معارف قرآن و اھل البیت (ع)

معارف قرآن و اھل البیت (ع)

۹ مطلب با موضوع «سیرت اهلبیت (ع)» ثبت شده است

🌷امام باقر(ع)کی بارگاہ میں🌷

💠محب اہل بیت علیہم السلام

📜یا جَابِرُ أَ یَکْتَفِی مَنِ انْتَحَلَ التَّشَیُّعَ أَنْ یَقُولَ بِحُبِّنَا أَهْلَ الْبَیْتِ فَوَ اللَّهِ مَا شِیعَتُنَا إِلَّا مَنِ‏ اتَّقَى‏ اللَّهَ‏ وَ أَطَاعَه‏

🗒اے جابرجو شیعہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں کیا ان کے لئے یہی کافی ہوگا کہ کہیں ہم اہل بیت کے دوستدار ہیں؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ کوئی نہیں ہے سوائے اس کے جو اللہ کا تقوی اختیار کرے اور اس کی اطاعت کرے۔

📚الکافی (ط - الإسلامیة)،ج‏2،ص74؛ وسائل الشیعة، ج‏15، ص234۔

💠ذکر

📜ذکْرُ اللِّسَانِ‏ الْحَمْدُ وَ الثَّنَاءُ وَ ذِکْرُ النَّفْسِ الْجَهْدُ وَ الْعَنَاءُ وَ ذِکْرُ الرُّوحِ الْخَوْفُ وَ الرَّجَاءُ وَ ذِکْرُ الْقَلْبِ الصِّدْقُ وَ الصَّفَاءُ وَ ذِکْرُ الْعَقْلِ التَّعْظِیمُ وَ الْحَیَاءُ وَ ذِکْرُ الْمَعْرِفَةِ التَّسْلِیمُ وَ الرِّضَاءُ وَ ذِکْرُ السِّرِّ الرُّؤْیَةُ وَ اللِّقَاءُ.

🗒زباں کا ذکر حمد وثناء ہے، نفس کا ذکر کوشش اور سختیاں برداشت کرنا، اور روح کا ذکر خوف اور امید ہے اور قلب کا ذکر صدق و صفا ہے اور عقل کا ذکر تعظیم اور حیا ہے، معرفت کا ذکر تسلیم و رضا ہے، باطنی اور خفیہ ذکر مشاہدہ اور ملاقات ہے۔

📚روضة الواعظین و بصیرة المتعظین (ط - القدیمة)، ج‏2، ص390؛ مشکاة الأنوار،ص55؛ مستدرک الوسائل،ج‏5، ص397۔

💠پاکدامنی

📜قالَ لَهُ رَجُلٌ إِنِّی‏ ضَعِیفُ‏ الْعَمَلِ‏ قَلِیلُ‏ الصَّلَاةِ قَلِیلُ‏ الصَّوْمِ‏ وَ لَکِنْ أَرْجُو أَنْ لَا آکُلَ إِلَّا حَلَالًا وَ لَا أَنْکَحَ إِلَّا حَلَالًا فَقَالَ وَ أَیُّ جِهَادٍ أَفْضَلُ مِنْ عِفَّةِ بَطْنٍ وَ فَرْج‏

🗒امام سے کسی نے عرض کیا کہ میں عمل میں کمزور ہوں نماز کم پڑھتا ہوں روزہ کم رکھتا ہوں لیکن کوشش کرتا ہوں حلال کے علاوہ نہ کھاؤں اور حلال کے سوا نکاح نہ کروں۔ آپ نے فرمایا پیٹ اور شرمگاہ کی پاکیزگی سے بہتر کون سا جہاد ہوگا۔

📚المحاسن،ج‏1،ص292۔

💠جہاد

📜۔۔لَا فَضِیلَةَ کَالْجِهَادِ وَ لَا جِهَادَ کَمُجَاهَدَةِ الْهَوَى‏۔۔۔


🗒۔۔۔جہاد جیسی کوئی فضیلت نہیں اور خواہش نفس سے جہاد جیسا کوئی جہاد نہیں۔

📚تحف العقول،ص286؛ الوافی،ج‏26،ص262؛ بحارالأنوار (ط - بیروت)،ج‏75،ص165۔

💠عالم کی فضیلت:

📜عالِمٌ یُنْتَفَعُ بِعِلْمِهِ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِینَ أَلْفَ عَابِد

🗒جس عالم کے علم سے فائدہ حاصل کیا جائے وہ ستر ہزار عابدوں سے افضل ہے۔

📚تحف العقول، ص294؛ بصائر الدرجات، ج‏1،ص6؛ کافی (ط - دار الحدیث)،ج‏1،ص79؛ وسائل الشیعة،ج‏16، ص347۔

💠عالم کون؟

📜لا یَکُونُ الْعَبْدُ عَالِماً حَتَّى لَا یَکُونَ حَاسِداً لِمَنْ فَوْقَهُ وَ لَا مُحَقِّراً لِمَنْ دُونَهُ.


🗒جو شخص اپنے بڑے سے حسد کرے اور اپنے سے چھوٹے کی تحقیر کرے وہ شخص عالم نہیں ہوسکتا۔

📚بحارالأنوار (ط - بیروت)،ج‏75، ص173؛ تحف العقول،ص293۔

💠مومن مومن سے بے نیاز نہیں


📜قالَ‏ یَوْماً رَجُلٌ‏ عِنْدَهُ‏ اللَّهُمَ‏ أَغْنِنَا عَنْ‏ جَمِیعِ‏ خَلْقِکَ‏ فَقَالَ‏ أَبُو جَعْفَرٍ ع لَا تَقُلْ هَکَذَا وَ لَکِنْ قُلِ اللَّهُمَّ أَغْنِنَا عَنْ شِرَارِ خَلْقِکَ فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یَسْتَغْنِی عَنْ أَخِیه‏

🗒ایک دن کسی نے کہا: بارالہا ہمیں تمام لوگوں سے بے نیاز کردے آپ نے فرمایا ایسا نہ کہوں بلکہ کہو خدایا ہمیں بری مخلوقات سے مستغنی بنادے اس لئے کہ مومن اپنے بھائی سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔

📚تحف العقول، ص293؛ بحار الأنوار (ط - بیروت)، ج‏75،ص172۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:22
جعفر علی نقوی

سیرت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام۔

تحریر: علامہ محمد علی فاضل ادام اللہ عزہ

سیاسی اور معاشرتی کیفیت

ایک معلم کا کارنامہ
آپ کی خدمت میں عرض کریں کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دور حکومت میں عمر بن عبدالعزیز کی حکومت کا دور بھی گزرا ہے، جو کہ تمام اموی حکمرانوں سے منفرد تھے، آئیے ان کی انفرادیت کا راز جانتے ہیں۔۔۔۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تمام اموی خلفاء میں سے صر ف حضرت عمر بن عبد العزیز ہی نے اتنا بڑا اقدام کیا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی کے بظاہر دو چھوٹے چھوٹے واقعات نے ان کی اس حد تک کا یا پلٹ دی۔
پہلا واقعہ ان کے بچپن کے زمانے میں رونما ہوا جب وہ عبید اللہ نامی ایک شخص کے پاس علم حاصل کر رہے تھے۔ عبید اللہ ایک خدا شناس ، خدا ترس  صاحب ایمان بادشاہ مطالعہ شخص تھا۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن عمربن عبدالعزیز بنی امیہ کے ہم سن و سال بچوں کے ساتھ کھیل کو دمیں مصروف تھے کہ بچے حسب معمول کھیل کھیل میں بار بار حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر سب و شتم کر رہے تھے۔ اور عمر بن عبد العزیز بھی ان کی ہم نوائی میں  وہی الفاظ دہرا رہےتھے اتفاق سے اسی دوران ان کا استاد بھی وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس نے سنا کہ اس کا شاگرد بھی دوسرے بچوں کی طرح حضرت علی علیہ السلام کو نعوذ باللہ لعنت کر رہا ہے۔ استاد سمجھ دار تھا اس نے وہاں پر تو انہیں  کچھ نہیں کہا بلکہ سیدھا مسجد چلا گیا ۔ اتنے میں درس کا وقت ہو گیا۔ عمر بن عبد العزیز بھی درس پڑھنے کیلئے مسجد میں آگئے استاد نے جو نہی اپنے اس شاگرد کو آتے دیکھا تو نماز پڑھنا شروع کردی، وہ استاد کا انتظار کرنے لگے کہ نماز سے فارغ ہوں اور درس پڑھائیں۔ مگر استاد نے نمازکو معمول سے کچھ زیادہ طول دے دیا۔ شاگرد بھانپ گیا کہ استاد اس سے ناراض ہیں اور نماز ایک بہانہ ہے استاد نے نماز ختم کی اور غضب  آلود نگاہوں کے ساتھ اپنے شاگرد کی طرف دیکھا اور پوچھا:’’ تمہیں کب سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ خداوند عالم بدر والوں اور بیعت رضوان والوں سے راضی ہونے کے بعد ان پر ناراض ہو گیا ہے اور انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ہے ؟؟‘‘
ہم یہاں پر یہ عرض کر تے جائیں کہ حضرت علی علیہ السلام جنگ بدر اور بیعت رضوان میں شرکت کر نے والوں میں سے ایک ہیں بلکہ ان سب سے والا اور بر تر ہیں،، بہر حال شاگرد نے جواب دیا: ’’ میں نے اس بارے میں کوئی بات کسی سے نہیں سنی‘‘
استاد نے کہا: تو پھر کس بنا پر تم (نعوذباللہ)علی کو لعنت کر رہے تھے؟؟
عمر نے کہا: میں اپنے اس عمل پر معذرت خواہ ہوں ، اللہ کی بارگاہ میں بھی توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کر تا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کر وں گا۔
استاد کے منطقی اور موثر الفاظ نے اس کے دل پر کافی حد تک اثر کیا، اس نے اسی دن سے تہیہ کر لیا کہ آئندہ کبھی علی علیہ السلام کو  نا سزا نہیں کہے گا۔ لیکن پھر بھی وہ کو چہ بازار اور بچوں کو کھیلتے ہوئے سنتا رہا کہ لوگ بے باکا نہ علی کو نا سزا کہہ رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک اور واقعہ رونما ہوگیا ۔ جس نے اس تہیہ کو مزید پختہ کر دیا

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:20
جعفر علی نقوی

وصیت امام محمّد باقر علیہ السلام
بحکم خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کے ابراہیم بن ولید والی مدینہ نے امام محمّد باقر علیہ السلام کو زہر سے شہید کیا...
*
شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اورکہا کہ بیٹامیرے کانوں میں میرے والد ماجدکی آوازیں آرہی ہیں وہ مجھے جلد بلا رہے ہیں ....
(نورالابصار ص ۱۳۱)
*
آپ نے غسل وکفن کے متعلق خاص طور سے ہدایت کی کیونکہ امام راجز امام نشوید امام کوامام ہی غسل دے سکتا ہے
(شواہدالنبوت ص ۱۸۱)
*
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی کہاکہ ۸۰۰/ درہم میری عزاداری اورمیرے ماتم پرصرف کرنااورایساانتظام کرناکہ دس سال تک منی میں بزمانہ حج میرے مظلمومیت کا ماتم کیا جائے...
(جلاء العیون ص ۲۶۴)...
علماء کابیان ہے کہ وصیتوں میں یہ بھی تھا کہ میرے بند ہائے کفن قبرمیں کھول دینا اورمیری قبر چارانگل سے زیادہ اونچی نہ کرنا(جنات الخلود ص ۲۷)
شہادت امام پنجم ع کے موقع پر آپ سب مومنین بالخصوص امام وقت حجت خدا امام مہدی الزمان عج کی بارگاہ میں پرسہ پیش کرتے ہیں..

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:18
جعفر علی نقوی

🏴امام باقر علیه السلام کی علمی تحریک🏴

💦سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور تفسیر قرآن کے سلسلہ میں نقل حدیث کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہوچکی تھی۔ اس زمانے میں اموی بزرگوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علماء میں سے شہاب زہری،مکحول، ہشام بن عروہ وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں خوارج، مرجئہ، کیسانیہ اورغالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امام باقر(ع) نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادق(ع) کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے ہاشمی بزرگوں میں سر فہرست تھے اور علم دین، سنت،علوم قرآن سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسن اورامام حسین کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہیں ہوئی ہیں۔
شیعہ فقہی احکام ـ اگر چہ ـ اس وقت تک صرف اذان، تقیہ، نماز میت وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقر(ع) کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک شیعیان آلرسول(ص) کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تَشَیُّع نے ـ فقہ، تفسیر اور اخلاق پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔
امام باقر(ع) نے اصحاب قیاس کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا۔ اور دیگر منحرف اسلامی فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیت(ع) کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا: "خوارج نے اپنی جہالت کے بموجب عرصہ حیات اپنے لئے تنک کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔
امام باقر(ع) کی علمی شہرت ـ نہ صرف حجاز میں بلکہ ـ حتی کہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ بنا رکھا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امام(ع) کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

تفسیر

امام(ع) نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری موضوعات و مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ امام باقر(ع) نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحق ندیم نے اپنی کتاب "الفہرست" میں بھی اشارہ کیا ہے۔
امام(ع) قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ وہ محکمات کو متشابہات اور ناسخ ومنسوخ سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیت(ع) کے سوا کے پاس بھی نہیں پائی جاسکتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے: کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہیں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے"۔

حدیث

امام باقر(ع) نے احادیث نبوی کو خاص شکل میں توجہ اور اہمیت دی تھی حتی کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہ(ص) کی ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں؛ جیسا کہ ابان بن تغلب اور دوسرے شاگردوں نے اس عظیم ورثے میں سے بڑے مجموعے نقل کئے ہیں۔
امام(ع) نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے سمجھنے کے اہتمام کرنے کی پر بھی ترغیب دلائی ہے۔ مثلا آپ نے فرمایا ہے:

ہمارے پیروکاروں کے مراتب کو احادیث اہل بیت نقل کرنے اور ان کی معرفت و ادراک کی سطح دیکھ کر پہچانو، اور معرفت در حقیقت روایت کو پہچاننے کا نام ہے اور یہی درایۃالحدیث ہے، اور روایت کی درایت و فہم کے ذریعے مؤمن ایمان کے اعلی درجات پر فائز ہوجاتا ہے۔

کلام

امام باقر(ع) کے زمانے میں مناسب مواقع فراہم ہوئے، حکمرانوں کی طرف سے دباؤ اور نگرانی میں کمی آئی اور یوں مختلف عقائد و افکار کے ظاہر و نمایاں ہونے کے اسباب فراہم ہوئے اور یہی آزاد فضا بھی معاشرے میں انحرافی افکار کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔ ان حالات میں امام(ع) کو درست اور حقیقی شیعہ عقائد کی تشریح، باطل عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ متعلقہ شبہات و اعتراضات کا جواب بھی دینا پڑ رہا تھا؛ چنانچہ آپ(ع) ان امور کے تناظر میں ہی کلامی (و اعتقادی) مباحث کا اہتمام کرتے تھے؛ "ذات پرودگار کی حقیقت کے ادراک سے عقل انسانی کی عاجزی" اور "واجب الوجود کی ازلیت"وغیرہ ان ہی مباحث میں سے ہیں۔

امام(ع) کی دیگر مواریث بھی ہم تک پہنچی ہیں جیسے فقہی میراث..

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:16
جعفر علی نقوی

🏴امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی خدمات🏴

💦 حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں حکومت وقت کے خلاف علم جہاد بلند کرنا ممکن نہیں تھا۔
ورنہ امام پر واجب ہو جاتا ہے کہ ظالمانہ نظام کا تختہ الٹ دیں
اور اس زمانہ میں جن سادات علویہ نے اپنی طرف سے ایسا اقدام کیا
وہ بنی امیہ کے ہاتھوں شہید کر دیئے گئے۔
البتہ علمی جہاد کے لیے کسی حد تک زمین ہموار تھی۔
اور اس کی نہایت اہم ضرورت بھی تھی۔
چونکہ دربار سے وابستہ علماء کہ جن کا زیادہ تر شاہان وقت پر بھروسہ تھا۔
اور ہر ایک نے از خود ایک مذہب گھڑ لیا تھا۔
جس کی وجہ سے امت میں جہاں اختلاف  و انتشار پیدا ہو چکا تھا
وہاں پر زیادہ تر لوگ گمراہی اور بے راہ روی کا شکار بھی ہو چکے تھے
تو اس دور میں امام علیہ السلام نے علمی موشگافیاں کیں اور علم کو شگافتہ کیا ۔
جس کی وجہ سے آپ کو ’’ باقر العلوم‘‘ کہا جانے لگا۔
جو لقب آپ کو حضور سرور کائنات نے عطا فر مایا تھا۔
اور جابر بن عبد اللہ نے آپ سے کہا
’’ یَا بَاقِرُاَنْتَ الْبَاقِرُ حَقاََ اَنْتَ الَّذِی تَبْقُرُ الْعِلْمَ بَقْرا‘‘
اے امام باقر آپ ہی حقیقی معنی میں علم کے باقر ہیں
او ر آپ ہی علم کو کما حقہ ظاہر اور شگافتہ کرنے والے ہیں۔
اگر شیعی روایات کو کتابوں میں
خصوصاََ کتب اربعہ میں دیکھا جائے
تو معلوم ہوگا کہ ان روایات میں سب سے زیادہ روایات حضرت امام محمد باقر اورحضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کی ہیں ۔
کیونکہ حقائق کی نشر واشاعت کا جو موقعہ ان دونوں بزرگوار اماموں کو ملا
کسی دوسرے امام کو نہیں مل سکا۔
شیعہ اور اہل سنت حضرات میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کسب فیض کیا ہے۔

تاریخ نے چار سو چونسٹھ (۴۶۴)راویوں  کا نام بتا یا ہے
 کہ جنہوں نے آپ سے روایات نقل کی ہیں۔
اور شیعہ رجال میں سے جن بزرگواروں کو آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے
ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔

ابان بن تغلبان کا تعلق کوفہ سے ہے
حضرت امام زین العابدین ، حضرت امام محمد باقر  اور حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام کی شاگردی کا شرف حاصل ہے
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے آپ سے فرمایا:
’’اِجْلِسْ فِی مَسْجِدِ الْمَدِیْنَۃِ وَاَفْتِ النَّاسَ ‘‘
مسجد مدینہ  میں بیٹھو
اور لوگوں کو فتوے دیا کرو۔
میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں
کہ تمہارے جیسے لوگ ہمارے شیعوں میں دکھائی دیں۔

۲۔ برید بن معاویہ عجلی :
حضرت امام باقر اورحضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کے اصحاب میں سے تھے۔
ان کا شمار اصحاب اجماع میں ہوتاہے
یعنی علماء کی فہرست میں جس مسئلے میں آپ کا نام ہو گا اس سے یہ سمجھا جائے گا
کہ علماء شیعہ کا اس پر اجماع ہے
اور اس میں امام علیہ السلام کی شمولیت ہے ۔
کہتے ہیں کہ جب ان کی وفات کی خبر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:

’’خدا کی قسم اللہ نے انہیں اپنے رسول ﷺ اور امیر المومنین (ع) کے درمیان اتاردیا ہے‘‘

۳۔ ابو حمزہ ثمالی :
ان کا نام ثابت بن دینار ہے
اور ماہ رمضان المبارک کی مشہور دعاؤں میں سے ایک دعا انہی کے نام سے مشہور ہے
بنام ’’ دعائے  ابوحمزہ ثمالی‘‘

۴۔ جابر بن یزید جعفی :
 آپ کا تعلق کو فہ سے ہے اور فریقین کے علماء آپ کو قبول کر تے ہیں۔

۵۔ محمد مسلم کوفی ثقفی:
اصحاب اجماع میں شامل ہیں
’’ وَقَدْ اَجْمَعَتِ الْعِصَابَۃُ عَلٰی تَصْحِیْحِ مَایَصِحُّ عَنْہٗ ‘‘
علماء  کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ سے بیان ہونے والی ہر  روایت صحیح ہوتی ہے۔
آپ چار سال تک مدینہ منورہ میں رہے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کسب فیض فرماتے رہے۔

۶۔ حمران بن اعین:
آپ کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
 ’’ حَمْرانُ مِنَ  الْمُؤمِنِینَ حَقاََ لَایَرْ جَعْ اَبَداََ‘‘
حمران ایسا پکا مومن ہے  کہ جو حق سے کبھی نہیں  پھرسکتا۔

۷۔ زرارہ بن اعین:
کا شمار مشہور شیعہ رجال میں ہوتا ہے۔

۸۔ عبد الملک بن اعین شیبانی :
حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے حدیث نقل کرتے تھے۔
چونکہ اختصار ملحوظ خاطر ہے  لہٰذا اس سے زیادہ کو ذکر نہیں کر سکتے اور ایسے اصحاب کی تعداد تقریباََ تین سو بنتی ہے۔

ابن شہر آشوب اپنی کتاب
’’ مناقب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
جابر بن عبد اللہ انصاری جیسے صحابہ رسول جابر بن یزید جعفی اور کیسان سختانی جیسے تابعین ،
ابن مبارک ، زہری، اوزاعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور زیاد بن منذر جیسے فقہاء نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایات کو نقل کیا ہے‘‘

طبری، بلاذری، سلامی اور خطیب جیسے مصنفین نے بھی آپ سے نقل روایات کی ہے۔
موطا امام مالک، شرف المصطفیٰ ، حلیۃ الاولیاء، سنن ابی داود، مسند احمد، مسند مروزی، ترغیب اصفہانی بسیط واحدی، تفسیر نقاش، زمخشری، معرفۃ اصول الحدیث

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:15
جعفر علی نقوی

🚩  امام محمد باقر علیہ السلام  🚩

🔹رسول خدا(ص) کا سلام🔹

شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا:
ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہیں سلام کیا؛ انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:

تم کَون ہو؟ - یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے۔میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔اس کے بعد جابر نے کہا: بےشک رسول اللہ(ص) تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔میں نے کہا: و علی رسول اللہ السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ؛ لیکن یہ کیسے اے جابر!جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤ حتی کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لو جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالی اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔[25]

امامت

امام محمد بن علی بن الحسین بن علی، باقر علیہ السلام سنہ 95ہجری میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114ہجری (یا 117 یا 118 ہجری) میں ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک شیعیان آل رسول(ص) کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔

دلائل امامت

جابر بن عبداللہ سے مروی ہے: میں نے رسول اللہ(ص) سے امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد کے آئمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار حسن وحسین، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار علی بن الحسین اور ان کے بعد محمد بن علی جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور۔۔۔۔ میرے خلفاء اور آئمہ معصومین ہیں۔[26]

علاوہ ازیں رسول اللہ(ص) سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام باقر العلوم محمد بن علی الباقر علیہ السلام سمیت تمام ائمہ(ع) کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[27]

امام سجاد(ع) اکثر و بیشتر لوگوں کو امام باقر(ع) کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے عمر بن علی نے اپنے والد امام زین العابدین(ع) سے دریافت کیا کہ "آپ "محمد باقر" کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجاد(ع) نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتی کہ حضرت ہمارےقائم قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔[28]

شیخ مفید رقمطراز ہیں: امام باقر(ع) فضل، علم، زہد اور جود و کرم میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مداحی کرتے تھے اور عوام و خواص آپ کا احترام کرتے نظر آتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الہی اور فنونِ اخلاق و آداب کے فروغ اور ترویج میں امام حسن علیہ السلام اورانکے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقر(ع) جتنے گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) میں نہیں چھوڑے ہیں۔ حضرت امام باقر(ع) کی خدمت میں شرف حضور حاصل کرنے والے باقی ماندۂ اصحاب رسولؐ امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہاء مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کے فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان آپ ایک ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد انشاد کیا کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزین کیا کرتے تھے۔[29]

ہمعصر خلفا

امام باقر(ع) کا عہد امامت درج ذیل پانچ اموی خلفا کے ہمزمان تھا:

ولید بن عبدالملک(86 تا 96) ہجری سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99) ہجری عمر بن عبدالعزیز(99 تا 101) ہجری یزید بن عبدالملک(101 تا 105) ہجری ہشام بن عبدالملک (105 تا 125) ہجری

آپ کے ہم عصر اموی (مروانی خلفاء) میں سے عمر بن عبدالعزیز عدل و انصاف کا پابند اموی خلیفہ تھا ۔اس کے سوا باقی خلفا عدل کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے اور ان سب نے شیعیان آل رسول(ص) سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویئے اور آتش انتقام کے شعلے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:13
جعفر علی نقوی

🚩زندگی امام محمد باقر علیہ السلام🚩

محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب اہل تشیع کے پانچویں امام جو "امام باقر(ع)"(57-114ق) کے نام سے معروف اور باقر العلوم کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کی مدت امامت 19 برس تھی۔ واقعۂ عاشورا کے موقع پر آپ بہت چھوٹے تھے۔[1] اپنے زمانے میں تشیُّع کے فروغ کے لئے مناسب تاریخی حالات کو دیکھتے ہوئے آپ نے عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ آپ کا مدفن مدینہ میں ہے۔[2]
اکابرین اہل سنت نے امام باقر(ع) کی علمی اور دینی شہرت کی گواہی دی ہے۔ ابن حجر ہیتمی کہتا ہے:

ابو جعفر محمد باقر نے علوم کے پوشیدہ خزانوں، احکام کے حقائق اور حکمتوں اور لطائف کو آشکار کردیا۔ آپ نے اپنی عمر اللہ کی طاعت میں گذار دی اور عرفاء کے مقامات میں اس مرتبے تک پہنچ گئے تھے کہ بیان کرنے والوں کی زبانیں اس کی وضاحت سے قاصر ہیں اور آپ سے سلوک اور معارف میں کثیر اقوال نقل ہوئے ہیں۔[3]

انگشتریوں کے نقش

امام باقر علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:

رَبِّ لَا تَذَرْنِی فَرْداً[8] اور الْقُوَّةُ لِلّهِ جَمِیعاً۔[9]

ولادت اور شہادت

امام ابو جعفر محمد باقر(ع) بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے[10] گوکہ بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت اسی سال کی 3 صفر المظفر منگل وار ثبت کی گئی ہے۔[11]

نام

پیغمبر اسلام نے آپ کی ولادت سے دسیوں برس قبل آپ کا نام محمد اور آپ کا لقب باقر مقرر کیا تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔ روایت جابر بن عبداللہ اور دیگر روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔[12] علاوہ ازیں آئمہ معصومین کے اسمائے گرامی کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔[13]

شہادت

امام باقر(ع) 7 ذوالحجۃ الحرام سنہ 114ہجری کو [14] رحلت کرگئے۔ امام محمد باقر(ع) کی رحلت و شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی[15] اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقر(ع) کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (اموی – مروانی بادشاہ) ہشام بن عبدالملک براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔[16] بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بن مروان ہے جس نے امام(ع) کو مسموم کیا۔[17] بعض روایات میں حتی کہ زید بن حسن کو آپ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امام(ع) کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛ [18] ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔[19] بہر صورت امام محمد باقر(ع) ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں رحلت فرما گئے ۔[20] کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امام(ع) کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔
اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقر(ع) کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقر(ع) کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز خاندان محمد(ص) کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ ہشام بن عبدالملک امام باقر(ع) کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔

ظاہر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد سے فائدہ اٹھائے اسی بنا پر ابراہیم بن ولید ـ جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسول(ص) کا دشمن تھا ـ کی خدمت حاصل کرے اور ابن ولید بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کرے جو خاندان رسول(ص) کے اندر موجود اور اس خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہو اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقر(ع) کی زندگی کے اندرونی ماحول تک پہونچ رکھتا ہو اور کوئی بھی اسے اس رسائی سے روک نہ سکتا ہو تا کہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اور امام(ع) کو شہید کیا جاسکے۔
امام محمد باقر(ع) جنت البقیع میں اپنے والد کے چچا امام حسن مجتبی علیہ السلام اور والد امام زین العابدین علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔[21]

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:11
جعفر علی نقوی

امام علی نقی(علیہ السلام) کی سوانح حیات

مام علی نقی علیہ السلام کی سال ولادت 212 ھ اور شہادت ۲۵۴ ہجری میں واقع ہونے کے بارے اتفاق ہے۔ لیکن آپ کی تاریخ ولادت و شھادت میں اختلاف ہے۔
ولادت کو بعض مورخین نے 15 ذی الحجہ اور بعض نے دوم یا پنجم رجب بتائی ہے اسی طرح شھادت کو بعض تیسری رجب مانتے ہیں لیکن شیخ کلینی اور مسعودی نے ستائیس جمادی الثانی بیان کی ہے.
البتہ رجب میں امام ھادی علیہ السلام کی پیدایش کی ایک قوی احتمال وہ دعای مقدسہ ناحیہ کا جملہ ہے، جس میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں : "اللھم انی اسئلک بالمولودین فی رجب ، محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد " آپ کا نام گرامی علی اور لقب، ھادی، نقی، نجیب، مرتضی، ناصح، عالم، امین، مؤتمن، منتجب، اور طیب ھیں، البتہ ھادی اور نقی معروف ترین القاب میں سے ھیں، آنحضرت کی کنیت " ابو الحسن " ہے اور یہ کنیت چھار اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب ،امام موسی ابن جعفر ،امام رضا علیہم السلام کیلئے استعمال ہوا ہے، تنھا (ابو الحسن) صرف امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لۓ اور امام موسی بن جعفر علیہ السلام کو ابوالحسن اول، امام رضا علیہ السلام کو ابو الحسن الثانی، اور امام علی النقی علیہ السلام کو ابو الحسن الثالث کہا جاتا ہے۔
امام علی النقی الھادی علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں بنام " صریا " میں ھوئی ہے جسے امام موسی کاظم علیہ السلام نے آباد کیا اور کئ سالوں تک آپ کی اولاد کا وطن رہا ہے۔ حضرت امام علی النقی علیہ سلام جو کہ ھادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3 رجب اور دوسری قول کے مطابق 25 جمادی الثانی کو سامرا میں شھید کۓ گۓ، حضرت امام علی النقی علیہ سلام کا دور امامت، عباسی خلفاء معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین، اور معتز کے ھمعصر تھے۔ حضرت امام علی النقی علیہ سلام کے ساتھ عباسی خلفا کا سلوک مختلف تھا بعض نے امام کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ھم عقیدہ تھے، جن میں سے متوکل عباسی اھل بیت کی نسبت دشمنی رکھنے میں زیادہ مشہور تھا اور اس نے خاندان رسالت کو آزار و اذیت پہنچانے میں کوئی کسر باقی نھیں چھوڑی، یہاں تک کہ اماموں کی قبروں کو مسمار کیا، خاص کر قبر مطھر سید الشھدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو مسمار کرکے اور وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔
متوکل نے حضرت امام نقی علیہ السلام کو سن 243 ھجری میں مدینہ منورہ سے سامرا بلایا۔ عباسی خلفا میں سے صرف منتصر باللہ نے اپنے مختصر دور خلافت میں خاندان امامت و رسالت کے ساتھ قدرے نیک سلوک کیا۔ حضرت امام علی النقی علیہ سلام کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 سال ایک فوجی چھاونی میں قید رکھا، اس دوران مکمل طور پر لوگوں کو اپنے امام کے ملاقات سے محروم رکھا گیا۔
آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن 254 ھجری کو معتز عباسی خلیفہ نے اپنے بھائی معتمد عباسی کے ھاتھوں زھر دے کر آپ کوشہید کر دیا.

عصر امام علیہ السلام کے دور میں سیاسی اور اجتماعی حالات
عباسی خلافت کے اس دور میں چند ایک خصوصیات کی بناء پر دوسرے ادوار سے مختلف ہے لھذا بطور اختصار بیان کردیا جاتا ہے:
1۔ خلافت کی عظمت اور اس کی زوال:خواہ اموی خلافت کا دور ہو یا عباسی کا ، خلافت ایک عظمت و حیثیت رکھتی تھی لیکن اس دور میں ترک اور غلاموں کے تسلط کی وجہ سے خلافت گیند کی مانند ایک بازیچہ بن گیا تھا جس طرف چاہے پھیرتے تھے۔
2۔ درباریوں کا خوش گذرانی اور ھوسرانی: عباسی خلفاء نے اپنے دور کے اس خلافت میں خوش گذرانی و شرابخواری و … کے فساد و گناہ میں غرق تھے جس کو تاریخ نے ضبط کیا ہے۔
3۔ ظلم و بربریت کی بے انتھا:عباسی خلفاء کی ظلم تاریخ میں بھری پڑی ہے قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
4۔ علوی تحریکوں کا گسترش:اس عصر میں عباسی حکومت کی یہ کوشش رہی کہ جامعہ میں علویوں سے نفرت پیدا کی جائے اور مختصر بہانے پر ان کو بی رحمانہ قتل و غارت کیا جاتا تھا کیونکہ علوی تحریک سے عباسی حکومت ہمیشہ اپنے آپ کو خطرہ سمجھ رہی تھی۔
اسی لئے اس سلسلے کی ایک کڑی یعنی امام ھادی علیہ السلام کو حکومت وقت نے مدینے سے سامرا بلایا اور فوجی چھاونی میں بہت سخت حفاظتی انتظام کے ساتھ گیارہ سال قید بند میں رکھا۔
عباسی خلفاء کا سیاہ ترین دور اور امام ھادی (ع) کا موقف
عباسی خلفاء میں سے خصوصا خلیفہ متوکل سب سے زیادہ علویوں اور شیعوں کے ساتھ عجیب دشمنی رکھتا تھا، اس لئے یہ دور تاریخ کا سب سے زیادہ سخت ترین اور سیاہ ترین دور کہا جاتا ہے لہذا امام ھادی علیہ السلام اس خلیفہ کے زمانے میں اپنے ماننے والوں کیلئے پیغام دینا بہت ہی سری اور احتیاط کے ساتھ انجام دیتے تھے؛ چونکہ امام (ع) سخت کنٹرول میں تھے اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے وکالت اور نمایندگی کے طریقے کو اپنایا۔
امام ھادی (ع) اور مکاتب کلامی
امام ھادی علیہ السلام کے اس سخت ترین شرائط کے زمانے میں دیگر مکاتب اور مذاھب کے ماننے والے اپنے عروج پر تھے اور باطل عقائد اور نظریات مثلا جبر و تفویض، خلق قرآن و غیرہ جامعہ اسلامی اور شیعوں کے محافل میں نفوذ کرکے امام (ع) کی ھدایت و رھبری کی ضرورت کو دو چندان کردیا تھا اور بہت سارے مناظرے ان موضوعات پر روشن گواہ ہے۔
حوالہ جات
(1)طبرسی، اعلام الوری، الطبعة الثالثه، دارالکتب الاسلامیه، ص 355؛ شیخ مفید، الارشاد، قم، مکتبه بصیرتی، ص 327
(2)شبلنجی، نورالابصار، ص 166، قاهره، مکتبته المشهد الحسینی
(3)وقایع الایام، ص ۲۸۲

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 17 ، 17:56
جعفر علی نقوی

امام علی نقی(علیہ السلام) کی مختصر سوانح حیات

سوال: امام علی نقی (علیہ السلام) کی زندگی کے نشب و فراز کیا تھے ؟
اجمالی جواب:
تفصیلی جواب: شیعوں کے دسویںراہنما امام ابوالحسن علی نقی الہادی (علیہ السلام) ١٥ ذی الحجہ ٢١٢ ہجری کو مدینہ کے نزدیک ""صریا"" نامی جگہ پر متولد ہویے (١) آپ کے والد نویں راہنما امام محمد تقی (علیہ السلام)ہیں اور آپ کی والدہ گرامی سمانہ ہیں ، آپ بہت ہی با تقوی اور با فضیلت خاتون تھیں (٢) ۔
دسویں امام کے مشہور ترین القاب نقی اور ہادی ہیں اور آپ کو ""ابوالحسن ثالث "" بھی کہا جاتا ہے (٣) ۔
امام ہادی (علیہ السلام) اپنے والد محترم کی شہادت کے بعد ٢٢٠ ہجری میں امامت پر بیٹھے اور اس وقت آپ کی عمر آٹھ سال تھی ، آپ کی امامت کی مدت ٣٣ سال ہے اور آپ کی عمر اکتالیس سال اور چند ماہ تھی ، ٢٥٤ ہجری کو شہر سامرا میں آپ کی شہادت ہویی ۔
امام ہادی (علیہ السلام) کی امامت کے دوران چند خلفاء عباسی گزرے ہیں جو زمانہ کے اعتبار سے مندرجہ ذیل ہیں :
١۔ معتصم ، مامون کا بھایی (٢١٧ تا ٢٢٧ ) ۔
٢۔ واثق ، معتصم کا بیٹا (٢٢٧ تا ٢٣٢ ) ۔
٣۔ متوکل ، واثق کا بھایی (٢٣٢ تا ٢٤٨) ۔
٤۔ منتصر ،متوکل کا بیٹا (٦ ماہ ) ۔
٥۔ مستعین ، منتصر کا چچا زاد بھایی (٢٤٨ تا ٢٥٢ ) ۔
٦۔ معتز ، متوکل کا دوسرا بھایی (٢٥٢ تا ٢٥٥ ) ۔
امام ہادی کو آخری خلیفہ کے زمانہ میں زہر سے شہید کیا گیا اور ان کو اپنے گھر میں دفن کیا گیا (٤) ۔
حوالہ جات:
(1) . طبرسى، أَعلام الورى، الطبعه الثالثه، دارالکتب الاسلامیه، ص 355 - شیخ مفید، الارشاد، قم، مکتبه بصیرتى، ص 327.
(2) . طبرسى، أَعلام الورى، الطبعه الثالثه، دارالکتب الاسلامیه، ص 355 - شیخ مفید، الارشاد، قم، مکتبه بصیرتى، ص 327.٣۔
(3) . طبرسى، أَعلام الورى، ص 355.شیعہ راویوں کی اصطلاح میں ابوالحسن اول سے امام موسی بن جعفر (علیہ السلام) اور ابوالحسن ثانی سے آٹھویں امام علی رضا (علیہ السلام) مراد ہیں ۔
(4) . سیره پیشوایان، مهدی پیشوائی، ص 567.
    
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 17 ، 17:17
جعفر علی نقوی