، بہر حال شاگرد نے جواب دیا: ’’ میں نے اس بارے میں کوئی بات کسی سے نہیں سنی‘‘
استاد نے کہا: تو پھر کس بنا پر تم (نعوذباللہ)علی کو لعنت کر رہے تھے؟؟
عمر نے کہا: میں اپنے اس عمل پر معذرت خواہ ہوں ، اللہ کی بارگاہ میں بھی توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کر تا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کر وں گا۔
استاد کے منطقی اور موثر الفاظ نے اس کے دل پر کافی حد تک اثر کیا، اس نے اسی دن سے تہیہ کر لیا کہ آئندہ کبھی علی علیہ السلام کو  نا سزا نہیں کہے گا۔ لیکن پھر بھی وہ کو چہ بازار اور بچوں کو کھیلتے ہوئے سنتا رہا کہ لوگ بے باکا نہ علی کو نا سزا کہہ رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک اور واقعہ رونما ہوگیا ۔ جس نے اس تہیہ کو مزید پختہ کر دیا

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:20
جعفر علی نقوی

وصیت امام محمّد باقر علیہ السلام
بحکم خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کے ابراہیم بن ولید والی مدینہ نے امام محمّد باقر علیہ السلام کو زہر سے شہید کیا...
*
شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اورکہا کہ بیٹامیرے کانوں میں میرے والد ماجدکی آوازیں آرہی ہیں وہ مجھے جلد بلا رہے ہیں ....
(نورالابصار ص ۱۳۱)
*
آپ نے غسل وکفن کے متعلق خاص طور سے ہدایت کی کیونکہ امام راجز امام نشوید امام کوامام ہی غسل دے سکتا ہے
(شواہدالنبوت ص ۱۸۱)
*
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی کہاکہ ۸۰۰/ درہم میری عزاداری اورمیرے ماتم پرصرف کرنااورایساانتظام کرناکہ دس سال تک منی میں بزمانہ حج میرے مظلمومیت کا ماتم کیا جائے...
(جلاء العیون ص ۲۶۴)...
علماء کابیان ہے کہ وصیتوں میں یہ بھی تھا کہ میرے بند ہائے کفن قبرمیں کھول دینا اورمیری قبر چارانگل سے زیادہ اونچی نہ کرنا(جنات الخلود ص ۲۷)
شہادت امام پنجم ع کے موقع پر آپ سب مومنین بالخصوص امام وقت حجت خدا امام مہدی الزمان عج کی بارگاہ میں پرسہ پیش کرتے ہیں..

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:18
جعفر علی نقوی

🏴امام باقر علیه السلام کی علمی تحریک🏴

💦سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور تفسیر قرآن کے سلسلہ میں نقل حدیث کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہوچکی تھی۔ اس زمانے میں اموی بزرگوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علماء میں سے شہاب زہری،مکحول، ہشام بن عروہ وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں خوارج، مرجئہ، کیسانیہ اورغالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امام باقر(ع) نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادق(ع) کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے ہاشمی بزرگوں میں سر فہرست تھے اور علم دین، سنت،علوم قرآن سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسن اورامام حسین کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہیں ہوئی ہیں۔
شیعہ فقہی احکام ـ اگر چہ ـ اس وقت تک صرف اذان، تقیہ، نماز میت وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقر(ع) کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک شیعیان آلرسول(ص) کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تَشَیُّع نے ـ فقہ، تفسیر اور اخلاق پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔
امام باقر(ع) نے اصحاب قیاس کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا۔ اور دیگر منحرف اسلامی فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیت(ع) کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا: "خوارج نے اپنی جہالت کے بموجب عرصہ حیات اپنے لئے تنک کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔
امام باقر(ع) کی علمی شہرت ـ نہ صرف حجاز میں بلکہ ـ حتی کہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ بنا رکھا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امام(ع) کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

تفسیر

امام(ع) نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری موضوعات و مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ امام باقر(ع) نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحق ندیم نے اپنی کتاب "الفہرست" میں بھی اشارہ کیا ہے۔
امام(ع) قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ وہ محکمات کو متشابہات اور ناسخ ومنسوخ سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیت(ع) کے سوا کے پاس بھی نہیں پائی جاسکتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے: کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہیں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے"۔

حدیث

امام باقر(ع) نے احادیث نبوی کو خاص شکل میں توجہ اور اہمیت دی تھی حتی کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہ(ص) کی ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں؛ جیسا کہ ابان بن تغلب اور دوسرے شاگردوں نے اس عظیم ورثے میں سے بڑے مجموعے نقل کئے ہیں۔
امام(ع) نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے سمجھنے کے اہتمام کرنے کی پر بھی ترغیب دلائی ہے۔ مثلا آپ نے فرمایا ہے:

ہمارے پیروکاروں کے مراتب کو احادیث اہل بیت نقل کرنے اور ان کی معرفت و ادراک کی سطح دیکھ کر پہچانو، اور معرفت در حقیقت روایت کو پہچاننے کا نام ہے اور یہی درایۃالحدیث ہے، اور روایت کی درایت و فہم کے ذریعے مؤمن ایمان کے اعلی درجات پر فائز ہوجاتا ہے۔

کلام

امام باقر(ع) کے زمانے میں مناسب مواقع فراہم ہوئے، حکمرانوں کی طرف سے دباؤ اور نگرانی میں کمی آئی اور یوں مختلف عقائد و افکار کے ظاہر و نمایاں ہونے کے اسباب فراہم ہوئے اور یہی آزاد فضا بھی معاشرے میں انحرافی افکار کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔ ان حالات میں امام(ع) کو درست اور حقیقی شیعہ عقائد کی تشریح، باطل عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ متعلقہ شبہات و اعتراضات کا جواب بھی دینا پڑ رہا تھا؛ چنانچہ آپ(ع) ان امور کے تناظر میں ہی کلامی (و اعتقادی) مباحث کا اہتمام کرتے تھے؛ "ذات پرودگار کی حقیقت کے ادراک سے عقل انسانی کی عاجزی" اور "واجب الوجود کی ازلیت"وغیرہ ان ہی مباحث میں سے ہیں۔

امام(ع) کی دیگر مواریث بھی ہم تک پہنچی ہیں جیسے فقہی میراث..

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:16
جعفر علی نقوی

🏴امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی خدمات🏴

💦 حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں حکومت وقت کے خلاف علم جہاد بلند کرنا ممکن نہیں تھا۔
ورنہ امام پر واجب ہو جاتا ہے کہ ظالمانہ نظام کا تختہ الٹ دیں
اور اس زمانہ میں جن سادات علویہ نے اپنی طرف سے ایسا اقدام کیا
وہ بنی امیہ کے ہاتھوں شہید کر دیئے گئے۔
البتہ علمی جہاد کے لیے کسی حد تک زمین ہموار تھی۔
اور اس کی نہایت اہم ضرورت بھی تھی۔
چونکہ دربار سے وابستہ علماء کہ جن کا زیادہ تر شاہان وقت پر بھروسہ تھا۔
اور ہر ایک نے از خود ایک مذہب گھڑ لیا تھا۔
جس کی وجہ سے امت میں جہاں اختلاف  و انتشار پیدا ہو چکا تھا
وہاں پر زیادہ تر لوگ گمراہی اور بے راہ روی کا شکار بھی ہو چکے تھے
تو اس دور میں امام علیہ السلام نے علمی موشگافیاں کیں اور علم کو شگافتہ کیا ۔
جس کی وجہ سے آپ کو ’’ باقر العلوم‘‘ کہا جانے لگا۔
جو لقب آپ کو حضور سرور کائنات نے عطا فر مایا تھا۔
اور جابر بن عبد اللہ نے آپ سے کہا
’’ یَا بَاقِرُاَنْتَ الْبَاقِرُ حَقاََ اَنْتَ الَّذِی تَبْقُرُ الْعِلْمَ بَقْرا‘‘
اے امام باقر آپ ہی حقیقی معنی میں علم کے باقر ہیں
او ر آپ ہی علم کو کما حقہ ظاہر اور شگافتہ کرنے والے ہیں۔
اگر شیعی روایات کو کتابوں میں
خصوصاََ کتب اربعہ میں دیکھا جائے
تو معلوم ہوگا کہ ان روایات میں سب سے زیادہ روایات حضرت امام محمد باقر اورحضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کی ہیں ۔
کیونکہ حقائق کی نشر واشاعت کا جو موقعہ ان دونوں بزرگوار اماموں کو ملا
کسی دوسرے امام کو نہیں مل سکا۔
شیعہ اور اہل سنت حضرات میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کسب فیض کیا ہے۔

تاریخ نے چار سو چونسٹھ (۴۶۴)راویوں  کا نام بتا یا ہے
 کہ جنہوں نے آپ سے روایات نقل کی ہیں۔
اور شیعہ رجال میں سے جن بزرگواروں کو آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے
ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔

ابان بن تغلبان کا تعلق کوفہ سے ہے
حضرت امام زین العابدین ، حضرت امام محمد باقر  اور حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام کی شاگردی کا شرف حاصل ہے
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے آپ سے فرمایا:
’’اِجْلِسْ فِی مَسْجِدِ الْمَدِیْنَۃِ وَاَفْتِ النَّاسَ ‘‘
مسجد مدینہ  میں بیٹھو
اور لوگوں کو فتوے دیا کرو۔
میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں
کہ تمہارے جیسے لوگ ہمارے شیعوں میں دکھائی دیں۔

۲۔ برید بن معاویہ عجلی :
حضرت امام باقر اورحضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کے اصحاب میں سے تھے۔
ان کا شمار اصحاب اجماع میں ہوتاہے
یعنی علماء کی فہرست میں جس مسئلے میں آپ کا نام ہو گا اس سے یہ سمجھا جائے گا
کہ علماء شیعہ کا اس پر اجماع ہے
اور اس میں امام علیہ السلام کی شمولیت ہے ۔
کہتے ہیں کہ جب ان کی وفات کی خبر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:

’’خدا کی قسم اللہ نے انہیں اپنے رسول ﷺ اور امیر المومنین (ع) کے درمیان اتاردیا ہے‘‘

۳۔ ابو حمزہ ثمالی :
ان کا نام ثابت بن دینار ہے
اور ماہ رمضان المبارک کی مشہور دعاؤں میں سے ایک دعا انہی کے نام سے مشہور ہے
بنام ’’ دعائے  ابوحمزہ ثمالی‘‘

۴۔ جابر بن یزید جعفی :
 آپ کا تعلق کو فہ سے ہے اور فریقین کے علماء آپ کو قبول کر تے ہیں۔

۵۔ محمد مسلم کوفی ثقفی:
اصحاب اجماع میں شامل ہیں
’’ وَقَدْ اَجْمَعَتِ الْعِصَابَۃُ عَلٰی تَصْحِیْحِ مَایَصِحُّ عَنْہٗ ‘‘
علماء  کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ سے بیان ہونے والی ہر  روایت صحیح ہوتی ہے۔
آپ چار سال تک مدینہ منورہ میں رہے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کسب فیض فرماتے رہے۔

۶۔ حمران بن اعین:
آپ کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
 ’’ حَمْرانُ مِنَ  الْمُؤمِنِینَ حَقاََ لَایَرْ جَعْ اَبَداََ‘‘
حمران ایسا پکا مومن ہے  کہ جو حق سے کبھی نہیں  پھرسکتا۔

۷۔ زرارہ بن اعین:
کا شمار مشہور شیعہ رجال میں ہوتا ہے۔

۸۔ عبد الملک بن اعین شیبانی :
حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے حدیث نقل کرتے تھے۔
چونکہ اختصار ملحوظ خاطر ہے  لہٰذا اس سے زیادہ کو ذکر نہیں کر سکتے اور ایسے اصحاب کی تعداد تقریباََ تین سو بنتی ہے۔

ابن شہر آشوب اپنی کتاب
’’ مناقب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
جابر بن عبد اللہ انصاری جیسے صحابہ رسول جابر بن یزید جعفی اور کیسان سختانی جیسے تابعین ،
ابن مبارک ، زہری، اوزاعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور زیاد بن منذر جیسے فقہاء نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایات کو نقل کیا ہے‘‘

طبری، بلاذری، سلامی اور خطیب جیسے مصنفین نے بھی آپ سے نقل روایات کی ہے۔
موطا امام مالک، شرف المصطفیٰ ، حلیۃ الاولیاء، سنن ابی داود، مسند احمد، مسند مروزی، ترغیب اصفہانی بسیط واحدی، تفسیر نقاش، زمخشری، معرفۃ اصول الحدیث

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:15
جعفر علی نقوی