معارف قرآن و اھل البیت (ع)

معارف قرآن و اھل البیت (ع)

۳۸ مطلب در سپتامبر ۲۰۱۷ ثبت شده است

🚩  امام محمد باقر علیہ السلام  🚩

🔹رسول خدا(ص) کا سلام🔹

شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا:
ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہیں سلام کیا؛ انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:

تم کَون ہو؟ - یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے۔میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔اس کے بعد جابر نے کہا: بےشک رسول اللہ(ص) تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔میں نے کہا: و علی رسول اللہ السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ؛ لیکن یہ کیسے اے جابر!جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤ حتی کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لو جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالی اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔[25]

امامت

امام محمد بن علی بن الحسین بن علی، باقر علیہ السلام سنہ 95ہجری میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114ہجری (یا 117 یا 118 ہجری) میں ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک شیعیان آل رسول(ص) کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔

دلائل امامت

جابر بن عبداللہ سے مروی ہے: میں نے رسول اللہ(ص) سے امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد کے آئمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار حسن وحسین، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار علی بن الحسین اور ان کے بعد محمد بن علی جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور۔۔۔۔ میرے خلفاء اور آئمہ معصومین ہیں۔[26]

علاوہ ازیں رسول اللہ(ص) سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام باقر العلوم محمد بن علی الباقر علیہ السلام سمیت تمام ائمہ(ع) کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[27]

امام سجاد(ع) اکثر و بیشتر لوگوں کو امام باقر(ع) کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے عمر بن علی نے اپنے والد امام زین العابدین(ع) سے دریافت کیا کہ "آپ "محمد باقر" کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجاد(ع) نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتی کہ حضرت ہمارےقائم قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔[28]

شیخ مفید رقمطراز ہیں: امام باقر(ع) فضل، علم، زہد اور جود و کرم میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مداحی کرتے تھے اور عوام و خواص آپ کا احترام کرتے نظر آتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الہی اور فنونِ اخلاق و آداب کے فروغ اور ترویج میں امام حسن علیہ السلام اورانکے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقر(ع) جتنے گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) میں نہیں چھوڑے ہیں۔ حضرت امام باقر(ع) کی خدمت میں شرف حضور حاصل کرنے والے باقی ماندۂ اصحاب رسولؐ امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہاء مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کے فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان آپ ایک ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد انشاد کیا کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزین کیا کرتے تھے۔[29]

ہمعصر خلفا

امام باقر(ع) کا عہد امامت درج ذیل پانچ اموی خلفا کے ہمزمان تھا:

ولید بن عبدالملک(86 تا 96) ہجری سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99) ہجری عمر بن عبدالعزیز(99 تا 101) ہجری یزید بن عبدالملک(101 تا 105) ہجری ہشام بن عبدالملک (105 تا 125) ہجری

آپ کے ہم عصر اموی (مروانی خلفاء) میں سے عمر بن عبدالعزیز عدل و انصاف کا پابند اموی خلیفہ تھا ۔اس کے سوا باقی خلفا عدل کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے اور ان سب نے شیعیان آل رسول(ص) سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویئے اور آتش انتقام کے شعلے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:13
جعفر علی نقوی

🚩زندگی امام محمد باقر علیہ السلام🚩

محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب اہل تشیع کے پانچویں امام جو "امام باقر(ع)"(57-114ق) کے نام سے معروف اور باقر العلوم کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کی مدت امامت 19 برس تھی۔ واقعۂ عاشورا کے موقع پر آپ بہت چھوٹے تھے۔[1] اپنے زمانے میں تشیُّع کے فروغ کے لئے مناسب تاریخی حالات کو دیکھتے ہوئے آپ نے عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ آپ کا مدفن مدینہ میں ہے۔[2]
اکابرین اہل سنت نے امام باقر(ع) کی علمی اور دینی شہرت کی گواہی دی ہے۔ ابن حجر ہیتمی کہتا ہے:

ابو جعفر محمد باقر نے علوم کے پوشیدہ خزانوں، احکام کے حقائق اور حکمتوں اور لطائف کو آشکار کردیا۔ آپ نے اپنی عمر اللہ کی طاعت میں گذار دی اور عرفاء کے مقامات میں اس مرتبے تک پہنچ گئے تھے کہ بیان کرنے والوں کی زبانیں اس کی وضاحت سے قاصر ہیں اور آپ سے سلوک اور معارف میں کثیر اقوال نقل ہوئے ہیں۔[3]

انگشتریوں کے نقش

امام باقر علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:

رَبِّ لَا تَذَرْنِی فَرْداً[8] اور الْقُوَّةُ لِلّهِ جَمِیعاً۔[9]

ولادت اور شہادت

امام ابو جعفر محمد باقر(ع) بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے[10] گوکہ بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت اسی سال کی 3 صفر المظفر منگل وار ثبت کی گئی ہے۔[11]

نام

پیغمبر اسلام نے آپ کی ولادت سے دسیوں برس قبل آپ کا نام محمد اور آپ کا لقب باقر مقرر کیا تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔ روایت جابر بن عبداللہ اور دیگر روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔[12] علاوہ ازیں آئمہ معصومین کے اسمائے گرامی کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔[13]

شہادت

امام باقر(ع) 7 ذوالحجۃ الحرام سنہ 114ہجری کو [14] رحلت کرگئے۔ امام محمد باقر(ع) کی رحلت و شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی[15] اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقر(ع) کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (اموی – مروانی بادشاہ) ہشام بن عبدالملک براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔[16] بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بن مروان ہے جس نے امام(ع) کو مسموم کیا۔[17] بعض روایات میں حتی کہ زید بن حسن کو آپ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امام(ع) کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛ [18] ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔[19] بہر صورت امام محمد باقر(ع) ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں رحلت فرما گئے ۔[20] کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امام(ع) کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔
اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقر(ع) کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقر(ع) کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز خاندان محمد(ص) کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ ہشام بن عبدالملک امام باقر(ع) کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔

ظاہر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد سے فائدہ اٹھائے اسی بنا پر ابراہیم بن ولید ـ جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسول(ص) کا دشمن تھا ـ کی خدمت حاصل کرے اور ابن ولید بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کرے جو خاندان رسول(ص) کے اندر موجود اور اس خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہو اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقر(ع) کی زندگی کے اندرونی ماحول تک پہونچ رکھتا ہو اور کوئی بھی اسے اس رسائی سے روک نہ سکتا ہو تا کہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اور امام(ع) کو شہید کیا جاسکے۔
امام محمد باقر(ع) جنت البقیع میں اپنے والد کے چچا امام حسن مجتبی علیہ السلام اور والد امام زین العابدین علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔[21]

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 22:11
جعفر علی نقوی
واقعہ غدیر کیا ہے ؟

< یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ >(1)

”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔ 

اہل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی (تمام شیعہ مشہور کتابوں میں) بیان ہوا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ہے، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”براء بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابوہریرہ“، ”ابن مسعود“اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ہوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ہے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض روایات متعدد طریقوں سے نقل ہوئی ہیں، منجملہ:

حدیث ابوسعید خدری ۱۱/طریقوں سے۔

حدیث ابن عباس بھی ۱۱/ طریقوں سے۔

اور حدیث براء بن عازب تین طریقوں سے نقل ہوئی ہے۔

جن افراد نے ان احادیث کو (مختصر یا تفصیلی طور پر ) اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ان کے اسما درج ذیل ہیں:

حافظ ابو نعیم اصفہانی نے اپنی کتاب ”ما نُزِّل من القرآن فی علیّ“ میں (الخصائص سے نقل کیا ہے، صفحہ۲۹)

ابو الحسن واحدی نیشاپوری ”اسباب النزول“ صفحہ۱۵۰۔

ابن عساکر شافعی ( الدر المنثور سے نقل کیا ہے، جلد دوم، صفحہ۲۹۸)

فخر الدین رازی نے اپنی ”تفسیر کبیر“ ، جلد ۳، صفحہ ۶۳۶ ۔

ابو اسحاق حموینی نے ”فرائد السمطین“ (خطی)

ابن صباغ مالکی نے ”فصول المہمہ“ صفحہ ۲۷ ۔

جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۸ ۔

قاضی شوکانی نے ”فتح القدیر“ ، جلد سوم صفحہ ۵۷ ۔

شہاب الدین آلوسی شافعی نے ”روح المعانی“ ، جلد ۶، صفحہ ۱۷۲ ۔

شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے اپنی کتاب ”ینابیع المودة“ صفحہ ۱۲۰ ۔

بد ر الدین حنفی نے ”عمدة القاری فی شرح صحیح البخاری“ ، جلد ۸، صفحہ ۵۸۴ ۔

شیخ محمد عبدہ مصری ”تفسیر المنار“ ، جلد ۶، صفحہ ۴۶۳۔

حافظ بن مردویہ (متوفی ۴۱۸ئھ) (الدر المنثور سیوطی سے نقل کیا ہے) اور ان کے علاوہ بہت سے دیگرعلمانے اس حدیث کو بیان کیا ہے ۔

البتہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ بہت سے مذکورہ علمانے حالانکہ شان نزول کی روایت کو نقل کیا ہے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر (جیسا کہ بعد میں اشارہ ہوگا) سرسری طور سے گزر گئے ہیں یا ان پر تنقید کی ہے، ہم ان کے بارے میں آئندہ بحث میں مکمل طور پر تحقیق و تنقیدکریں گے۔(انشاء اللہ )

واقعہٴ غدیر 

مذکورہ بحث سے یہ بات اجمالاً معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ آیہٴ شریفہ بے شمار شواہد کی بنا پر امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، اور اس سلسلہ میں (شیعہ کتابوں کے علاوہ) خود اہل سنت کی مشہور کتابوں میں وارد ہونے والی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔

ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی متعددروایات ہیں جن میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ہوئی کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وصی و خلیفہ بنایا، ان کی تعداد گزشتہ روایات کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے، یہاں تک محقق بزرگوار علامہ امینی ۺ نے کتابِ ”الغدیر“ میں ۱۱۰/ اصحاب پیغمبر سے زندہ اسناد اور مدارک کے ساتھ نقل کیا ہے، اسی طرح ۸۴/ تابعین اور مشہور و معروف۳۶۰/ علماو دانشوروں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

اگر کوئی خالی الذہن انسان ان اسناد و مدارک پر ایک نظر ڈالے تو اس کو یقین ہوجائے گا کہ حدیث غدیر یقینا متواتر احادیث میں سے ہے بلکہ متواتر احادیث کا بہترین مصداق ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان احادیث کے تواتر میں شک کرے تو پھر اس کی نظر میں کوئی بھی حدیث متواتر نہیں ہوسکتی۔

ہم یہاں اس حدیث کے بارے میں بحث مفصل طور پر بحث نہیں کرسکتے ، حدیث کی سند اور آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں، اور اب حدیث کے معنی کی بحث کرتے ہیں، جو حضرات حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیںوہ درج ذیل کتابوں میں رجوع کرسکتے ہیں:

۱۔ عظیم الشان کتاب الغدیر جلد اول تالیف ،علامہ امینی علیہ الرحمہ۔

۲۔ احقاق الحق، تالیف ،علامہ بزرگوار قاضی نور اللہ شوستری، مفصل شرح کے ساتھ آیت اللہ نجفی، دوسری جلد ، تیسری جلد، چودھویں جلد، اور بیسوی جلد۔

۳۔ المراجعات ،تا لیف ،مرحوم سید شرف الدین عاملی۔

۴۔ عبقات الانوار ، تالیف عالم بزرگوار میر سید حامد حسین ہندی (لکھنوی) ۔

۵۔ دلائل الصدق ، جلد دوم، تالیف ،عالم بزرگوار مرحوم مظفر۔

حدیث غدیر کا مضمون 

ہم یہاں تمام روایات کے پیش نظر واقعہ غدیر کا خلاصہ بیان کرتے ہیں، (البتہ یہ عرض کردیا جائے کہ بعض روایات میں یہ واقعہ تفصیلی اور بعض میں مختصر طور پر بیان ہوا ہے، بعض میں واقعہ کے ایک پہلو اور بعض میں کسی دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہوا ہے، چنا نچہ ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے:)

پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار اور باعظمت ہو سکتے تھے وہ پیغمبر اکرم کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے، سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررہی تھی ۔ اصحاب پیغمبر کی کثیر تعداد آنحضرت (ص) کے سا تھ اعمال حج انجام دینے کی عظیم سعادت پر بہت زیادہ خوش نظر آرہے تھے ۔(1)

(1) پیغمبر کے ساتھیوں کی تعداد بعض کے نزدیک ۹۰ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بارہ ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بیس ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے

نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ تھے۔

سرزمین حجاز کا سورج درودیوار اور پہاڑوںپر آگ برسارہا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی حلاوت نے تمام تکلیفوں کو آسان بنارہا تھا۔ زوال کا وقت نزدیک تھا، آہستہ آہستہ ”جحفہ“ کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کا بیابان نظر آنے لگا۔

در اصل یہاں ایک چوراہا ہے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ہے، شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں اخری او راس عظیم سفر کااہم ترین مقصدانجام دیاجا نا تھا اور پیغمبر مسلمانوں کے سامنے اپنی آخری اور اہم ذمہ داری کی بنا پر آخری حکم پہچا نا چا ہتے تھے ۔

جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے سب کو ٹھہر نے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلندآواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لو گوں کوواپس بلایااوراتنی دیر تک رکے رہے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہی تھیں۔

اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند خشک جنگلی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے کچھ لوگ انہی چند درختوں کا سہارا لئے ہوئے تھے، انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رہی تھی ،بہرحال ظہر کی نمازادا کی گئی۔

مسلمان نماز کے بعد فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لینے کی فکر میں تھے لیکن رسول اللہ نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوجائیں جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

جو لوگ رسول اللہ (ص) سے دور تھے وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چہرہ دیکھ نہیں پارہے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،پیغمبر اس پر تشریف لے گئے،پہلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جا نے والاہوں ،میں بھی جوابدہ ہوں اورتم لو گ بھی جوابدہ ہو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو ؟سب لو گوں نے بلند آواز میں کہا :

”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“

”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟

سب نے کہا:کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں۔

آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رہنا۔ 

آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟

انہوں نے کہا: جی ہاں۔

اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا، سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی ، پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارہا ہوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟

حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا:یا رسول اللہ (ص) وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ہیں؟

تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پہلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سراتمہارے ہاتھ میں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت ٪ ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔

ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤگے۔

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاہیں دوڑارہے ہیں گویا کسی کو تلاش کررہے ہیں جو نہی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ہاتھ پکڑلیا اور انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انہیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا۔

اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:

”اٴیُّھا النَّاس مَنْ اٴولیٰ النَّاسِ بِالمَوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھم“

اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولویت رکھتا ہے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں۔

تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا اوررہبر ہے اور میں مومنین کا مولااوررہبر ہوں اورمیں ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پرمقدم ہے)۔ 

اس کے بعد فرمایا:

”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔

”یعنی جس کا میں مولاہوں علی بھی اس کے مولا اوررہبر ہیں“۔

پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی، او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:

”اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاٴحب مَنْ اٴحبہُ وَ ابغِضْ مَنْ اٴبغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَاٴدرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“

یعنی بار الٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرموڑدے جدھر وہ رخ کرے۔

اس کے بعد فرمایا: 

”اٴلَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاہدُ الغائبُ“

” تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اس وقت موجود نہیں ہیں “۔

پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینہ میں غرق تھے، دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رہا تھا۔

ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی:

 

<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی>(2) 

”آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔

اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

”اللّٰہُ اٴکبرُ اللّٰہُ اٴکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّینِ وَإتْمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِی وَالوِلاٰیَة لِعَلیّ مِنْ بَعْدِی“

”ہر طرح کی بزرگی وبڑائی خداہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔“

پیغمبر کی زبان مبارک سے امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی ولایت کا اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور بلند ہوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کرنے لگے چنانچہ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انہوں نے کہا:

”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولای و مولاکُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“

”مبارک ہو ! مبارک ! اے فرزند ابو طالب کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رہبر ہوگئے“۔

اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا۔

اس موقع پر مشہور شاعر حسان بن ثابت نے پیغمبر اکرم (ص) سے اجازت طلب کی کہ اس 

موقع کی مناسبت سے کچھ شعر کہوں ،چنا نچہ انھو ں نے یہ مشہور و معروف اشعار پڑھے:

یَنادِیْھِمْ یَومَ الغَدِیرِ نَبِیُّھُمْ بِخُمٍّ وَاٴسْمِعْ بِالرَّسُولِ مُنَادِیاً

فَقَالَ فَمَنْ مَولٰاکُمْ وَنَبِیُّکُمْ؟ فَقَالُوا وَلَمْ یَبْدُو ھُناکَ التَّعامِیا 

إلٰھکَ مَولانَا وَاٴنتَ نَبِیُّنَا َولَمْ تَلْقِ مِنَّا فِی الوَلایَةِ عَاصِیاً

فَقَالَ لَہُ قُمْ یَا عَلیّ فَإنَّنِی رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِی إمَاماً وَ ھَادیاً

فَمَنْ کُنْتُ مَولاہُ فَھَذَا وَلِیُّہُ فَکُونُوا لَہُ اَتْبَاعَ صِدْقٍ مَوَالِیاً 

ھَنَاکَ دَعَا اَللّٰھُمَّ وَالِ وَلِیَّہُ وَکُنْ لِلَّذِی لَہُ اٴتْبَاعَ عَلِیًّا مُعَادِیاً(1) 

یعنی: ”پیغمبر اکرم (ص) روز غدیر خم یہ اعلان کررہے تھے اور واقعاً کس قدر عظیم اعلان تھا۔

فرمایا: تمہارامولاا ور نبی کون ہے؟ تو مسلمانوں نے صاف صاف کہا: 

”خداوندعالم ہمارا مولا ہے اور ہمارے نبی ہیں، ہم آپ کی ولایت کے حکم کی مخالفت نہیں کریں گے۔

اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علی اٹھو ، کیونکہ میں نے تم کو اپنے بعد امام اور ہادی مقرر کیا ہے۔

اس کے بعد فرمایا: جس کامیں مولا و آقا ہوں اس کے یہ علی مولا اور رہبر ہیں ، لہٰذا تم سچے دل سے اس کی اطاعت و پیروی کرنا۔

اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: پالنے والے! اس کے دوست کو دوست رکھ! اور اس کے دشمن کو دشمن۔

(1) ان اشعار کو اہل سنت کے بڑے بڑے علمانے نقل کیا ہے ، جن میں سے حافظ ”ابونعیم اصفہانی،حافظ ”ابو سعید سجستانی“، ”خوارزمی مالکی“، حافظ ”ابو عبد اللہ مرزبانی“،”گنجی شافعی“، ”جلال الدین سیوطی“، سبط بن جوزی“ اور ”صدر الدین حموی“ کا نام لیا جاسکتا ہے 

قا ر ئین کرام !یہ تھا اہل سنت اور شیعہ علماکی کتابوں میں بیان ہونے والی مشہور و معروف حدیث غدیر کا خلاصہ۔

آیہ بلغ کے سلسلہ میں ایک نئی تحقیق 

اگر ہم مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں بیان ہونے والی احادیث اور واقعہ غدیر سے متعلق تمام روایات سے قطع نظر کریں اور صرف اور صرف خود آیہٴ بلغ اور اس کے بعد والی آیتوں پر غور کریں تو ان آیات سے امامت اور پیغمبر اکرم (ص) کی خلافت کا مسئلہ واضح و روشن ہوجائے گا۔

کیونکہ مذکورہ آیت میں بیان ہونے والے مختلف الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کی تین اہم خصوصیت ہیں:

۱۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کی ایک خاص اہمیت ہے ، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کو حکم دیا گیا ہے کہ اس پیغام کو پہنچادو، اور اگر اس کام کو انجام نہ دیا تو گویا اپنے پروردگار کی رسالت کو نہیں پہنچایا! دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ولایت کا مسئلہ نبوت کی طرح تھا ، کہ اگر اس کو انجام نہ دیا تو پیغمبر اکرم کی رسالت ناتمام رہ جاتی ہے:<وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ>

واضح رہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ خدا کا کوئی معمولی حکم تھا، اور اگرخدا کے کسی حکم کونہ پہنچایا جائے تو رسالت خطرہ میں پڑجاتی ہے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے اور اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جو رسالت و نبوت سے خاص ربط رکھتا ہے۔

۲۔ یہ مسئلہ اسلامی تعلیمات جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد اور زکوٰة وغیرہ سے متعلق نہیں تھا کیونکہ یہ آیت سورہ مائدہ کی ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ سورہ پیغمبر اکرم (ص) پر سب سے آخر میں نازل ہوا ہے، (یا آخری سوروں میں سے ہے) یعنی پیغمبر اکرم (ص) کی عمر بابرکت کے آخری دنوں میں یہ سورہ نازل ہوا ہے جس وقت اسلام کے تمام اہم ارکان بیان ہوچکے تھے۔(3)

۳۔ آیت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایک ایسا عظیم تھاجس کے مقابلہ میں بعض لوگ سخت قدم اٹھانے والے تھے، یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کی جان کو بھی خطرہ تھا، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اپنی خاص حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:< وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ> ”اور خداوندعالم تم کولوگوں کے (احتمالی) خطرے سے محفوظ رکھے گا“۔

آیت کے آخر میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے: ”خداوندعالم کافروں کی ہدایت نہیں فرماتا“< إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ >

آیت کا یہ حصہ خود اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بعض مخالف آنحضرت (ص) کے خلاف کوئی منفی قدم اٹھانے والے تھے۔

ہماری مذکورہ باتوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت کا مقصد پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔

جی ہاں پیغمبر اکرم (ص) کی آخری عمر میں صرف یہی چیز مورد بحث واقع ہوسکتی ہے نہ کہ اسلام کے دوسرے ارکان ، کیونکہ دوسرے ارکان تو اس وقت تک بیان ہوچکے تھے، صرف یہی مسئلہ رسالت کے ہم وزن ہوسکتا ہے، اور اسی مسئلہ پر بہت سی مخالفت ہوسکتی تھی اور اسی خلافت کے مسئلہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی جان کو خطرہ ہوسکتا تھا۔

اگر مذکورہ آیت کے لئے ولایت، امامت اور خلافت کے علاوہ کوئی دوسری تفسیر کی جائے تو وہ آیت سے ہم آہنگ نہ ہوگی۔ 

آپ حضرات ان تمام مفسرین کی باتوں کو دیکھیں جنھوں نے اس مسئلہ کو چھوڑ کر دوسری تاویلیں کی ہیں، ان کی تفسیر آیت سے بےگانہ دکھائی دیتی ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ آیت کی تفسیر نہیں کرپائے ہیں۔

توضیحات 

۱۔ حدیث غدیر میں مولی کے معنی 

جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے کہ حدیث غدیر ”فمن کنت مولاہ فعلیٌّ مولاہ“ تمام شیعہ اور سنی کتا بوں میں نقل ہو ئی ہے: اس سے بہت سے حقائق روشن ہوجاتے ہیں۔

اگرچہ بہت سے اہل سنت موٴلفین نے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ”مولی“ کے معنی ”ناصر یا دوست “ کے ہیں، کیونکہ مولی کے مشہور معنی میں سے یہ بھی ہیں، ہم بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ”مولیٰ“ کے معنی دوست اور ناصر ومددگار کے ہیں، لیکن یہاں پر بہت سے قرائن و شواہدہیں جن سے معلوم ہوتا ہے مذکورہ حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی ”ولی ، سرپرست اور رہبر“ کے ہیں، ہم یہاں پر ان قرائن و شواہد کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:

۱۔ حضرت علی علیہ السلام سے تمام مومنین کی دوستی کوئی مخفی اور پیچیدہ چیز نہ تھی کہ جس کے لئے اس قدر تاکید اور بیان کی ضرورت ہوتی، اور اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس بے آب و گیاہ اور جلتے ہوئے بیابان میں اس عظیم قافلہ کو دوپہر کی دھوپ میں روک کرایک طویل و مفصل خطبہ دیا جائے اور سب لوگوں سے اس دوستی کا اقرارلیا جائے۔

قرآن مجید نے پہلے ہی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان فردیا ہے: < إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ>(4)”مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں“

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:< وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْض>(5) ”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں“۔

خلاصہ یہ کہ اسلامی اخوت اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوستی اسلام کے سب سے واضح مسائل میں سے ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، اور خود آنحضرت (ص) نے اس بات کو بارہا بیان فرمایا اوراس سلسلہ میں تاکید فرمائی ہے، اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس سے آیت کا لب و لہجہ اس قدر شدید ہوجاتا، اور پیغمبر اکرم (ص) اس راز کے فاش ہونے سے کوئی خطرہ محسوس کرتے۔ (غور کیجئے )

۲۔ ”اٴلَسْتُ اٴولیٰ بِکُمْ مِنْ اٴنفُسِکم“ (کیا میں تم لوگوں پر تمہارے نفسوں سے زیادہ اولی اور سزاور نہیں ہوں؟) حدیث کا یہ جملہ بہت سی کتابوں میں بیان ہوا ہے جو ایک عام دوستی کو بیان کرنے کے لئے بے معنی ہے، بلکہ اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح مجھے تم پر اولویت و اختیار حاصل ہے اور جس طرح میں تمہارا رہبر اور سرپرست ہوں بالکل اس طرح علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ہے، اورہمارے عرض کئے ہوئے اس جملے کے معنی کے علاوہ دوسرے معنی انصاف اور حقیقت سے دور ہیں، خصوصاً ”من انفسکم“ کے پیش نظر یعنی میں تمہاری نسبت تم سے اولیٰ ہوں۔

۳۔ اس تاریخی واقعہ پرتمام لوگوں کی طرف سے خصوصاً حضرت ”عمر “ اور حضرت ”ابوبکر“ کا امام علی علیہ السلام کی خد مت میں مبارکباد پیش کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف خلافت کا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے تبریک و تہنیت پیش کی جارہی تھی، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام سے دوستی کا مسئلہ تو سب کو معلوم تھا اس کے لئے تبریک کی کیا ضرورت تھی؟!!

مسند احمد میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اعلان کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو ان الفاظ میں مبارک باد دی:

”ھنئیاً یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“(6) 

”مبارک ہو مبارک! اے ابو طالب کے بیٹے! آج سے تم ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے“۔

علامہ فخر الدین رازی نے < یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ >کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر نے کہا: ”ھنئیاً یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“جس سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کوخود حضرت عمر اپنااور ہر مومن و مومنہ کا مولا سمجھتے تھے۔

تاریخ بغداد میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: ”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولای و مولاکُلّ مسلم“(7) ”اے ابو طالب کے بیٹے مبارک ہو مبارک! آپ آج سے میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے“۔

فیض القدیر اور صواعق محرقہ دونوں کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر دونوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: ”وَاٴَمسیتَ یابن اٴبی طالبٍ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“

یہ بات واضح ہے کہ ایک عام دوستی تو سبھی مومنین کے درمیان پائی جاتی تھی، تو پھر اتنا اہتمام کیسا؟! لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ یہ اس وقت صحیح ہے جب مولی کے معنی صرف اور صرف حا کم اور خلیفہ ہوں۔

۴۔ حسان بن ثابت کے مذکورہ اشعار بھی اس بات پر بہترین گواہ ہیں کہ جن میں بلند مضامین اور واضح الفاظ میں خلافت کے مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے، جن کی بنا پر مسئلہ کافی واضح ہے (آپ حضرات ان اشعار کو ایک مرتبہ پھر پڑھ کر دیکھیں)

 

۲۔ قرآن کی آیات واقعہ غدیر کی تائید کرتی ہیں 

بہت سے مفسرین اورراویوں نے سورہ معارج کی ابتدائی چند آیات: <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ # لِلْکَافِرینَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ # مِنْ اللهِ ذِی الْمَعَارِجِ > (ایک سائل نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے، یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے،)کی شان نزول کو بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: 

”پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم میں خلافت پر منصوب کیا، اوران کے بارے میں فرمایا: ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر عام ہوگئی، نعمان بن حارث فہری (8)(جو کہ منافقوں میں سے تھا ) پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے: آپ نے ہمیں حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیں ہم نے گواہی دی، لیکن آپ اس پر بھی راضی نہ ہوئے یہاں تک کہ آپ نے (حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے کہا) اس جوان کو اپنی جانشینی پر منصوب کردیا اور کہا : ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔کیا یہ کام اپنی طرف سے کیا ہے یا خدا کی طرف سے؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اس خداکی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، یہ کام میں نے خدا کی طرف سے انجام دیا ہے“۔

نعمان بن حارث نے اپنا منھ پھیر لیا اور کہا: خداوندا! اگر یہ کام حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسا!۔

اچانک آسمان سے ایک پتھر آیا اور اس کے سر پر لگا ، جس سے وہ وہیں ہلاک ہوگیا،اس موقع پر آیہٴ <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِع> نازل ہوئی ۔

(قارئین کرام!) مذکورہ روایت کی طرح مجمع البیان میں بھی یہ روایت ابو القاسم حسکانی سے نقل ہوئی ہے(9)، اور اسی مضمون کی روایت بہت سے اہل سنت مفسرین اور راویان حدیث نے مختصر سے اختلاف کے ساتھ نقل کی ہے، منجملہ: قرطبی نے اپنی مشہور تفسیرمیں(10) آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں(11)، اور ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں۔(12)

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے کتاب الغدیر میں تیس علمااہل سنت سے ( معہ منابع )اس روایت کو نقل کیا ہے، جن میں سے: سیرہٴ حلبی، فرائد السمطین حموینی، درر السمطین شیخ محمد زرندی، السراج المنیرشمس الدین شافعی، شرح جامع الصغیر سیوطی، تفسیر غریب القرآن حافظ ابوعبید ہروی، اور تفسیر شفاء الصدور ابو بکر نقّاش موصلی ، وغیرہ بھی ہیں۔(13)

________________________________________

(1) سورہ مائدہ ، آیت 67

(2)سورہٴ مائدہ ، آیت3

3) فخر رازی اس آیت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں: بہت سے علما(محدثین اور مورخین) نے لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) صرف ۸۱ /دن یا ۸۲/ دن زندہ رہے، (تفسیر کبیر ، جلد ۱۱، صفحہ ۱۳۹) ، تفسیر المنار اور بعض دیگر کتابوں میں یہ بھی تحریر ہے کہ پورا سورہ مائدہ حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوا ہے، (المنار ، جلد ۶ صفحہ ۱۱۶) البتہ بعض موٴلفین نے مذکورہ دنوں کی تعداد کم لکھی ہے4)سورہٴ حجرات ، آیت ۱۰ (5)سورہٴ توبہ ، آیت73

(6) مسند احمد ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۱ ،(فضائل الخمسہ ، جلد اول، صفحہ ۴۳۲ کی نقل کے مطابق )

(7) تاریخ بغداد ، جلد ۷، صفحہ ۲۹۰

(8) بعض روایات میں ”حارث بن نعمان“ اور بعض روایات میں ”نضر بن حارث“ آیا ہے

(9) مجمع البیان ، جلد ۹و۱۰، صفحہ ۳۵۲

(10) تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰، صفحہ ۶۷۵۷

(11) تفسیر آلوسی، ، جلد ۲۹، صفحہ ۵۲

(12) نور ا لابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۱ کے نقل کے مطابق

(13) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸۱

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 September 17 ، 20:51
جعفر علی نقوی

امام علی نقی(علیہ السلام) کی سوانح حیات

مام علی نقی علیہ السلام کی سال ولادت 212 ھ اور شہادت ۲۵۴ ہجری میں واقع ہونے کے بارے اتفاق ہے۔ لیکن آپ کی تاریخ ولادت و شھادت میں اختلاف ہے۔
ولادت کو بعض مورخین نے 15 ذی الحجہ اور بعض نے دوم یا پنجم رجب بتائی ہے اسی طرح شھادت کو بعض تیسری رجب مانتے ہیں لیکن شیخ کلینی اور مسعودی نے ستائیس جمادی الثانی بیان کی ہے.
البتہ رجب میں امام ھادی علیہ السلام کی پیدایش کی ایک قوی احتمال وہ دعای مقدسہ ناحیہ کا جملہ ہے، جس میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں : "اللھم انی اسئلک بالمولودین فی رجب ، محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد " آپ کا نام گرامی علی اور لقب، ھادی، نقی، نجیب، مرتضی، ناصح، عالم، امین، مؤتمن، منتجب، اور طیب ھیں، البتہ ھادی اور نقی معروف ترین القاب میں سے ھیں، آنحضرت کی کنیت " ابو الحسن " ہے اور یہ کنیت چھار اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب ،امام موسی ابن جعفر ،امام رضا علیہم السلام کیلئے استعمال ہوا ہے، تنھا (ابو الحسن) صرف امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لۓ اور امام موسی بن جعفر علیہ السلام کو ابوالحسن اول، امام رضا علیہ السلام کو ابو الحسن الثانی، اور امام علی النقی علیہ السلام کو ابو الحسن الثالث کہا جاتا ہے۔
امام علی النقی الھادی علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں بنام " صریا " میں ھوئی ہے جسے امام موسی کاظم علیہ السلام نے آباد کیا اور کئ سالوں تک آپ کی اولاد کا وطن رہا ہے۔ حضرت امام علی النقی علیہ سلام جو کہ ھادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3 رجب اور دوسری قول کے مطابق 25 جمادی الثانی کو سامرا میں شھید کۓ گۓ، حضرت امام علی النقی علیہ سلام کا دور امامت، عباسی خلفاء معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین، اور معتز کے ھمعصر تھے۔ حضرت امام علی النقی علیہ سلام کے ساتھ عباسی خلفا کا سلوک مختلف تھا بعض نے امام کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ھم عقیدہ تھے، جن میں سے متوکل عباسی اھل بیت کی نسبت دشمنی رکھنے میں زیادہ مشہور تھا اور اس نے خاندان رسالت کو آزار و اذیت پہنچانے میں کوئی کسر باقی نھیں چھوڑی، یہاں تک کہ اماموں کی قبروں کو مسمار کیا، خاص کر قبر مطھر سید الشھدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو مسمار کرکے اور وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔
متوکل نے حضرت امام نقی علیہ السلام کو سن 243 ھجری میں مدینہ منورہ سے سامرا بلایا۔ عباسی خلفا میں سے صرف منتصر باللہ نے اپنے مختصر دور خلافت میں خاندان امامت و رسالت کے ساتھ قدرے نیک سلوک کیا۔ حضرت امام علی النقی علیہ سلام کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 سال ایک فوجی چھاونی میں قید رکھا، اس دوران مکمل طور پر لوگوں کو اپنے امام کے ملاقات سے محروم رکھا گیا۔
آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن 254 ھجری کو معتز عباسی خلیفہ نے اپنے بھائی معتمد عباسی کے ھاتھوں زھر دے کر آپ کوشہید کر دیا.

عصر امام علیہ السلام کے دور میں سیاسی اور اجتماعی حالات
عباسی خلافت کے اس دور میں چند ایک خصوصیات کی بناء پر دوسرے ادوار سے مختلف ہے لھذا بطور اختصار بیان کردیا جاتا ہے:
1۔ خلافت کی عظمت اور اس کی زوال:خواہ اموی خلافت کا دور ہو یا عباسی کا ، خلافت ایک عظمت و حیثیت رکھتی تھی لیکن اس دور میں ترک اور غلاموں کے تسلط کی وجہ سے خلافت گیند کی مانند ایک بازیچہ بن گیا تھا جس طرف چاہے پھیرتے تھے۔
2۔ درباریوں کا خوش گذرانی اور ھوسرانی: عباسی خلفاء نے اپنے دور کے اس خلافت میں خوش گذرانی و شرابخواری و … کے فساد و گناہ میں غرق تھے جس کو تاریخ نے ضبط کیا ہے۔
3۔ ظلم و بربریت کی بے انتھا:عباسی خلفاء کی ظلم تاریخ میں بھری پڑی ہے قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
4۔ علوی تحریکوں کا گسترش:اس عصر میں عباسی حکومت کی یہ کوشش رہی کہ جامعہ میں علویوں سے نفرت پیدا کی جائے اور مختصر بہانے پر ان کو بی رحمانہ قتل و غارت کیا جاتا تھا کیونکہ علوی تحریک سے عباسی حکومت ہمیشہ اپنے آپ کو خطرہ سمجھ رہی تھی۔
اسی لئے اس سلسلے کی ایک کڑی یعنی امام ھادی علیہ السلام کو حکومت وقت نے مدینے سے سامرا بلایا اور فوجی چھاونی میں بہت سخت حفاظتی انتظام کے ساتھ گیارہ سال قید بند میں رکھا۔
عباسی خلفاء کا سیاہ ترین دور اور امام ھادی (ع) کا موقف
عباسی خلفاء میں سے خصوصا خلیفہ متوکل سب سے زیادہ علویوں اور شیعوں کے ساتھ عجیب دشمنی رکھتا تھا، اس لئے یہ دور تاریخ کا سب سے زیادہ سخت ترین اور سیاہ ترین دور کہا جاتا ہے لہذا امام ھادی علیہ السلام اس خلیفہ کے زمانے میں اپنے ماننے والوں کیلئے پیغام دینا بہت ہی سری اور احتیاط کے ساتھ انجام دیتے تھے؛ چونکہ امام (ع) سخت کنٹرول میں تھے اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے وکالت اور نمایندگی کے طریقے کو اپنایا۔
امام ھادی (ع) اور مکاتب کلامی
امام ھادی علیہ السلام کے اس سخت ترین شرائط کے زمانے میں دیگر مکاتب اور مذاھب کے ماننے والے اپنے عروج پر تھے اور باطل عقائد اور نظریات مثلا جبر و تفویض، خلق قرآن و غیرہ جامعہ اسلامی اور شیعوں کے محافل میں نفوذ کرکے امام (ع) کی ھدایت و رھبری کی ضرورت کو دو چندان کردیا تھا اور بہت سارے مناظرے ان موضوعات پر روشن گواہ ہے۔
حوالہ جات
(1)طبرسی، اعلام الوری، الطبعة الثالثه، دارالکتب الاسلامیه، ص 355؛ شیخ مفید، الارشاد، قم، مکتبه بصیرتی، ص 327
(2)شبلنجی، نورالابصار، ص 166، قاهره، مکتبته المشهد الحسینی
(3)وقایع الایام، ص ۲۸۲

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 17 ، 17:56
جعفر علی نقوی

الله کی طرف سے امام کا معین هونا

سوال: امام کاتعین کس طرح هوتا ہے ؟
اجمالی جواب:
تفصیلی جواب: سورہ بقرہ کی ۱۲۴ویں آیت میں فرمایا ۔(وہ وقت یاد کرو) جب خدانے ابراہیم کو مختلف طریقوں سے آزمایا اور وہ ان سے عمدگی سے عہدہ برآں ہویے تو خدا نے ان سے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا امام و رہبر قرار دیا۔ ابراہیم نے کہا: میری نسل اور خاندان میں سے (بھی ایمہ قرار دے)۔ خدا نے فرمایا: میرا عہد (مقام امامت) ظالموں کو نہیں پہنچتا (اور تماری اولاد میں سے جو پاک اور معصوم ہیں وہی اس مقام کے لایق ہیں)۔
وَ اِذِ ابْتَلى اِبْراهیمَ رَبُّهُ بِکَلِمات فَاَتَمَّهُنَّ قالَ اِنِّی جاعِلُکَ لِلنّاسِ اِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی قالَ لایَنالُ عَهْدِی الظّالِمینَ
امام کا تعین خدا کی طرف سے ہونا چاہییے:
زیر بحث آیت سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ امام (ہر لحاظ سے لوگوں کے رہبر کے مفہوم کے اعتبارسے) خدا کی طرف سے معین ہونا چاہییے۔ کیونکہ امامت ایک قسم کا خدایی عہد و پیمان ہے اور واضح ہے کہ جسے خدا معین کرے گا اس پیمان کے ایک طرف خود خدا ہوگا۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کے ہاتھ ظلم و ستم سے رنگے ہویے ہیں اور ان کی زندگی میں کہیں ظلم کا نشان موجود ہے۔ چاہے اپنے اوپر ظلم ہی کیوں نہ ہو یہاں تک کہ ایک لحظے کے لیے بت پرستی کی ہو وہ امامت کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اصطلاح میں کہتے ہیں کہ امام کو اپنی تمام زندگی میں معصوم ہوناچاہییے۔
کیا خدا کے سوا کویی صفت عصمت سے آگاہ ہوسکتاہے:۔
اگر اس معیار پر جانشین پیغمبر کا تعین کیاجایے تو حضرت علی کے علاوہ کویی خلیفہ نہیں ہوسکتا۔
تعجب کی بات ہے کہ المنار کے مولف نے حضرت ابو حنیفہ کا ایک قول نقل کیاہے جس کے مطابق ان کا اعتقاد تھا کہ خلافت منحصرا اولاد علی کے شایان شان ہے، اسی بناء پر وہ حاکم وقت (منصور عباسی) کے خلاف مظاہرات کو جایز سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے خلفایے بنی عباس کی حکومت میں انہوں نے منصب قضاوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔
المنار کا مولف اس کے بعد مزید لکھتاہے کہ آیمہ اربع سب کے سب اپنے وقت کی حکومتوں کے مخالف تھے اور انہیں مسلمانوں کی حکمرانی کے لیے اہل نہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ ظالم و ستمگر تھے۔
لیکن یہ بات باعث تعجب ہے کہ ہمارے زمانے میں بہت سے علماء اہل سنت ظالم و جابر اور خود سر حکومتوں کی تایید کرتے ہیں اور انہیں تقویت پہنچاتے ہیں جب کہ یہ سب پر آشکار ہے کہ ان حکومتوں کے روابط ان دشمنان اسلام سے ہیں جن کا ظلم و فساد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ صرف اتنی سی بات نہیں بلکہ انہیں اولوا الامر واجب الاطاعت سمجھتے ہیں۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 17 ، 17:51
جعفر علی نقوی

امام علی نقی(علیہ السلام) کی مختصر سوانح حیات

سوال: امام علی نقی (علیہ السلام) کی زندگی کے نشب و فراز کیا تھے ؟
اجمالی جواب:
تفصیلی جواب: شیعوں کے دسویںراہنما امام ابوالحسن علی نقی الہادی (علیہ السلام) ١٥ ذی الحجہ ٢١٢ ہجری کو مدینہ کے نزدیک ""صریا"" نامی جگہ پر متولد ہویے (١) آپ کے والد نویں راہنما امام محمد تقی (علیہ السلام)ہیں اور آپ کی والدہ گرامی سمانہ ہیں ، آپ بہت ہی با تقوی اور با فضیلت خاتون تھیں (٢) ۔
دسویں امام کے مشہور ترین القاب نقی اور ہادی ہیں اور آپ کو ""ابوالحسن ثالث "" بھی کہا جاتا ہے (٣) ۔
امام ہادی (علیہ السلام) اپنے والد محترم کی شہادت کے بعد ٢٢٠ ہجری میں امامت پر بیٹھے اور اس وقت آپ کی عمر آٹھ سال تھی ، آپ کی امامت کی مدت ٣٣ سال ہے اور آپ کی عمر اکتالیس سال اور چند ماہ تھی ، ٢٥٤ ہجری کو شہر سامرا میں آپ کی شہادت ہویی ۔
امام ہادی (علیہ السلام) کی امامت کے دوران چند خلفاء عباسی گزرے ہیں جو زمانہ کے اعتبار سے مندرجہ ذیل ہیں :
١۔ معتصم ، مامون کا بھایی (٢١٧ تا ٢٢٧ ) ۔
٢۔ واثق ، معتصم کا بیٹا (٢٢٧ تا ٢٣٢ ) ۔
٣۔ متوکل ، واثق کا بھایی (٢٣٢ تا ٢٤٨) ۔
٤۔ منتصر ،متوکل کا بیٹا (٦ ماہ ) ۔
٥۔ مستعین ، منتصر کا چچا زاد بھایی (٢٤٨ تا ٢٥٢ ) ۔
٦۔ معتز ، متوکل کا دوسرا بھایی (٢٥٢ تا ٢٥٥ ) ۔
امام ہادی کو آخری خلیفہ کے زمانہ میں زہر سے شہید کیا گیا اور ان کو اپنے گھر میں دفن کیا گیا (٤) ۔
حوالہ جات:
(1) . طبرسى، أَعلام الورى، الطبعه الثالثه، دارالکتب الاسلامیه، ص 355 - شیخ مفید، الارشاد، قم، مکتبه بصیرتى، ص 327.
(2) . طبرسى، أَعلام الورى، الطبعه الثالثه، دارالکتب الاسلامیه، ص 355 - شیخ مفید، الارشاد، قم، مکتبه بصیرتى، ص 327.٣۔
(3) . طبرسى، أَعلام الورى، ص 355.شیعہ راویوں کی اصطلاح میں ابوالحسن اول سے امام موسی بن جعفر (علیہ السلام) اور ابوالحسن ثانی سے آٹھویں امام علی رضا (علیہ السلام) مراد ہیں ۔
(4) . سیره پیشوایان، مهدی پیشوائی، ص 567.
    
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 17 ، 17:17
جعفر علی نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 17 ، 17:07
جعفر علی نقوی

امام ہادی علیہ السلام کی شخصیت علماء اہل سنت کی نظر میں


ابن خلکان (متوفی 681 ہجری ):

ذہبیی(متوفی 748 ہجری):

صفدی (متوفی 764 ہجری):

یافعی (متوفی 768 ہجری):

ابن کثیر (متوفی 774 ہجری):

ابن صباغ (متوفی 855 ہجری):

ابن حجر ہیثمی (متوفی 973 ہجری):

قرمانی (متوفی 1019 ہجری):

شبراوی(متوفی 1171 ہجری):

زرکلی(متوفی 1396 ہجری):

نتیجہ:

 

امام ہادی علیہ السلام آسمان امامت و ولایت کے دسویں ستارے 15 ذی الحجہ سن 212 ہجری کو مدینہ کے محلے صریا میں پیدا ہوے۔ امام ہادی علیہ السلام کے والد گرامی امام جواد علیہ السلام اور والدہ گرامی سمانہ زن با فضیلت و با تقوی تھی۔ امام ہادی علیہ السلام کے زمانے کے حالات ایسےتھے کہ وہ اپنے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام ان کی بیوی بی بی نرجس خاتون علیہا السلام اور امام جواد علیہ السلام کی بیٹی  حکیمہ خاتون علیہا السلام کے ساتھ سامراء کے محلے عسکر کہ ایک فوجی علاقہ تھا میں زندگی گزارتے تھے۔ امام ہادی علیہ السلام  کے زمانے کے حالات ایسے تھے کہ استفادہ علمی ان امام سے دوسرے اماموں کی نسبت بہت کم ہوا ہے۔

آخر کار امام ہادی علیہ السلام تینتیس سال امامت و انسانیت کی خدمت اور ہدایت کرنےکے بعد سن 254 ہجری شہر سامرا میں شہادت کے مرتبے پر فائز اور اپنےگھر میں دفن ہوئے۔اب ان کا نورانی مقبرہ شیعیان اور محبان کی پناہ گاہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اس مختصر تحریر میں ہم امام ہادی علیہ السلام کی شخصیت علماء اہل سنت کی نظر میں بیان کر رہے ہیں۔

ابن خلکان (متوفی681 ہجری)

ابن خلکان عالم سنی شافعی مذہب امام ہادی علیہ السلام کی شخصیت کو اس طرح بیان کر رہا ہے:

أبو الحسن العسکری أبو الحسن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا ... کان قد سعی به إلى المتوکل وقیل إن فی منزله سلاحا وکتبا وغیرها من شیعته وأوهموه أنه یطلب الأمر لنفسه فوجه إلیه بعدة من الأتراک لیلا فهجموا علیه فی منزله على غفلة فوجدوه وحده فی بیت مغلق وعلیه مدرعة من شعر وعلى رأسه ملحفة من صوف وهو مستقبل القبلة یترنم بآیات من القرآن فی الوعد والوعید لیس بینه وبین الأرض بساط إلا الرمل والحصى فأخذ على الصورة التی وجد علیها وحمل إلى المتوکل فی جوف اللیل فمثل بین یدیه والمتوکل یستعمل الشراب وفی یده کأس فلما رآه أعظمه وأجلسه إلى جنبه.

 ابوالحسن علی ہادی بن محمد جواد بن علی رضا علیہ السلام کی کسی نے متوکل کے دربار میں چغلی لگائی کہ امام ہادی علیہ السلام کے پاس گھر میں اسلحہ کچھ خط اور دوسری چیزیں ہیں جو امام نے اپنے شیعوں سے لی ہیں اور وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔ متوکل نے کچھ ترک سپاہیوں کو اچانک امام (ع)  کے گھر روانہ کیا اور انھوں نے رات کو امام (ع) کے گھر حملہ کر دیا۔ سپاہیوں نے گھر کی بہت تلاشی لی لیکن اُن کو گھر سے کچھ نہ ملا۔پھر انھوں نے دیکھا کہ امام (ع) اکیلے ایک کمرے میں گھر کے لباس میں زمین پر بیٹھے نماز اور تلاوت قرآن میں مصروف ہیں۔ سپاہی امام (ع) کو اُسی حالت میں متوکل کے دربار میں لے گے اس حالت میں کہ متوکل شراب پی رہا تھا۔ امام (ع) کی ہیبت کو دیکھ کر متوکل نے بے اختیار امام (ع) کا احترام کیا اور اپنے ساتھ بیٹھایا۔

إبن خلکان، ابوالعباس شمس الدین أحمد بن محمد بن أبی بکر (متوفى681هـ)، وفیات الأعیان و انباء أبناء الزمان، ج 3 ص 272 ، تحقیق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

 ذہبی(متوفی 748 ہجری):

امام اہل سنت ذہبی امام ہادی (ع) کی شخصیت کو اس طرح بیان کرتا ہے:

وکذلک ولده الملقب بالهادی شریف جلیل.

 اسی طرح اس کا (امام جوادعلیہ السلام ) بیٹا کہ اس کا لقب ہادی ہے ایک شریف اور با عظمت انسان تھا۔

الذهبی الشافعی، شمس الدین ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى748 هـ)، سیر أعلام النبلاء، ج 13 ص 121 ، تحقیق: شعیب الأرنؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

 اسی طرح ذہبی اپنی کتاب العبر میں بیان کرتا ہے کہ:

وکان فقیها إماما متعبدا.

 امام ہادی ایک فقیہ اور عبادت گزار انسان تھے۔

الذهبی الشافعی، شمس الدین ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى 748 هـ)، العبر فی خبر من غبر، ج 2 ص 12 ، تحقیق: د. صلاح الدین المنجد، ناشر: مطبعة حکومة الکویت - الکویت، الطبعة: الثانی، 1984.

 صفدی(متوفی 764 ہجری):

 صفدی شافعی امام ہادی علیہ السلام کے علمی مقام کے بارے میں ایسے نقل کرتا ہے:

علی بن محمد بن علی بن موسی.هو أبوالحسن الهادی بن الجواد بن الرضا بن الکاظم بن الصادق بن الباقر بن زین ‌العابدین، أحد الأئمة الإثنی عشر عند الإمامیة .کان المتوکل قد اعتل، فقال:إن برأت لأتصدقن بمال کثیر. فلما عوفی، جمع الفقهاء و سألهم عن ذلک، فأجابوه مختلفین. فبعث الی علی الهادی علیه‌السلام. فقال: یتصدق بثلاثة ثمانین دینار قالوا: من أین لک هذا؟ قال:لأن الله تعالی قال: (لقد نصرکم الله فی مواطن کثیرة) (توبه، آیه 25). و روی أهلنا ان المواطن کانت ثلاثة و ثمانین موطنا.

 امام ہادی علیہ السلام شیعہ امامیہ کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں۔ ایک دن متوکل بیمار ہو گیا اُس نے نذ ر کی کہ اگر اُسے شفاء مل گی تو وہ بہت زیادہ دینار خدا کی راہ میں صدقہ دے گا۔جب وہ صحت مند ہو گیا تو اُس نے علماء کو جمع کیا اور اُن سے پوچھا کہ کتنے دینار صدقہ دے کہ اُس پر لفظ کثیر صدق کرے۔ علماء نے مختلف اقوال بیان کیے ۔ متوکل نے ناچار ہو کر امام ہادیؑ سے سوال کیا تو امام نے جواب دیا کہ 83 دینار صدقہ دو۔ علماء نے امام کے جواب سے تعجب کیا اور متوکل سے کہا کہ امام (ع) سے پتا کرے کہ اس جواب کی کیا دلیل ہے؟

امام (ع) نے جواب دیا کہ خداوند نے قرآن میں فرمایا ہے کہ (لقد نصرکم الله...) خداوند نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور ہم اہل بیت (ع) سے روایات نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 83جنگوں میں شرکت کی ہے پس متوکل نے 83دینار صدقہ دیا۔

الصفدی، صلاح الدین خلیل بن أیبک (متوفى764هـ)، الوافی بالوفیات، ج 22 ص 49 ، تحقیق أحمد الأرناؤوط وترکی مصطفى، ناشر: دار إحیاء التراث - بیروت - 1420هـ- 2000م.

 یافعی(متوفی 768 ہجری):

یافعی امام ہادی علیہ السلام کے بارے میں ایسے بیان کرتا ہے:

سنة اربع وخمسین ومائتین فیها توفی العسکرى أبو الحسن على الهادى بن محمد الجواد بن على الرضأ بن موسى الکاظم بن جعفر الصادق العلوى الحسینى عاش اربعین سنة وکان متعبدا فقیها اماما.

حوادث سن 254 ہجری: اس سال میں امام ہادی علیہ السلام نے وفات پایئ۔ امام نے چالیس سال زندگی کی۔ امام ایک عبادت گذار فقیہ اور امام تھے۔

الیافعی، ابو محمد عبد الله بن أسعد بن علی بن سلیمان (متوفى768هـ)، مرآة الجنان وعبرة الیقظان، ج 2 ص 159 و 160 ، ناشر: دار الکتاب الإسلامی - القاهرة - 1413هـ - 1993م.

 ابن کثیر (متوفی 774 ہجری):

 ابن کثیر امام ہادی علیہ السلام کی ایسے تعریف بیان کرتا ہے:

وأما أبو الحسن علی الهادی .وقد کان عابدا زاهدا .وهو على التراب لیس دونه حائل.

 امام ہادی ایک عابد و زاہد انسان تھے اور وہ زمین پر بیٹھتے تھے اس حالت میں کہ چادر نیچے نہیں بچھاتے تھے یعنی سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔

ابن کثیر الدمشقی، ابو الفداء إسماعیل بن عمر القرشی (متوفى774هـ)، البدایة والنهایة، ج 11 ص 15 ، ناشر: مکتبة المعارف – بیروت.

 ابن صباغ (متوفی 855 ہجری):

 ابن صباغ مالکی وجود مقدس امام ہادی علیہ السلام کی ایسے تعریف بیان کرتا ہے:

 فضل أبی‌الحسن علی الهادی قد ضرب علی المجرة قبابه و مد علی نجوم السماء اطنابه و ما تعد منقبة الا و له أفخرها و لا تذکر مکرمة الا و له فضیلتها و لا تورد محمدة الا و له تفصیلها و جملتها. استحق ذلک بما فی جوهر نفسه من کرم تفرد بخصائصه فکانت نفسه مهذبة و اخلاقه مستعذبة و سیرته عادلة و افعاله فاضلة و هو من الوقار و السکون و الطمأنینة و الفقه و النزاهة و الزهادة و النباهة علی السیرة النبویة و الشنشنة العلویة و نفس زکیة و همة عالیة لا یقاربها أحد من الأنام و لا یداینها.

 امام ہادی کی فضیلت زمین و آسمان پر قابل مثال ہے۔ کوئی خوبی ایسی نہیں کہ بالا ترین آن امام کے پاس ہے اور ہر فضیلت جو ذکر ہو وہ امام کے وجود میں موجود ہے۔ ہر تعریف جو بیان ہوتی ہے وہ اپنی پوری تفصیل و اختصار کے ساتھ امام کے پاس موجود ہے۔ امام کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔ امام  کا اخلاق حسن و میٹھا ہے اُنکی سیرت نیک اور اعمال با فضیلت ہیں۔

اُن کا علم مانند رسول خدا اور طبیعت مانند حضرت علی(ع) تھا۔ اْن کی ہمت دوسرے انسانوں کی طرح نہیں تھی بلکہ بلند تھی۔

المالکی، علی بن محمد بن أحمد المالکی المکی المعروف بابن الصباغ (متوفی885هـ)، الفصول المهمة فی معرفة الأئمة، ج 2 ص 1073 و 1074 ، تحقیق: سامی الغریری، ناشر: دار الحدیث للطباعة والنشر مرکز الطباعة والنشر فی دار الحدیث – قم، الطبعة الأولى: 1422 هـ .

ابن حجر ہیثمی (متوفی 973 ہجری):

 ابن حجر عالم متعصب امام ہادی علیہ السلام کے علم و سخاوت کو ایسے بیان کرتا ہے:

وکان وارث أبیه علما وسخاء.

 امام ہادی نے علم و سخاوت کو اپنے والد سے ارث میں لیا تھا۔

الهیثمی، ابو العباس أحمد بن محمد بن علی ابن حجر (متوفى973هـ)، الصواعق المحرقة علی أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 598 ، تحقیق: عبد الرحمن بن عبد الله الترکی - کامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.

 قرمانی (متوفی 1019 ہجری):

 احمد بن یوسف قرمانی امام ہادیؑ کے نام کو ذکر کرنے کے بعد امام کی شخصیت کو اس طرح بیان کرتا ہے:

و اما مناقبه فنفیسة و اوصافه شریفة.

 امام کے فضائل گرانبہا و صفات نیک ہیں۔

القرمانی، أحمد بن یوسف، (المتوفى: 1019هـ)، أخبار الدول و آثار الأول فی التاریخ، ج 1 ص 349 ، المحقق، الدکتور فهمی سعد، الدکتور أحمد حطیط، دار النشر: عالم الکتاب، الطبعة الأولی: 1412 هـ.

 شبراوی (متوفی 1171 ہجری):

 شبراوی شافعی امام ہادی علیہ السلام کے نام کو ذکر کرنے کے بعد اشارہ کرتا ہے کہ امام (ع) کے فضائل بہت زیادہ ہیں:

و کراماته کثیره.

 اور اُسکی کرامات بہت زیادہ ہیں ۔

الشبراوی، الشافعی، عبد الله بن محمد بن عامر، الاتحاف بحب الاشراف، ص67 ، مطعبة مصطفی البابی الحلبی وأخویه بمصر .

 زرکلی (متوفی 1396 ہجری):

 زرکلی عالم سنی امام ہادی علیہ السلام کی شخصیت کو اس طرح بیان کرتا ہے:

علی (الملقب بالهادی) ابن محمد الجواد ابن علی الرضى بن موسى بن جعفر الحسینی الطالبی:عاشر ائمة الاثنی عشر عند الإمامیة، وأحد الأتقیاء الصلحاء ولد بالمدینة.

 اُن کا لقب ہادی اور نام علی  بن محمد جواد بن علی رضا بن موسی بن جعفر حسینی حضرت ابو طالب کی نسل سے تھے۔ امام ہادی شیعہ امامیہ کے نزدیک متقی پرہیز گار تھے کہ جو مدینے میں پیدا ہوئے۔

الزرکلی، خیر الدین، الأعلام، ج 4، ص 323، چاپ پنجم، ناشر : دار العلم للملایین - بیروت – لبنان، 1980 م.

 نتیجہ:

 مطالب کہ جو بیان ہوئے وہ ایک قطرہ تھا جو امام ہادی علیہ السلام کے فضائل کے بحر بیکراں سے علماء اہل سنت نے بیان کیا۔ علماء اہل سنت نے اِن فضائل کو اپنی کتب سے بیان کیا ہے۔ ورنہ امام ہادی علیہ السلام کے فضائل اِس سے زیارہ ہیں کہ اِس مختصر تحریر میں بیان کیے جا سکیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 17 ، 16:48
جعفر علی نقوی
امامت سے مراد کیا ھے؟ اور امامت اصول دین میں ھے یا فروع دین میں ؟

امامت کی تعریف کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف پایاجاتا ھے، اور اختلاف ھونا بھی چاہئے کیونکہ شیعہ نظریہ(جو کہ مکتب اھل بیت علیھم السلام کے پیروکار ھیں) کے مطابق امامت اصول دین میں سے ھے، جبکہ اھل سنت کے یھاں امامت کو فروع دین اور عملی احکام میں شمار کیا جاتا ھے۔

اسی وجہ سے فریقین امامت کو ایک نگاہ سے نھیں دیکھتے لہٰذا اس کی تعریف الگ الگ کرتے ھیں

اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں کہ ایک سنی عالم دین، امامت کی تعریف اس طرح کرتے ھیں:

”اٴلإمَامَةُ ریاسةٌ عَامةٌ فِی اٴمورِ الدِّینِ وَالدُّنیا، خلافةٌ عَنِ النَّبِی“[1]

” پیغمبراکرم(ص)کی جانشینی کے عنوان سے دین و دنیا کے امور میں عام سرپرستی کا نام ”امامت “ھے۔

اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت کی حد تک ایک ظاھری ذمہ داری ھے، لیکن دینی اور اسلامی حکومت کی شکل میں پیغمبراکرم(ص)کی جانشینی کا عنوان(آنحضرت کی جانشینی یقینی حکومتی امور میں) رکھتی ھے، اور یہ بات ظاھر ھے کہ ایسے امام کو لوگوں کی طرف سے منتخب کیا جاسکتا ھے۔

لیکن بعض حضرات نے امامت کی تعریف اس طرح کی ھے: ”امامت یعنی پیغمبراکرم کی طرف سے دینی احکام و قوانین نافذکرنے اور دین کی محافظت کرنے میں جانشین ھونا، اس طرح کہ تمام امت پر اس کی اطاعت واجب ھو“۔[2]

چنانچہ یہ تعریف بھی پھلی تعریف سے الگ نھیں ھے بلکہ مفھوم و معنی کے لحاظ سے تقریباً ایک ھی ھے۔

ابن خلدون نے بھی اپنی تاریخ(ابن خلدون) کے مشھور و معروف مقدمہ میں امامت کی تعریف اسی طرح کی ھے۔[3]

شیخ مفید(رحمة اللہ علیہ) کتاب ”اوائل المقالات“ میں عصمت کی بحث کرتے ھو ئے فرماتے ھیں: ”وہ ائمہ جو دینی احکام کے نافذ کرنے، حدود الٰھی کو قائم کرنے، شریعت کی حفاظت کرنے اور لوگوں کی تربیت کرنے میں پیغمبراکرم(ص)کے جانشین ھیں، ان کو(ھر گناہ اور خطا سے) معصوم ھونا چاہئے، جس طرح انبیاء علیھم السلام معصوم ھوتے ھیں۔[4]

چنانچہ اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت و ریاست سے بالاتر ھے بلکہ انبیاء علیھم السلام کی طرح تمام ذمہ داریاں امام کی بھی ھوتی ھیں سوائے وحی کے، اسی وجہ سے جس طرح نبی کا معصوم ھونا ضروری ھوتا ھے اسی طرح امام کا بھی معصوم ھوناضروری ھے۔

اسی وجہ سے شرح احقاق الحق میں شیعہ نقطہ نظر سے امامت کی تعریف یوں کی گئی ھے:

”ھِیَ مَنصَبٌ إلٰھیّ حَائزٌ لِجَمیعِ الشوٴونِ الکریمةِ وَالفَضَائلِ إلاَّ النَّبوة و مایلازم تلک المرتبة السّامیة“[5]

”امامت ایک الٰھی منصب اور خدا کی طرف سے ایک ذمہ داری کا نام ھے جونبوت اور اس سے متعلق دوسرے امور کے علاوہ تمام بلند امور اور فضائل کو شامل ھے“۔

چنانچہ اس تعریف کے مطابق ”امام“ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبراکرم (ص)کے ذریعہ معین ھوتاھے اور(مقام نبوت کے علاوہ) پیغمبراکرم(ص)کے تمام امتیازات و خصوصیات رکھتا ھے، اور اس کا کام دینی حکومت کی ریاست میں منحصر نھیں ھے، اسی دلیل کی بنا پر امامت اصول دین میں شمار ھوتی ھے نہ کہ فروع دین اور عملی فرائض میں۔

امامت اصول دین میں سے ھے یا فروع دین میں سے؟

مذکورہ بحث سے اس سوال کا جواب واضح ھوجاتا ھے، کیونکہ امامت کے سلسلہ میں نظریات مختلف ھیں، متعصب سنی عالم ”فضل بن روزبھان“”نہج الحق“(جس کا جواب ”احقاق الحق“ ھے) اس طرح کہتاھے: اشاعرہ کے نزدیک امامت اصول دین میں سے نھیں ھے بلکہ فروع دین میں سے ھے اور اس کا تعلق مسلمانوں کے افعال او راعمال سے ھے۔[6]

اس لحاظ سے اھل سنت کے دوسرے فرقوں میں بھی کو ئی فر ق نھیں ھے کیو نکہ ان سب کے یھاں امامت عملی فرائض میں شمارھوتی ھے، اور یہ لوگوں کی ذمہ داری ھوتی ھے کہ امام یا خلیفہ کا انتخاب کرلیں، صرف مکتب اھل بیت علیھم السلام کے ماننے والے اور اھل سنت کے بہت کم افراد جیسے قاضی بیضاوی، اور ان کا اتباع کرنے والے، امامت کو اصول میں شمار کرتے ھیں۔[7]

ان کی دلیل بھی واضح اور روشن ھے، کیونکہ ان کے نزدیک امامت ایک الٰھی منصب ھے، یعنی امام خدا کی طرف سے منصوب ھوتا ھے، جس کی ایک شرط معصوم ھونا ھے اور خدا کے علاوہ کوئی اس(کے معصوم ھونے) کو نھیں جانتا، اور ائمہ علیھم السلام پر ایمان رکھنا اسی طرح ضروری ھے جس طرح پیغمبراکرم(ص)پر ایمان رکھنا ضروری ھے کیونکہ امامت، نبوت کی طرح شریعت کا اصلی ستون ھے، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ شیعہ، امامت کے سلسلہ میں اپنے مخالفوں کو کافر شمار کرتے ھوں، بلکہ شیعہ تمام اسلامی فرقوں کو مسلمان شمار کرتے ھیں، اورانھیںاسلامی برادر سمجھتے ھیں، اگرچہ امامت کے سلسلے میں ان کے ھم عقیدہ نھیں ھیں، اسی وجہ سے کبھی پنجگانہ اصول دین کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ھیں: پھلے تین اصول یعنی خدا، پیغمبر اسلام(ص)اور قیامت کو اصول دین شمار کرتے ھیں اور ائمہ علیھم السلام کی امامت اور عدل الٰھی کو اصول مذھب شمار کرتے ھیں۔

ھم اپنی اس گفتگو کو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیھما السلام کی حدیث پر ختم کرتے ھیں جو امامت کے مسئلہ میں ھمارے لئے الھام بخش ھے، ”امامت یعنی زمام دین، نظام مسلمین، دنیا کی صلاح اور مومنین کی عزت ھے، امامت، اسلام کی بنیاد اور بلند شاخیں ھیں، امام کے ذریعہ نماز روزہ، حج، زکوٰة اور جھاد کامل ھوتے ھیں، بیت المال میں اضافہ ھوتا ھے اور ضرورتمندوں کے لئے خرچ کیا جاتا ھے، احکام اور حدود الٰھی نافذ ھوتے ھیں امام ھی کے ذریعہ اسلامی ملک کے سرحدی علاقوں کی حفاظت ھوتی ھے۔

امام، حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام شمار کرتا ھے(اور ان کو نا فذکرتا ھے) حدود الٰھی کو قائم کرتا ھے، دین خدا کا دفاع کرتا ھے، اور اپنے علم و دانش اوروعظ و نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو راہ خدا کی دعوت دیتا ھے۔ [8]([9])



[1] شرح تجرید قوشنچی ، صفحہ ۴۷۲۔

[2] شرح قدیم تجرید، شمسالدین اصفھانی اشعری( توضیحالمراد تعلیق بر شرح تجرید عقائد، تالیف سید ھاشم حسینی تھرانی صفحہ ۲۷۲ کی نقل کے مطابق)

[3] مقدمہ ابن خلدون، صفحہ ۱۹۱۔

[4] اوائلالمقالات ، صفحہ ۷۴، طبع مکتبةالداوری۔

[5] احقاقالحق ،، جلد ۲، صفحہ ۳۰۰، (حاشیہ نمبر ایک)

[6] احقاقالحق ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۴۔ دلائلالصدق ،جلد ۲، صفحہ ۴۔

[7] دلائلالصدق ،جلد ۲، صفحہ ۸۔

[8] اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۲۰۰۔

[9] تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:21
جعفر علی نقوی

امامت پر ایک مدلل بحث

امام کے وجود کا فلسفہ

 

بعثت انبیاء کی ضرورت کے موضوع پر جو بحث ہم نے کی اس سے کافی حد تک ہمارے لئے پیغمبر کے بعد امام کی ضرورت کا مسئلہ واضح ھو جاتا ھے ،کیونکہ نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور امام(ع) اکثر موضوعات میں مشترک ہیں ،لیکن یہاں پر ضروری ھے کہ کچھ دوسرے موضوعات پر بھی روشنی ڈال جائے :

الہٰی رہبروں کے وجود کے ساتھ معنوی تکامل

سب سے پہلے ہمیں انسان کی خلقت کے مقصد پر بحث کرنی چاہئے کیونکہ یہ گلدستہ کائنات کا سب سے اچھا پھول ھے۔

انسان خدا کی طرف ،تمام جہات میں کمال مطلق اور معنوی تکامل کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایک طولانی اور نشیب وفراز سے پر راستہ طے کرتا ھے۔

بیشک انسان اس راستہ کو ایک معصوم پیشوا کی رہبری کے بغیر طے نہیں کر سکتا ھے اور اس کے لئے ایک الہٰی معلم کی رہبری کے بغیر یہ منزل طے کرنا ممکن نہیں ھے کیونکہ ”اس راہ میں تاریکیاں اور گمراہی کے خطرات موجود ہیں“۔

یہ صحیح ھے کہ خدا وند متعال نے انسان کو عقل وشعور کی قوت سے نوازا ھے اور اسے محکم اور قوی ضمیر عطا کیا ھے ،اس کے لئے آسمانی کتابیں بھیجی ہیں۔لیکن ممکن ھے یہ انسان ان تمام تکوینی اور تشریعی وسائل کے باوجود اپنے لئے صحیح راہ کی شناخت کر نے میں غلطی کا شکار ھو جائے ۔بیشک ایک معصوم پیشوا انحراف اور گمراہی کے خطرات کو دور کر دیتا ھے ۔لہذا ”امام کا وجود انسان کی تخلیق کے مقصد کو مکمل کر نے والا ھے۔“

یہ وہی چیز ھے جسے عقائد کی کتابوں میں”قاعدہ لطف“سے تعبیر کیا گیا ھے۔ اور ”قاعدہ لطف“سے مراد یہ ھے کہ خدا وند متعال ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیتا ھے جو اس کو تخلیق کے مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ھوتی ہیں ۔انبیاء کی بعثت اور امام معصوم کا وجود بھی ان ہی میں سے ھے ورنہ انسان کے مقصد خلقت کی مخالفت لازم آئے گی۔(غور فر مائیں)۔

آسمانی ادیان کی حفاظت

ہم بخوبی جانتے ہیں کہ جب الہٰی ادیان انبیاء کے قلوب پر نازل ھو تے ہیں تو وہ بارش کے پانی کی بوندوں کے مانند صاف وشفاف حیات بخش اور روح پرور ھوتے ہیں۔ لیکن جب وہ آلودہ ماحول اور کمزور یا ناپاک ذہنوں میں وارد ھوتے ہیں تو رفتہ رفتہ آلودہ ھو جاتے ہیں اور خرافات وتو ہمات ان میں اس قدر مخلوط ھو جاتے ہیں کہ ان کی بنیادی پاکیزگی اور لطافت ختم ھو جاتی ھے ۔اس حالت میں نہ ان میں جذّابیت باقی رہتی ھے اور نہ تربیت کا خاص اثر ،نہ ہی یہ ادیان پیاسوں کو سیراب کر سکتے ہیں اور نہ ان میں فضائل وکمالات کی کلیاں اور پھول کھلا سکتے ہیں۔

اس لئے ضروری ھے کہ دین ومذہب کی اصلی شکل کی حفاظت اور دینی اصول وضوابط کے خالص رہنے کے لئے ایک معصوم پیشوا موجود ھو تا کہ وہ انحرا فات ،غلط افکار،غلط اور اجنبی نظریات،توہمات وخرافات سے دین کو بچاسکے ۔اگر دین ومذہب ایسے رہبر سے محروم ھوگا تو وہ دین مختصر مدت کے اندر ہی اپنی حقیقی شکل اور پاکیزگی کو کھودے گا۔

اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فر ماتے ہیں:

”اللّٰھم بلی ،لا تخلوا لارض من قائم للّٰہ بحجة،اماظاھراًمشھورا،اوخائفاًمغمورا لئلا تبطل حجج اللّٰہ وبینا تہ۔“[1]

”جی ہاں ،زمین ہر گز قیام کر نے والے حجت خدا سے خالی نہیں ھو سکتی ھے،خواہ(وہ حجت خدا)ظاہر وآشکار ھو یامخفی وپوشیدہ،تاکہ خدا کی واضح دلیلیں اور نشانیاں باطل نہ ھونے پائیں۔“

حقیقت میں قلب امام(ع) اس محفوظ صندوق کے مانند ھے جس میں ہمیشہ گراں قیمت اسنادرکھے جاتے ہیں تاکہ چوروں کی لوٹ مار اور دوسرے حوادث سے محفوظ رہیں یہ بھی وجود امام کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ ھے۔

امت کی سیاسی واجتماعی رہبری

اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ کوئی بھی معاشرہ یاگروہ ایک ایسے اجتماعی نظام کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا ھے جس کی سر پرستی ایک توانا رہبر کرتا ھو۔اسی لئے زمانہ قدیم سے آج تک تمام اقوام و ملل نے اپنے لئے ایک رہبر کو منتخب کیا ھے۔ کبھی یہ رہبر صالح ھو تا تھا لیکن بہت سے مواقع پر ناصالح ھو تا تھا ۔اکثر مواقع پر امتوں کی ایک رہبر کی ضرورت اور احتیاج سے ناجائز فائدہ اٹھا تے ھو ئے ظالم بادشاہ اور سلاطین زورو زبر دستی سے لوگوں پر مسلط ھو کر اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھے۔۔۔یہ ایک طرف۔

دوسری طرف انسان کو اپنے معنوی کمال کے مقصد تک پہنچنے کے لئے اس راستہ کو اکیلے ہی نہیں بلکہ جماعت اور معاشرہ کے ہمراہ طے کر ناچاہئے ۔کیونکہ فکری ،جسمانی، مادی اور معنوی لحاظ سے انفرادی طاقت کمزور ھو تی ھے اور اس کے مقابلہ میں اجتماعی طاقت بہت قوی ھوتی ھے ۔

لیکن ایک معاشرے کے لئے ضروری ھے کہ اس میں ایک ایسا صحیح نظام حکم فر ماھو،جو انسانی صلاحیتوں میں نکھار لائے ،انحرا فات اور گمراہیوں سے مقابلہ کرے،معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کا تحفظ کرے،بلند مقاصد تک پہنچنے کے لئے پرو گراموں کو منصوبہ بند طریقے پر منظم کرے اور ایک آزاد ماحول میں پورے معاشرے کو حرکت میں لانے کے عوامل یکجا کرے۔

چونکہ ایک خطا کارانسان میں ایسی عظیم ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں ھے ،جیسا کہ ہم ہمیشہ صحیح راستہ سے سیاسی حکمرانوں کے انحراف اور گمراہی کا مشاہدہ کرتے رھے ہیں ،اس لئے ضروری ھے کہ خداوند متعال کی طرف سے ایک معصوم رہبران امور کی نگرانی ونظارت کرے اور لوگوں کی توانائیوں اور دانشوروں کے افکار سے استفادہ کرتے ھوئے انحرافات کی بھی روک تھام کرے۔

یہ امام کے وجود کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ اور”قاعدہ لطف“کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ھے۔ہم مکرر عرض کر رھے ہیں کہ استثنائی زمانہ میں بھی ،جب امام معصوم کچھ وجوہات کی وجہ سے غائب ھوں تو لوگوں کی ذمہ داریاں واضح ہیں ۔ان شاء  اللہ تعالیٰ ہم”حکومت اسلامی“کی بحث میں اس پر مفصل روشنی ڈالیں گے۔

اتمام حجّت کی ضرورت    

امام(ع) کے وجود کی نورانی کرنوں سے صرف آمادہ دلوں کی رہنمائی ہی مقصد نہیں ھے تاکہ وہ کمال مطلق کے راستے پر گامزن رہیں بلکہ امام کا وجودان لوگوں کے لئے بھی حجت کے طور پر ضروری ھے،جو جان بوجھ کر گمراہی کی طرف جاتے ہیں ،تاکہ ان کے ساتھ وعدہ کی گئی سزابے دلیل نہ ھو اور کوئی شخص ایسا اعتراض نہ کر سکے ،کہ اگر کسی الہٰی رہبر نے ہماری رہنمائی کرتے ھوئے ہمیں حق کی طرف دعوت دی ھو تی تو ہم ہر گزگمراہ نہ ھو تے۔

مختصر یہ کہ امام کے وجود کا مقصد یہ ھے کہ عذر اور بہانہ کے تمام راستے بند کر دیئے جا ئیں ،حق کی دلیلیںکافی حد تک بیان کی جائیں ،نا آگاہ لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے اور آگاہ افراد کو اطمینان دلاکر ان کے ارادہ کو تقویت بخشی جائے۔

امام،فیض الہٰی کا عظیم وسیلہ ھے

بہت سے علماء ،اسلامی احادیث کی روشنی میں،انسانی معاشرہ یا تمام کائنات میں پیغمبر اور امام کے وجود کو انسان کے بدن میں ”قلب“کے وجود سے تشبیہ دیتے ہیں۔

ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دل کی دھڑکن کے نتیجہ میں خون تمام رگوں میں پہنچ جاتا ھے اور اس طرح بدن کی تمام خلیوں کو غذا پہنچتی ھے۔

چونکہ امام معصوم ایک انسان کامل اور کاروان انسانیت کے راہنما کی حیثیت سے فیض الہٰی کے نازل ھو نے کا وسیلہ ھے اور ہر شخص پیغمبر وامام سے اپنے ارتباط کے مطابق اس فیض الہٰی سے بہرہ مند ھو تا ھے ۔لہذا یہ کہنا چاہئے کہ جس طرح انسان کے لئے ”دل“کا وجود ضروری ھے اسی طرح عالم انسانیت کے لئے فیض الہٰی کے اس وسیلہ (امام(ع)) کا ھونابھی ضروری ھے۔(غور فر مائیے)

مغالطہ نہ ھو ،پیغمبر اور امام کے پاس اپنی کوئی ایسی چیز نہیں ھو تی ھے جسے وہ دوسروں کو عطا کریں ،بلکہ ان کے پاس جو کچھ ھو تا ھے وہ خدا کا دیا ھوا ھو تا ھے ،لیکن جس طرح ”دل“بدن کے لئے فیض الہٰی کا وسیلہ ھو تا ھے ،اسی طرح پیغمبر اور امام بھی تمام انسانوں کے لئے فیض الہٰی کے سبب اور وسیلہ ھو تے ہیں۔

 

امام کے خاص شرائط وصفات

 

اس بحث میں سب سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ کر نا ضروری ھے:قرآن مجید سے بخوبی معلوم ھو تا ھے کہ”امامت کا مرتبہ“ایک ایسا بلند مرتبہ ھے کہ ممکن ھے ایک انسان اس مرتبہ تک پہنچ سکے ۔یہاں تک کہ یہ مرتبہ ”نبوت“ اور ”رسالت“کے مرتبہ سے بھی بلند تر ھے۔ کیونکہ بت شکن پیغمبر حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۴میں ارشاد ھوا ھے:

<وإذ ابتلیٰ إبراھیم ربّہ بکلمٰتٍ فاٴتمّھنّ قال إنّی جاعلک للنّاس اماماً قال ومن ذرّیّتی قال لا ینال عھدی الظلمین>

”اور اس وقت کو یاد کرو جب خد انے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم(ع) کا امتحان لیا اور انھوں نے اسے پورا کر دیا تو اس (خدا) نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنارھے ہیں ۔انھوں نے عرض کی:میری ذریت؟ارشاد ھو یہ عہدئہ امامت ظالمیں تک نہیں جا ئے گا۔“

اس طرح حضرت ابراھیم(ع)،نبوت اور رسالت کا مرحلہ طے کر نے اور خدا کی طرف سے لئے گئے مختلف امتحانات میں کامیابی حاصل کر نے کے بعد لوگوں کی ظاہری وباطنی اور مادی ومعنوی پیشوائی کے بلند مرتبہ(امامت)پر فائز ھوئے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی نبوت ورسالت کے مرتبہ کے علاوہ لوگوں کی امامت ورہبری کے مرتبہ پر فائز تھے ،بعض انبیاء علیہ السلام بھی اس مرتبہ پر فائز تھے ،یہ ایک طرف۔

دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ کسی عہدہ کو سنبھالنے والے میں فرائض اور ذمہ داریوں کے مطابق شرائط اور صفات کا ھو نا ضروری ھے یعنی جس قدر مرتبہ بلند تر اور ذمہ داریان سنگین تر ھوں گی اسی تناسب سے ضروری شرائط اور صفات سنگین تر ھوں گی ۔

مثلاًاسلام میں قاضی اور جج کے عہدہ پر فائز ھونے،حتی گواہی دینے اور امام جماعت بننے کے لئے بھی عادل ھو نا ضروری ھے ۔جس مذہب میں ایک گواہی دینے یا نماز جماعت میں حمد وسورہ پڑھنے کی ذمہ داری نبھانے والے کے لئے عادل ھو نا ضروری ھو،ظاہر ھے اس میں امامت کے جیسے غیر معمول اور بلند مرتبہ پر فائز ھو نے کے لئے کن شرائط کا ھو نا ضروری ھو گا ۔

بہر حال امام کے لئے درج ذیل شرائط کا ھو نا ضروری ھے:

۱۔معصوم ھو نا:امام کو پیغمبر کے مانند معصوم ھو نا چاہئے یعنی اسے خطا اور گناھوں سے پاک ھو نا چاہئے ۔اگر ایسا نہ ھو گا تو وہ لوگوں کے لئے رہبر اور نمونہ نہیں بن سکتا ھے اور معاشرے کے لئے قابل اعتماد نہیں بن سکتا ھے۔

امام میں ایسی خصوصیات ھونی چاہئیںکہ لوگوں کے دل و جان پر حکمرانی کر سکے اور اس کا حکم کسی چون وچرا کے بغیر لوگوں کے لئے قابل قبول ھو نا چاہئے ۔جو شخص گناھوں میں آلودہ ھو گا وہ کبھی ہر لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ھو سکتا اور ایسی مقبو لیت پیدا نہیں کر سکتا ۔

جو شخص اپنے روز مرہ کاموں میں غلطیوں اور خطاؤں کا مرتکب ھو تا ھو ،اس کے لئے کیسے ممکن ھے کہ معاشرے کے امور میں اس کے افکار و نظریات پر اعتماد کرتے ھو ئے کسی چون وچرا کے بغیر عمل کیا جائے؟

اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ پیغمبرکو معصوم ھو نا چاہئے ،امام میں بھی اس شرط کا ھو نا مندرجہ بالا دلیل کے مطابق ضروری ھے ۔

اس بات کو ایک اور طریقہ سے بھی ثابت کیا جاسکتا ھے،وہ طریقہ”قاعدہ لطف“ھے ۔کہ پیغمبر و امام کے وجود کی اصل کا انحصار اسی قاعدہ پر ھے اور یہ قاعدہ عصمت کی صفت کو بھی ضروری قرار دیتا ھے ،کیو نکہ پیغمبر و امام کے وجود مقدس کے مقاصد کی تکمیل مرتبہ عصمت کے بغیر ممکن نہیں ھے۔اس کے علاوہ گزشتہ سبق میں جو وجود امام(ع) کے فلسفے ہم نے بیان کئے ہیں وہ بھی اس (صفت عصمت)کے بغیر نامکمل رہیں گے۔

۲۔بھر پور علم:امام،پیغمبر کے مانند لوگوں کے لئے علمی مامن اور پناہ گاہ ھو تا ھے ۔وہ تمام اصول دین،فروع دین،قرآن مجید کے ظاہر و باطن ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی سنت اور جو کچھ اسلام سے مربوط ھے ان سب کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ و عالم ھو نا چاہئے کیونکہ وہ شریعت اسلام کا محافظ بھی ھو تا ھے اور لوگوں کا رہبر و قاعد بھی ھو تا ھے۔

جو اشخاص ،پیچیدہ اور مشکل مسائل پیش آنے کی صورت میں پریشان ھو کر دوسروں کی طرف دست ِسوال دراز کرتے ہیں اور ان کا علم ودانش اسلامی معاشرے کو پیش آنے والے مسائل کو حل کر نے سے قاصر ھو تا ھے وہ ہر گز امات کا منصب اور لوگوں کی رہبری وقیادت کی باگ ڈور نہیں سنبھال سکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ امام کو دین الہٰی کا سب سے عظیم عالم ھو ناچاہئے تاکہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی وجہ سے پیدا ھو نے والے خلاء کو فوراًپر کر سکے اور صحیح اور ہر قسم کے انحرافات سے پاک اسلام کی راہ کو ثبات و دوام بخش سکے۔

۳۔شجاعت:امام کے لئے ضروری ھے کہ وہ اسلامی معاشرے میں شجاع ترین انسان ھو،کیونکہ شجاعت کے بغیر ،رہبری وقیادت ممکن نہیں ھے ۔یہ شجاعت سخت اور ناگوا حوادث جابروں،سرکشوں ظالموں،اور اسلامی مملکت کے داخلی وخارجی دشمنوںسے مقابلہ کے لئے ضروری ھے۔

۴۔زہد وتقویٰ:ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کی ظاہری شان وشوکت اور زرق وبرق میں گرفتار ھوئے لوگ جلد دھوکہ کھاتے ہیں اور ان کے لئے حق کی راہ سے منحرف ھو نے کا احتمال زیادہ ھو تا ھے ۔ان دنیا پرستوں کو کبھی لالچ کے ذریعہ اور کبھی دھمکیوں سے اپنے اصلی راستہ سے منحرف کیا جاتا ھے۔

امام کو اس دنیا کی ظاہری نعمتوں کے مقابلہ میں ”اسیر“ھو نے کے بجائے ”امیر“(بے نیاز)ھو نا چاہئے۔

امام کو اس مادی دنیا کی ہر قید وبند ،یعنی، نفسانی خواہشات ،مقام و منزلت ،مال و دولت اور جاہ و حشم کی قیود سے آزاد و بے نیاز ھو نا چاہئے تاکہ فریب،اثرورسوخ اور سازش کے دام میں پھنسا کر اسے شکست نہ دی جا سکے ۔

۵۔پر کشش اخلاق: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بارے میں قرآن مجید میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۵۹ میں ارشاد ھوا ھے:

<فبما رحمة من اللّٰہ لنت لھم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لا نفضّوا من حولک>   ( سورہ آل عمران/۱۵۹)

”پیغمبر!یہ اللہ کی مہر بانی ھے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ھو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے

 ھو تے“

پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور امام ہی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر رہبر و پیشوا کے لئے ضروری ھے کہ وہ بھی پر کشش اور نیک اخلاق کا مالک ھو تا کہ وہ مقناطیس کے مانند لوگوں کو اپنی طرف کھینچ سکے۔

بیشک ہر قسم کی تند روی اور بد اخلاقی،جو لو گوں میں نفرت پیدا ھو نے کا سبب ھوتی ھے ،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورامام کے لئے بہت بڑا عیب شمار ھوتی ھے وہ ایسے عیوب سے پاک و منزّہ ھو تے ہیں ،ورنہ(امام(ع))کے بہت سے وجودی فلسفے بے کار ھو کر رہ جائیں گے۔

یہ اہم ترین شرائط ہیں،جو عظیم علماء نے امام کے لئے بیان کئے ہیں۔

البتہ مذکورہ پانچ صفات کے علاوہ بھی امام کے لئے کچھ مزید صفات اور شرائط کا ھو نا ضروری ھے ،لیکن ان میں سے اہم ترین صفات یہی ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ھے۔

 

امام کا تعیّن کس کے ذمہ ھے؟

مسلمانوں کے ایک گروہ (اہل سنّت)کا یہ عقیدہ ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایسی حالت میں رحلت فر مائی کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے بعد کسی کو جانشین کے طور پر مقرر و معیّن نہیں فر مایا تھا ۔ان لوگوں کا عقیدہ یہ ھے کہ یہ ذمہ داری خود مسلمانوں کی ھے کہ اپنے لئے رہبر اور پیشوا کو منتخب کریں اور اس کام کو ”اجماع مسلمین“ کے طریقہ سے انجام دیںجو دلائل شرعی میں سے ایک دلیل ھے۔

ان کا کہنا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ کام انجام پایا اور سب سے پہلے خلیفہ اول امت کے اجماع کے ذریعہ خلافت کے عہدے پر منتخب کئے گئے ۔جبکہ پہلے خلیفہ نے (اجماع امت کے بجائے) خود ذاتی طور پر (وصیت کے ذریعہ) دوسرے خلیفہ کو مقرر کیا۔

اس کے بعد دوسرے خلیفہ نے چھ افراد پر مشتمل ایک شوریٰ تشکیل دی تاکہ یہی لوگ ان کے بعد ان کے جانشین کو منتخب کریں۔

اس شوریٰ کے اراکین :حضرت علی(ع)،عثمان،عبدالرحمان بن عوف،طلحہ،زبیر اور سعد بن ادبی وقاص تھے۔

اس شوریٰ نے تین اراکین کی اکثریت سے،یعنی سعدبن ابی وقاص ،عبدالرحمان بن عوف اور طلحہ کی رائے سے عثمان کو منتخب کیا۔ دوسرے خلیفہ نے صراحت کی تھی کہ شوریٰ کے اراکین کی رائے تین تین افراد پر برابر تقسیم ھو جانے کی صورت میں جس طرف عبدالرحمان بن عوف (عثمان کے بہنوئی )کی رائے ھو وہی خلیفہ منتخب کیا جائے!

عثمان کی خلافت کے آخری دنوں میں لوگوں نے مختلف دلائل کی بنا ء پر ان کے خلاف بغاوت کی اور اس سے پہلے کہ وہ ذاتی طور پر یا شوریٰ کے ذریعہ اپناجانشین مقرر کرتے،انھیں قتل کر ڈالا۔

اس وقت عام مسلمانوں نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف رخ کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین کی حیثیت سے آپ(ع) کی بیعت کی ۔صرف شام کے گورنر معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کیا ،کیونکہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ حضرت علی(ع) اسے موجودہ عہدے پر باقی نہیں رکھیں گے ۔

معاویہ نے نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی بیعت ہی نہیں کی بلکہ آپ(ع) کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کر دیا اور اس طرح تاریخ اسلام میں ناگوار،مرگ آور اور منحوث حوادث کا دور شروع ھوا جس کے نتیجہ میں بے گناہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا خون بہہ گیا۔

یہاں پر علمی اور تاریخی بحثوں کے واضح ھو نے کے لحاظ سے بہت سے سوالات ابھرتے ہیں ہم ان میں سے چند سوالات پر بحث کر رھے ہیں:

۱۔کیا امت کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین منتخب کر نے کا حق ھے؟

اس سوال کا جواب مشکل اور پیچیدہ نہیں ھے ۔اگر ہم امامت کو اسلامی معاشرہ کی ظاہری حکمرانی جان لیں تو ایسے حاکم کو لوگوں کی رائے سے منتخب کر نا رائج ھے۔

لیکن اگر ہم امامت کو اس معنی میں لیں ،جس کی وضاحت ہم پہلے قرآن مجید کی روشنی میں کرچکے ہیں ،تو کسی شک و شبہہ کے بغیر،خداوند متعال یا وحی الہٰی سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے علاوہ کوئی بھی شخص امام اور خلیفہ کو معین نہیں کرسکتا ھے۔

کیونکہ اس تفسیر کے مطابق امامت کی شرط اسلام کے تمام اصول وفروع میں بھر پور علم رکھنا ھے ایسا علم جس کا سر چشمہ علم الہٰی اور علم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھوتاکہ وہ شریعت اسلام کی حفاظت کرسکے۔

دوسری شرط یہ ھے کہ امام معصوم ھو ناچاہئے ،یعنی اسے خداکی طرف سے ہر خطاو گناہ سے پاک ومنزّہ ھو نے کی ضمانت حاصل ھو تا کہ معاشرے کی معنوی و مادی، ظاہری و باطنی رہبری و قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے۔

اس کے علاوہ امام یا خلیفہ کو اس منصب کے لئے ضروری زہد وتقویٰ ،پرہیز گاری اور شجاعت کا حامل بھی ھو ناچاہئے ۔

یہ بات یقینی ھے کہ ان شرائط کی تشخیص خدا اور پیغمبر کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ ممکن نہیں ھے ۔وہی(خداہی) یہ جانتا ھے کہ کس شخص کی روح عصمت کے نور سے منور ھے اور وہی جانتا ھے کہ منصب امامت کے لئے ضروری علم ،تقویٰ ،پرہیز گاری ،شجاعت و شہامت کس شخص میں موجود ھے۔

جن لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ اور امام کا تعیّن لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا ھے،انھوں نے حقیقت میں امامت کے قرآنی مفھوم میں تبدیلی ایجاد کر کے امامت کو عام حکمرانی اور دنیوی امور میں لوگوں کی رہبری تک محدود کر کے رکھ دیا ھے ورنہ جامع اور کامل معنی میں امامت کے شرائط پرور دگار عالم کے ذریعہ ہی قابل تشخیص ہیں اور وہی ان صفات کے بارے میں مکمل علم و آگاہی رکھتا ھے۔

امام کا انتخاب بھی بالکل اسی طرح کیا جاتا ھے جس طرح پیغمبر کا انتخاب کیا جاتا ھے ۔پیغمبر کا انتخاب لوگوں کی رائے سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ ضروری ھے کہ پیغمبر کا انتخاب خداوند متعال کی طرف سے ھو اور معجزات کے ذریعہ اس کی پہچان کر وائی جائے اس لئے کہ پیغمبر میں پائی جانے والی ضروری صفات کی تشخیص بھی صرف خدا وند متعال ہی کر سکتا ھے۔

۲۔کیا پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا جانشین مقرر نہیں فر مایا ھے؟

بیشک دین اسلام ایک ”عالمی‘اور ”لافانی“دین ھے اور قرآن مجید کی واضح آیات کے مطابق یہ دین کسی خاص زمان و مکان سے مخصوص نہیں ھے ۔

یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی رحلت کے زمانہ تک یہ الہٰی اور آسمانی دین جزیرئہ عرب سے باہر نہیں پھیلا تھا۔

دوسری طرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی زندہ گی کے تیرہ سال مکہ میں شرک وبت پرستی سے مبارزہ اور مقابلہ کر نے میں گزرگئے اور ہجرت کے بعد، جو اسلام کے پھلنے اور پھولنے کا درد تھا ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زندہ گی کے باقی دس سال بیشتر دشمنوں کی طرف سے تھوپی گئی جنگوں اور غزوات میں صرف ھو گئے۔

اگر چہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے مسائل کی تبلیغ اور تعلیم کے  لئے دن رات انتھک کو شش کی اور اور نو عمر اسلام کا تمام جہات میں تعارف فر مایا،پھر بھی یقینا اسلام کے بہت سے ایسے مسائل باقی تھے جن کی تفسیر وتشریح کے لئے مزید وقت در کار تھا، اس لئے ضروری تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہی جیسا کوئی شخص آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد اس سنگین ذمہ داری کو سنبھالے ۔

ان تمام باتوں کے علاوہ مستقبل کے حالات کی پیشنگوئی کے پیش نظر مذہب کو دوام بخشنے کے مقد مات کو فراہم کر نا ان اہم امور میں سے ھے کہ ہر رہبر اور قائد کو اس کی فکر ھو تی ھے اور ہر گز اس بات کے لئے آمادہ نہیں ھو تا ھے کہ اس بنیادی مسئلہ کو فرا موش کر دے۔

اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے بعض اوقات انسانی زندگی کے معمولی اور سادہ مسائل کے بارے میں بھی احکام بیان فر مائے ہیں ،کیا یہ ممکن ھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مسلمانوں کی خلافت،زعامت اور امامت جیسے اہم مسئلہ کے بارے میں کو ئی دستور معیّن نہیں فر مایا ھو گا؟!

مذکورہ تین نکات کا مجموعہ اس بات پر واضح دلیل ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جانشین مقرر کر نے کا قطعاً اقدام فر مایا ھے ۔انشااللہ ہم بعد میں اس سلسلہ میں قطعی اور مسلّم الثبوت روایتوں کے چند نمو نے بھی پیش کریں گے تاکہ یہ منطقی حقیقت اور بھی زیادہ واضح ھو جائے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہر گز اپنی زندگی کے دوران اس اہم اور حیاتی مسئلہ سے غافل نہیں رھے ہیں ،اگر چہ خاص سیاسی وجو ہات کی بنا ء پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں فر مایاھے۔

کیا یہ بات قابل یقین ھے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوات (جیسے غزوہ تبوک) کے دوران صرف چند دنوں کے لئے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو ضرور اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر فر ماتے تھے اور اپنی جگہ خالی نہیں رکھتے تھے،لیکن اپنی رحلت کے بعد کی کوئی پروا کئے بغیر کسی قسم کا اقدام نہ فر مائیں ،اور امت کو اختلا فات اور سر گردانی کے طوفان میں اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ہر ایک رہبر کے ذریعہ اسلام کے دوام کی ضمانت فراہم نہ فر ما ئیں؟!

اگرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا جانشین مقرر نہ فر ماتے تو یقینا نو عمر اسلام کے لئے بڑے خطرات لا حق ھو تے ۔عقل اور منطق اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی  ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   ایسا کام انجام دیں جس سے اسلام کو خطرات لاحق ھوں۔جن لوگوں کا یہ دعویٰ ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کام امت کے ذمہ چھوڑ دیا ھے ،وہ اپنے اس نظریہ کی تائید میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف سے کم از کم ایک دلیل تو پیش کریں،جس سے ثابت ھو جائے کہ پیغمبر اسلام نے اس نظریہ کی تاکید فر مائی ھے !،جبکہ ان کے پاس اس سلسلہ میں کوئی بھی دلیل موجود نہیں ھے۔

۳۔ اجماع اور شوریٰ

فرض کریں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے (اپنا جانشین مقرر کر نے کے )اس نہایت اہم مسئلہ کو نظر انداز کیا ھو اور خود مسلمانوں پر اس (خلیفہ) کے انتخاب کر نے کی ذمہ داری ھو لیکن ہم جانتے ہیں کہ ”اجماع“سے مراد تمام مسلمانوں کا اتفاق ھے اور پہلے خلیفہ کی خلافت کے بارے میں ہر گز ایسا اتفاق یا اجماع حاصل نہیں ھوا ھے ۔صرف مدینہ میں موجود اصحاب میں سے چند صحابیوں نے اس بات کا فیصلہ کیا، جبکہ تمام اسلامی شہروں کے لوگوں نے اس فیصلہ میں بالکل شرکت نہیں کی ،بلکہ خود مدینہ میں موجود حضرت علی(ع) اور بنی ہاشم کے بہت بڑے گروہ نے اس انتخاب میں کسی قسم کی شرکت نہیں کی ،اس لئے یہ اجماع قطعاً قابل قبول نہیں ھے۔

پھراگر یہ طریقہ صحیح تھا ،تو پہلے خلیفہ نے اپنا جانشین مقرر کر نے کے سلسلہ میں کیوں اس پر عمل نہیں کیا ؟انھوں نے کیوں ذاتی طور پر اپنا جانشین نامزد کیا ؟اگر ایک شخص کی طرف سے جانشین کو مقرر کر نا کافی ھوتا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس کام کے لئے سب سے افضل و اولیٰ تھے۔اگر لوگوں کی طرف سے بعد میں کی جانے والی بیعت اس مشکل کو حل کر سکتی ھے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہی بیعت بہر صورت میں مسئلہ کو حل کرسکتی ھے ۔

اس کے علاوہ تیسری مشکل ”خلیفہ سوم“کے بارے میں پیش آتی ھے ،کہ دوسرے خلیفہ نے کیوں پہلے خلیفہ کے منتخب ھو نے کے طریقہ کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور جس طریقہ سے خود بر سر اقتدار آئے تھے ،اس کو بھی توڑ دیا یعنی نہ”اجماع“ پر عمل کیا اور نہ ذاتی طور پر کسی کو نامزد کیا بلکہ اس کام کے لئے ایک تیسرا طریقہ ایجاد کر کے ایک محدود شوریٰ کو اس کام کی ماموریت دے دی۔

اصولی طور پر اگر شوریٰ صحیح ھے تو یہ شوریٰ کیوں صرف چھ افراد تک محدود ھو؟اور چھ ارکان میں سے صرف تین ہی کی رائے کافی ھو؟

یہ وہ سوالات ہیں جو تاریخ اسلام کے ہر محقق کو پیش آتے ہیں اور ان سوالات کا جواب نہ ملنا اس بات کی واضح دلیل ھے کہ امام اور خلیفہ کے انتخاب کے مذکورہ طریقے صحیح نہیں ہیں ۔

۴۔علی علیہ السلام سب سے لائق وافضل تھے۔

اگر ہم فرض کریں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی شخص کو اپنا جانشین مقرر نہیں فر مایا تھا،اور یہ بھی فرض کرلیں کہ یہ کام لوگوں پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔لیکن کیا یہ صحیح ھے کہ خلیفہ اور امام کو منتخب کر نے کے وقت ایک ایسے شخص کو نظر انداز کر دیا جائے جو علم ،تقویٰ،پرہیز گاری شجاعت اور دوسرے امتیازات و خصوصیات کے لحاظ سے سب سے افضل ھو اور اس کے بجائے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو اس سے نہایت کمتر ھو؟!

علماء اسلام کی ایک بڑی تعداد ،حتی کہ اہل سنت علماء نے واضح طور پر لکھا ھے کہ اسلامی مسائل سے آگاہی اور علم رکھنے کے حوالے سے حضرت علی(ع) سب سے افضل تھے۔ خود حضرت (ع) سے باقی ماندہ روایات اور آثار اس حقیقت کے روشن ثبوت ہیں۔تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ھے کہ حضرت علی (ع) تمام علمی مشکلات کو حل کر نے میں امت کے پناہ گاہ تھے،یہاں تک کہ اگر کبھی خلفاء کو بھی کوئی پیچیدہ یا مشکل مسئلہ پیش آتا تھا، وہ حضرت(ع) کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ(ع) سے مدد طلب کرتے تھے۔

حضرت علی (ع)شجاعت ،علم ،تقویٰ،پرہیز گاری اور دوسری صفات کے لحاظ سے سب سے افضل تھے اس لئے اس فرض کی بناء پر کہ لوگوں کو امام وخلیفہ چننے کا حق تھا ،پھر بھی علی(ع) اس منصب کے لئے سب سے زیادہ لائق اور شائستہ تھے۔(البتہ اس بحث سے متعلق کافی اسناد موجود ہیں ،جن کا ذکر اختصار کے پیش نظر یہاں پر ممکن نہیں ھے )۔

 

قرآن اور امامت

عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید ،دوسری تمام چیزوں کے مانند امامت کے مسئلہ میں بھی ہمارے لئے بہترین راہنما ھے۔قرآن مجید نے مسئلہ امامت پر مختلف جہات سے بحث کی ھے۔

۱۔قرآن مجید”امامت“کو خدا کی جانب سے جانتا ھے:

جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں حضرت ابراھیم (ع) بت شکن کی داستانوں میں پڑھا ھے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراھیم(ع) کو نبوت اور رسالت پر فائز ھو نے اور مختلف امتحانات میں کامیاب ھو نے کے بعد امامت کے عہدہ پر قرار دیا ھے۔اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۴ میں ارشاد فر مایا ھے:

<وإذابتلیٰ إبرا ھیم ربّہ بکلمٰتٍ فاٴتمّھنّ قال إنی جاعلک للنّاس إما ماً>

”اور اس وقت کو یاد کروجب خدانے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام بنارھے ہیں۔“

قرآن مجیدکی مختلف آیات اور تاریخی قرائن سے معلوم ھو تا ھے کہ حضرت ابراھیم (ع) با بل کے بت پرستوں سے مبارزہ کر نے،شام کی طرف ہجرت کر نے اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے بیٹے اسماعیل(ع) کو قربان گاہ میں لے جانے کے بعد امامت  کے منصب پر فائز ھو ئے ہیں۔

جب نبوت و رسالت کا عہدہ خدا کی طرف سے معیّن ھو ناضروری ھے تو مخلوق کی ہمہ جہت امامت و رہبری کا مرتبہ بطریق اولیٰ خدا کی طرف سے معیّن ھو نا ضروری ھے ،کیونکہ امامت کا مرتبہ رہبری  کے تکامل کی معراج ھے ۔اس لئے یہ کوئی ایسی معمولی چیز نہیں ھے جسے لوگ انتخاب کریں ۔

پھر قرآن مجید خود مذکورہ آیت میں فر ماتا ھے:

<إنی جاعلک للنّاس اماماً>  

”میں تم کو امام و پیشوا قرار دینے والا ھوں۔“

اسی طرح سورہ انبیاء کی آیت نمبر ۷۳ میں بھی بعض با عظمت انبیاء جیسے: حضرت ابراھیم(ع) ،حضرت لوط(ع) ،حضرت اسحاق(ع) اور حضرت یعقوب(ع) کے بارے میں ارشاد ھو تا ھے:

<وجعلنا ھم اٴئمة یھدون باٴمرنا>

”اورہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے“

اس قسم کی تعبیریں قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں بھی ملتی ہیں ،جن سے معلوم ھو تا ھے کہ یہ الہٰی منصب خداوند متعال کے توسط سے ہی معیّن ھو نا چاہئے ۔

اس کے علاوہ ہم حضرت ابراھیم (ع) کی امامت سے متعلق مذکورہ آیت کے آخری حصہ میں پڑھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے فرزندوں اور آنے والی نسل کے لئے اس منصب کی درخواست کی تو اللہ کی طرف سے یہ جواب ملا :

<لا ینال عھدی الظالمین>  

”میرا عہد ہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا “

یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ آپ کی دعا قبول ھوئی ،لیکن آپ کے

 فر زندوں میں سے جو ظلم کے مرتکب ھو نے والے ہیں وہ ہر گز اس مرتبہ پر فائز نہیں ھو ں گے۔

قابل ذکر بات ھے کہ لغوی اور قرآن مجید کی منطق کے اعتبار سے ”ظالم“ کے وسیع معنیٰ ہیں اور اس میں تمام گناہ من جملہ ان کے آشکار و مخفی شرک اور اپنے اوپر اور دوسروں پر ہر قسم کا ظلم شامل ھے ۔چونکہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی اس امر سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ھے، کیونکہ صرف خدا ہی لوگوں کی نیتوں اور باطن سے آگاہ ھے ،اس لئے واضح ھو تا ھے کہ اس مرتبہ و منصب کا تعیّن صرف خدا وند متعال کے ہاتھ میں ھے ۔

۲۔آیہ تبلیغ  

سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ میں یوں ارشاد ھوا ھے:

<یٰاٴ یّھا الرّسول بلّغ ماانزل إلیک من ربّک وإن لم تفعل فما بلّغت رسا لتہ واللّٰہ یعصمک من الناس إن اللّٰہ لا یھدی القوم الکٰفرین>

”اے پیغمبر!آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پرور دگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کا فروں کی ہدایت نہیں کر تا ھے۔“

اس آیہ شریفہ کے لہجہ سے معلوم ھو تا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر ایک سنگین ماٴ مو ریت ڈالی گئی ھے اور اس سلسلہ میں ہر طرف کچھ خاص قسم کی پریشانیاں پھیلی تھیں ،یہ ایسا پیغام تھا کہ ممکن تھا لوگوں کے ایک گروہ کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی،اس لئے آیہ شریفہ تاکید کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اس پر عمل کر نے کا حکم دیتی ھے اور ممکنہ خطرات اور پر یشانیوں کے مقابلہ میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خاطر خواہ اطمینان دلاتی ھے۔

یقینا یہ اہم مسئلہ توحید، شرک یا یھودو منا فقین جیسے دشمنوں سے جہاد کر نے سے مربوط نہیں تھا،کیونکہ اس زمانہ(سورہ مائدہ نازل ھو نے )تک یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ھو چکا تھا۔

اسلام کے دوسرے احکام پہنچانے کے سلسلہ میں بھی اس قسم کی پریشانی اور اہمیت نہیں تھی ،کیو نکہ مذکورہ آیت کے مطابق بظاہر یہ حکم رسالت کے ہم وزن اور ہم پلہ تھا کہ اگر یہ حکم نہ پہنچا یا جاتا تو رسالت کا حق ادا نہیں ھو تا ۔کیا یہ مسئلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ کچھ اور ھو سکتا ھے ؟خاص کر جب کہ یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف کے آخری دنوں میں نازل ھوئی ھے اور یہ خلافت کے مسئلہ کے ساتھ تناسب بھی رکھتا ھے ،جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رسالت ونبوت کی بقا کا وسیلہ ھے۔

اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے صحابیوں کی ایک بڑی تعداد ،من جملہ زید بن ارقم ،ابو سعید خدری ،ابن عباس،جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو ہریرہ ،حذیفہ اور ابن مسعود سے اس سلسلہ میں کثیر تعداد میں روایتیں نقل ھو ئی ہیں اور ان میں سے بعض روایتیں گیارہ واسطوں سے ہم تک پہنچی ہیں اور اہل سنت علماء،مفسرین ،محدثین اور مورخین نے بھی انھین نقل کرتے ھو ئے واضح کیا ھے کہ مذکورہ آیت حضرت علی(ع) اور غدیر کے واقعہ کے بارے میں نازل ھو ئی ھے [2]

ان شاء اللہ ہم ”غدیر“کی داستان کو ”روایات وسنت “کے عنوا ن سے آئندہ بحث میں تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن یہاں پر ہم اسی یاد دہانی پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی ایک واضح دلیل ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ اپنی زندگی کے آخری حج سے لوٹتے وقت حضرت علی(ع) کو با ضابطہ طور پر اپنا جا نشین معیّن کریں اور تمام مسلمانوں کو ان کا تعارف کرائیں۔

۳۔آیہ اولی الامر

سورہ نساء کی آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ھوا ھے:

<یٰاٴیّھاالّذین اٰمنوا اطیعوااللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم۔۔۔>

”ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرواور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں۔۔۔“

یہاں پر اولوالامر کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اطاعت کے ہمراہ بیان ھوئی ھے۔

کیا”اولوالامر“سے مراد ہر زمان و مکان کے حکام اور فرمانروا ہیں؟ مثلاًکیا ہمارے زمانے میں ہر ملک کے مسلمانوں پر فرض ھے کہ اپنے حکام اور فر مانرواؤں کی اطاعت کریں؟(جیسا کہ اہل سنت کے بعض مفسرین نے بیان کیا ھے)

یہ بات عقل ومنطق کی کسی کسوٹی پر ہر گز نہیں اترتی ھے،کیونکہ اکثرحکمراںمختلف زمانوں اور عصروں میں منحرف،گناہ کار ،دوسرے ملکوں کے ایجنٹ اور ظالم ھو ئے ہیں۔کیا اس سے مراد یہ ھے کہ ان حکمرانوں کی پیروی و اطاعت کی جانی چاہئے جن کا حکم اسلامی احکام کے خلاف نہ ھو؟یہ بھی آیت کے مطلق ھو نے کے خلاف ھے۔

کیا اس سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے مخصوص اصحاب ہیں؟یہ احتمال بھی اس آیت کے وسیع مفھوم (جو ہردور اور زمانے کے لئے ھے)کے خلاف ھے۔

اس لئے ہمارے لئے یہ بات واضح ھو جاتی ھے کہ اس سے مراد معصوم پیشوا ھے جو ہر دور اور زمانے میں موجود ھو تا ھے اور اس کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر واجب ھو تی ھے اور اس کا حکم، خدا ورورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مانند واجب الاطاعت ھو تا ھے۔

اس سلسلہ میں اسلامی منابع وماٴخذ میں موجود متعدد احادیث میں ”اولو الامر“کی حضرت علی(ع) اور ائمہ معصومین (ع) سے کی گئی تطبیق بھی اس حقیقت کی گواہ ھے۔[3]

۴۔آیہ ولایت

سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۵ میں ارشاد ھوا ھے:

<إنما ولیکم اللّٰہ ورسولہ والّذین آمنواالّذین یقیمون الصّلوٰة ویؤتون الزکوٰة وھم راکعون>

”ایمان والو بس تمھاراولی اللہ ھے اور اس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔“

عربی لغت میں لفظ”إنما“انحصار کے لئے استعمال ھو تا ھے،اس بات کے پیش نظر قرآن مجید نے مسلمانوں کی قیادت اور ولایت وسر پرستی کو صرف تین اشخاص میں منحصر فر مایا ھے :”خدا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰة دیتے ہیں“۔

اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ھے کہ”ولایت“ سے مراد مسلمانوں کی آپس دوستی نہیں ھے کیونکہ مسلمانوں کی عام دوستی کے لئے قید وشرط کی ضرورت نہیں ھے بلکہ تمام مسمان آپس میں دوست اور بھائی بھائی ہیں اگر چہ رکوع کی حالت میں کوئی زکوٰة بھی نہ دے ۔اس لئے یہاں پر ”ولایت“ وہی مادی و معنوی رہبری اور سر پرستی کے معنی میں ھے،بالاخص جب کہ یہ ولایت ،خدا کی ولایت اور پیغمبر کی ولایت کے ساتھ واقع ھو ئی ھے۔

یہ نکتہ بھی واضح ھے کہ مذکورہ آیت میں ذکر شدہ اوصاف ایک مخصوص شخص سے مر بوط ہیں،جس نے رکوع کی حالت میں زکوٰة دی ھے،ورنہ یہ کوئی ضروری امر نہیں ھے کہ انسان نماز کے رکوع کی حالت میں زکوٰة ادا کرے ،حقیقت میں یہ ایک نشاندہی ھے نہ توصیف۔

ان تمام قرائن سے معلوم ھو تا ھے کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ حضرت علی(ع) کی ایک مشھور داستان کی طرف ایک پر معنیٰ اشارہ ھے کہ حضرت علی(ع) نماز کے رکوع میں تھے ،ایک حاجتمند نے مسجد نبوی میں مدد کی درخواست کی ۔کسی نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ حضرت علی(ع) نے اسی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اشارہ کیا ۔حاجتمند نزدیک آگیا۔ حضرت علی(ع) کے ہاتھ میں موجود گراں قیمت انگوٹھی کو اتار کر لے گیا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کا مشاہدہ فر مایا تو نماز کے بعد اپنے سر مبارک کو آسمان کی طرف بلند کر کے یوں دعا کی :پروردگارا!میرے بھائی موسی(ع) نے تجھ سے درخواست کی کہ ان کی روح کو کشادہ،کام کو آسان اور ان کی زبان کی لکنت کو دور فر مادے اور ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر اور مدد گار بنادے۔۔۔پرور دگارا! میں محمد ،تیرا منتخب پیغمبر ھوں ،میرے سینہ کو کشادہ اور میرے کام مجھ پر آسان فر ما، میرے خاندان میں سے علی(ع) کو میرا وزیر قرار دے تاکہ اس کی مدد سے میری کمر قوی اور مضبوط ھو جائے۔۔۔“

ابھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ختم نہیں ھوئی تھی کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ کو لے کر جبرئیل امین نازل ھو ئے۔

دلچسپ بات یہ ھے کہ اہل سنّت کے بہت سے عظیم مفسرین ،مورخین اور محدثین نے اس آیہ شریفہ کی شاٴن نزول کو حضرت علی(ع) کے بارے میں نقل کیا ھے ۔اس کے علاوہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک گروہ نے ،جن کی تعداد س سے زیادہ ھے،اس حدیث کو خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست نقل کیا ھے۔[4]

ولایت کے موضوع پر قرآن مجید میں بہت سی آیات ذکر ھوئی ہیں ،ہم نے کتاب کے اختصار کے پیش نظر صرف مذکورہ چار آیتوں پر ہی اکتفا کیا۔

 

امامت ،سنّت نبی(ص) کی روشنی میں

 

اسلامی احادیث سے مربوط کتابوں ،بالخصوص اہل سنت بھائیوں کی طرف سے تاٴلیف کی گئی کتابوں کا مطالعہ کر نے کے دوران انسا ن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث کی ایک کثیر تعداد سے روبرو ھو تا ھے جو واضح طور پر حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔

حیرت کی بات ھے کہ اتنی احادیث موجود ھو نے کے باوجود اس مسئلہ کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہہ باقی نہیں رہ جاتا تو پھر ایک گروہ اہل بیت(ع) کی راہ سے ہٹ کر کو ئی دوسری راہ کیسے اختیار کر لیتاھے؟

یہ احادیث ،جن میں سے بعض کے اسناد سینکڑوں تک ہیں (جیسے حدیث غدیر) اور بعض کے اسناد دسیوں تک اور دسیوں مشھور اسلامی کتا بوں میں نقل ھو ئی ہیں ،ایسی واضح اور روشن ہیں کہ اگر ہم تمام گفتگوؤں کو نظر انداز کردیں اور کسی کی تقلید کر نا چھوڑ دیں،تو ہ مسئلہ ہمارے لئے ایسا واضح ھو جائے گا کہ کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

ان احادیث کے مخزن سے ہم یہاں پر چند مشھور احادیث کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس موضوع پر بیشتر اور گہرے مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کے لئے ہم بعض منابع(کتابوں) کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ان سی استفادہ کریں۔(۱)

۱۔حدیث غدیر

مورخین اسلام کی ایک بہت بڑی تعداد نے لکھا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری سال حج بجا لائے ۔فریضہ حج کو بجالانے کے بعد جبکہ حجاز کے مختلف علاقوں سے حج کے لئے آئے ھوئے  آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نئے اور پرانے صحابیوںاور اسلام کے عاشقوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی ۔مکہ سے واپسی پر یہ عظیم اجتماع ،مکہ اور مدینہ کے در میان واقع ”جحفہ“نامی ایک جگہ سے گزرتے ھوئے ”غدیر خم“کے نام پر ایک خشک اور گرم بیابان میں پہنچ گیا ۔در حقیقت یہ ایک چورا ہا تھا ۔جہاں پر حجاز  کے تمام لوگوں کے راستے جدا ھوتے تھے۔

یہاں پر حجاز کے مختلف علاقوں کی طرف جانے والے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے جدا ھونے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سب کو رکنے کا حکم دیا۔ جو آگے بڑھے تھے انھیں واپس آنے کا حکم دیا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا گیا،اس طرح سب ایک جگہ جمع ھو گئے ۔ھوا انتہائی گرم اور دھوپ نہایت جھلسا دینے والی تھی۔بیابان میں دوردور تک کہیں کوئی سائبان نظر نہیں آرہا تھا۔مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی امامت میں ظہر کی نماز پڑھی ۔جب ان سب نے نماز کے بعد اپنے خیموں کی طرف جانا چاہا تو پیغمبر اسلام نے حکم دیا کہ سب لو گ ٹھہر جائیں اور ایک مفصل

۱۔بیشتر وضاحت کے لئے کتاب”المراجعات“،”الغدیر“اور ”نوید امن وامان“کی طرف رجوع کریں۔

خطبہ کے ضمن میں ایک اہم الہٰی پیغام کو سننے کے لئے آمادہ ھو جائیں ۔

اونٹوں کے پالانوں کا ایک منبر بنایا گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس پر تشریف لے گئے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حمد وثنائے الہٰی کے بعد لوگوں سے مخاطب ھو کر فرمایا:

میں خدا کی دعوت کو لبیک کہتے ھوئے جلدی ہی تمھارے درمیان سے رخصت ھونے والا ھوں۔ میں ذمہ دار ھوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ھو ۔ تم لوگ میرے بارے میں کس طرح کی شہادت دیتے ھو؟

لوگوں نے بلند آواز سے کہا:

” نشہد انک قد بلغت و نصحت و جہدت فجزاک اللّٰہ خیرا“ 

”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے رسالت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ہماری بھلائی کے لئے ہماری نصحیت کی اور ہماری ہدایت میں نہایت کوشش کی،خداوند متعال آپ کو جزائے خیردے۔“

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت ، میری رسالت اور قیامت کی حقیقت اور اس دن مردوں کے دوبارہ زندہ ھونے کی شہادت دیتے ھو؟

جواب میں سب نے یک زبان ھوکر کہا: جی ہاں ، ہم گواہی دیتے ہیں۔ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خداوندا! گواہ رہنا۔۔۔

آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوبارہ فرمایا: اے لوگوں ! کیا میری آواز سن رھے ھو؟انھوں نے کہا: جی ہاں۔

اس کے بعد پورے بیابان میں چاروں طرف خاموشی چھاگئی اور ھوا کی سنسناہٹ کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

پیغمبرا سلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اب بتاؤ کہ ان دو گرانقدر چیزوں کے ساتھ تم لوگ کیسا سلوک کروگے جومیں تمھارے درمیان یادگارکے طور پر چھوڑے جارہاھوں؟

مجمع میں سے کسی نے بلند آورز سے سوال کیا: کون سی دوگرانقدر چیزیں، یا رسول اللہ؟!

پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: پہلی چیز ”ثقل اکبر“ یعنی کتاب الہی”قرآن مجید“ھے۔ اس کے دامن کو ہرگز نہ چھوڑنا تا کہ گمراہ نہ ھوجاؤ۔ اور دوسری گرانقدر یادگار چیز میرے اہل بیت ہیں۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبردی ھے کہ یہ دوچیزیں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ھونگیں یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے مل جائیں، ان دو نوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ھوجاؤگے۔ اور ان سے پیچھے بھی نہ رہنا، کیونکہ اس صورت مین بھی ہلاک ھوجاؤگے۔

اس دوران اچانک آپ(ع) نے اپنی نظریں ادھر اُدھردوڑائیں، جیسے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوکسی کی تلاؤ تھی۔ جوں ہی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نظرحضرت علی(ع) پر پڑی، آپ جھک گئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دے رہی تھی۔ سب لوگوں نے حضرت علی (ع) کو دیکھا اور انھیں پہچان لیا۔

 اس موقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اور زیادہ بلند آواز کے ساتھ رفرمایا:

ایّھا الناس ! من اولی النّاس بالمومنین من انفسھم؟

لوگو! لوگوں میں سے کون شخص مومنین پر خود ان سے بھی زیادہ سزاورا ھے؟

سب نے جواب میں کہا: خدا اور س کا رسول(ع) بہتر جانتاھے۔

پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

” خداوند متعال میرامولا اور رہبر ھے، اور میں مؤمنین کا مولا ورہبر ھوں اور ان کی نسبت خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتاھوں۔“

اس کے بعد فرمایا:

”فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“

”جس جس کا میں مولا اور رہبر ھوں، اس اس کے علی(ع) بھی مولاہیں“

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس جملہ کوتین مرتبہ دہرایا، بعض راویان حدیث کے مطابق اس جملہ کو چار مرتبہ دہرایا، اس کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرکے فرمایا:

”اللّہم وال من والاہ و عاد من عاداہ واحب من احبہ، وابغض من ابغضہ، وانصرمن نصرہ، واخذل من خذلہ، وادار الحق معہ حیث دار“

”خداوندا! اس کے دوستوں کو دوست رکھ اور س کے دشمنوں سے دشمن رکھ، جو شخص اسے محبوب رکھے اسے محبوب رکھ اور اس شخص سے بغض رکھ جس کے دل میں اس کا بغض ھو، اس کے دوستوں کی یاری فرما اور اس کا ساتھ چھوڑنے والوں کو محروم فرما، حق کو اس کے ساتھ پھیر جدھر وہ پھرے “

اس کے بعد فرمایا:

”تمام حاضرین اس خبر کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو اس دقت یہاں پر حاضر نہیں ہیں۔“

ابھی لوگ متفرق نہیں ھوئے تھے کہ جبرئیل امین وحی الہی لے کرنازل ھوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ آیہ شریفہ لے آئے:< الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی۔۔۔>[5]

”آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا ھے اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیاھے۔۔۔“

اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:

”اللّٰہ اکبر ،اللّٰہ اکبر ،علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والو لایة لعلی من بعدی۔“

”خدا کی بزرگی کا اعلان کرتا ھوں ،خدا کی بزرگی کا اعلان کر تا ھوں، اس لئے کہ اس نے اپنے دین کو کامل اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کر دیا ھے اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع) کی ولا یت سے راضی ھو نے کا اعلان فر مایا ھے۔“

اس وقت لوگوں میں شور وغوغا بلند ھوا،لوگ حضرت علی (ع) کو اس مرتبہ کی مبارک باد دے رھے تھے ،یہاں تک کہ ابوبکر اور عمر نے لوگوں کے اجتماع میں علی(ع) سے مخاطب ھو کر یہ جملہ کہا:

”بخ بخ لک یابن ابیطالب اصبحت و امسیت مولای ومولا کل مؤمن ومؤ منة“

”مبارک ھو آپ کو ،مبارک ھو آپ کو ،اے فرزند ابیطالب آپ میرے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا اور رہبر ھو گئے ہیں۔

مذکورہ بالاحدیث کو علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے مختلف عبارتوں میں، کہیں مفصل اور کہیں خلاصہ کے طور پراپنی کتا بوں میں درج کیا ھے ۔یہ حدیث متواتر احادیث میں سے ھے اور کوئی بھی شخص اس کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ھونے پر شک وشبہہ نہیں کرسکتا ھے ،یہاں تک کہ مصنف و محقق ”علامہ امینی “نے اپنی مشھور کتاب ”الغدیر“ میں اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ایک سو دس اصحاب اور تین سو ساٹھ اسلامی علماء کی کتابوں سے نقل کیا ھے۔یہ حدیث اہل سنت بھائیوں کی اکثرتفسیر و تاریخ اور حدیث کی کتا بوں میں درج ھے ،یہان تک کہ علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کے سلسلہ میں مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلہ میں ایک گرانقدر اور بے نظیر مستقل کتاب لکھی ھے اور اس میں چھبیس ایسے علمائے اسلام کے نام درج کئے ہیں جنھوں نے ”حدیث غدیر “کے متعلق مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔

بعض اشخاص نے حدیث کی سند کو ناقابل انکار پاتے ھوئے اس کی امامت وخلافت پر دلالت کے بارے میں شک وشبہہ ایجاد کر نے کی کوشش کی ھے ،اور مولا کے معنی کو ”دوست“کے عنوان سے جھوٹی تو جیہ کر نے کی کو شش کی ھے،جبکہ حدیث کے مضمون ،زمان ومکان کے شرائط اور دوسرے قرائن پر غور کر نے سے بخوبی معلوم ھو تا ھے کہ” مولا“کا مقصد ،بمعنی مکمل رہبری و قیادت اورمسئلہ امامت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ھے:

الف:آیہ تبلیغ ،جس کا ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا ،اس واقعہ سے پہلے نازل ھوئی ھے۔ اس میں موجود تندوسخت لہجہ اور قرائن اس بات کی بخوبی گواہی دیتے ہیں کہ یہ عام دوستی اور رفاقت کی بات نہیں ھے ،کیونکہ یہ امر پریشان کن نہیں تھا اور اس کے لئے اتنی اہمیت اور تاکید کی ضرورت نہیں تھی۔اسی طرح اس واقعہ کے بعد نازل ھو نے والی آیہ ”اکمال الدین“ اس امر کی گواہ ھے کہ یہ مسئلہ ایک غیر معمولی مسئلہ تھا اور رہبری وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے علاوہ کوئی اور مسئلہ نہیں تھا۔

ب۔اس حدیث کا ان تمام مقد مات کے ساتھ اس تپتے ھوئے بیان میں ایک تفصیلی خطبہ کے بعد بیان کیا جانا اور اس حساس زمان و مکان میں لوگوں سے اقرار لینا یہ سب ہمارے دعویٰ کی مستحکم دلیل ھے۔

ج۔مختلف گرھوں اور شخصیتوں کی طرف سے حضرت علی (ع)کو مبارک باد دینے کے علاوہ اس سلسلہ میں اسی روز اور اس کے بعد کھے گئے اشعار،اس حقیقت کے گویا ہیں کہ یہ مسئلہ علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بلند منصب پر منصوب ھو نے سے مربوط تھا نہ کسی اور چیز سے۔

   

حدیث ”منزلت“اور حدیث ”یوم الدار“

بہت سے عظیم شیعہ وسنی مفسرین نے حدیث ”منزلت“کو سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۴۲ کے ذیل میں نقل کیا ھے۔اس آیہ شریفہ میں حضرت موسی(ع) کے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر جانے اور اپنی جگہ پر ہارون کو جانشین مقرر کر نے کا واقعہ بیان کیا گیا ھے۔

حدیث یوں ھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ مشرقی روم کے بادشاہ نے حجاز،مکہ اور مدینہ پر حملہ کر نے کے لئے ایک بڑی فوج کو آمادہ کیا ھے اور اس کا مقصد یہ ھے کہ اسلامی انقلاب کواپنے خاص انسانی اور حریت و استقلال کے نظام کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچنے سے پہلے ہی ،نابود کر دیا جائے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر فر ماکر ایک عظیم لشکر کے ہمراہ تبوک کی طرف روانہ ھو گئے (تبوک جزیرہ عرب کے شمال میں مشرقی روم کی سلطنت کی سر حد پر واقع تھا)

حضرت علی(ع) نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں عرض کی:کیا مجھے بچوں اورعورتوں کے درمیان چھوڑ رھے ہیں ؟(اور اس بات کی اجازت نہیں دے رھے ہیں کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ہمراہ میدان جہاد میں چل کر اس عظیم افتخار کو حاصل کروں؟)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:

”الاترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسی الا انّہ لیس نبی بعدی؟“

”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ھو کہ تمھاری مجھ سے وہی نسبت ھو جو ہارون(ع) کی موسی(ع) سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا؟“

مذکورہ عبارت اہل سنت کی مشھور ترین حدیث کی کتابوں ،یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ھوئی ھے ،صرف اس فرق کے ساتھ کہ صحیح بخاری میں پوری حدیث درج ھے اور صحیح مسلم میں ایک مرتبہ پوری حدیث اور دوسرے مرتبہ صرف جملہ ”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ لّا انّہ لا نبی بعدی“ایک کلی اور تمام جملہ کی صورت میں نقل کی گئی ھے۔[6]

اس کے علاوہ یہ حدیث اہل سنت کی دوسری کتابوں ،جیسے:”سنن ابن ماجہ“،”سنن ترمذی“اور بہت سی دوسری کتابوں میں نقل کی گئی ھے اور اصحاب رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)پر مشتمل اس حدیث کے راویوں کی تعدادبیس افراد سے زیادہ ھے،جن میں جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو سعید خدری،عبداللہ بن مسعود اور معاویہ بھی شامل ہیں۔

ابو بکر بغدادی نے ”تاریخ بغداد“میں عمر بن خطاب سے یوں نقل کیا ھے:عمر بن خطاب نے ایک شخص کو حضرت علی(ع) کے خلاف برا بھلا کہتے ھوئے دیکھا ،عمر نے اس شخص سے کہا :مجھے لگتا ھے کہ تم منافق ھو، کیونکہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے :

کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرما تے تھے:

”انّما علیّ منّی بمنزلة ھارون من موسی(ع) الّانہ لا نبیّ بعدی“[7]

”علی علیہ السلام کی نسبت مجھ سے ویسی ہی ھے جیسی ہارون کی موسی(ع) سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ھوگا۔“

قابل توجہ بات ھے کہ احادیث کے معتبر منابع و ماٴخذ سے معلوم ھو تا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات (حدیث منزلت) صرف جنگ تبوک کے موقع پر ہی نہیں فر مائی ھے بلکہ درج ذیل سات مواقع پر بیان فر مائی ھے جو اس کے عام اور واضح مفھوم کی دلیل ھے:

۱۔”مکہ کے پہلے مواخات کے دن“۔یعنی جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں اپنے اصحاب سے برادری اور اخوت کا عہد و پیمان باندھا،اس موقع پر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یہی جملہ تکرار فر مایا۔

۲۔”مواخات کے دوسرے دن“۔جب (مدینہ منورہ میں) مہاجر وانصار کے در میان برادری و اخوت کا عہد وپیمان باندھا تو اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حدیث منزلت کو دوسری بار بیان فر مایا۔

۳۔جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حکم دیا کہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے گھروں کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں اور صرف حضرت علی (ع) کے گھر کا دروازہ کھلا رھے،توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس پر بھی اس جملہ (حدیث منزلت )کو دھرایا۔

۴،۵،۶ و۷۔اسی طرح غزوہ تبوک کے دن اور اس کے علاوہ تین اور مواقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کو دھرایا ھے کہ ان کے مدارک اہل سنت کی تمام کتابوں میں ذکر ھوئے ہیں، لہذا نہ سند کے لحاظ سے اس حدیث کے بارے میں کوئی شک وشبہہ باقی رہتا ھے اور نہ اس کے  عام مفھوم (دلیل) مفھوم ھو نے کے لحاظ سے ۔

حدیث منزلت کا مفھوم  

اگر ہم اپنے ذاتی نظریات سے ہٹ کر،غیر جانبدارانہ طور پر مذکورہ حدیث پر تحقیق و تجزیہ کریں تو معلوم ھو گا کہ حضرت ہارون کو جو تمام مناسب اور عہدے بنی اسرائیل میں حاصل تھے ،حضرت علی علیہ السلام بھی صرف نبوت کے علاوہ ان تمام عہدوں پر فائز تھے،کیونکہ اس حدیث میں نبوت کے عہدے کے علاوہ کوئی اور قید وشرط موجود نہیں ھے۔

اس لئے یہ نتیجہ نکلتا ھے:

۱۔علی(ع) امت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل تھے۔ (کیونکہ ہارون کا مرتبہ بھی ایسا ہی تھا)۔

۲۔علی(ع)،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر،خاص نائب اور رہبری میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے شریک تھے،کیونکہ قرآن مجید نے حضرت ہارون کے لئے یہ تمام منصباور عہدے ثابت کئے ہیں ۔(سورہ طہ،آیت ۲۹ سے ۳۲ تک)

۳۔علی (ع) ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے جانشین اور خلیفہ تھے ،آپ(ع) کے ھوتے ھو ئے کوئی دوسرا شخص اس عہدہ پر فائز نہیں ھو سکتا تھا ،کیونکہ حضرت موسی(ع) کی نسبت حضرت ہارون (ع) بھی یہی مقام و منزلت رکھتے تھے۔

حدیث ”یوم الدار“

اسلامی تواریخ کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے تیسرے سال خدا کی طرف سے امر ھوا کہ اپنی خفیہ دعوت اسلام کو آشکار فر مائیں ، چنانچہ سورہ شعراء کی آیت نمبر ۲۱۴میں ارشاد ھوا ھے:

<وانذر عشیرتک الا قربین>

”اور پیغمبر!آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے چچا حضرت ابو طالب(ع) کے گھر میں کھا نے کی دعوت دی ،کھانا کھانے کے بعد فر مایا:

”اے عبد المطلب کے فرزندو!خدا کی قسم عرب میں کوئی شخص ایسا نہیں ھے جواپنی قوم کے لئے مجھ سے بہتر کوئی چیزلایا ھو ،میں تمھارے لئے دنیا وآخرت کی نیکیاں لایا ھوں اور خدا وند متعال نے مجھے حکم دیا ھے کہ تم لوگوں کو اس دین (اسلام )کی طرف دعوت دوں ،تم میں سے کون(اس کام میں) میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ،وصی اور جانشین بن جائے“؟

سوائے علی علیہ السلام کے کسی بھی شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اس دعوت پر لبیک نہیں کہی ۔حضرت علی (ع) ان میں سب سے کم سن تھے،اٹھے اور عرض کی :”اے رسول خدا !میں اس راہ میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یار ویاور ھوں ۔“پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی گردن پر اپنا دست مبارک رکھ کر فر مایا:

”ان ھٰذا اخی ووصی وخلیفی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ“[8]

”یہ تم لوگوں میں میرا بھائی،وصی اور جانشین ھے،اس کی بات سنو اور اس کے حکم کی اطاعت کرو۔“

لیکن اس گمراہ قوم (قریش)نے نہ فقط پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا مذاق بھی اڑایا۔

مذکورہ حدیث جو کہ حدیث ”یوم الدار“روز دعوت ذو العشیرہ کے نام سے مشھور ھے، کافی حد تک واضح اور گو یا ھے ۔اور سند کے ساتھ بہت سے اہل سنت علماء،جیسے:ابن ابی جریر ،ابن ابی حاتم ،ابن مردویہ، ابونعیم، بیہقی، ثعلبی،طبری،ابن اثیر،ابو الفداء اور دوسرے لو گوں نے اسے نقل کیا ھے۔ [9]

 اگر ہم مذکورہ حدیث کے بارے میں بھی غیر جانبدارانہ طور پر تحقیق و تجزیہ کرین گے تو حضرت علی(ع) کی ولایت وخلافت سے مربوط حقائق بالکل واضح ھو جائیں گے کیونکہ اس حدیث میں بھی مسئلہ خلافت و ولایت کے بارے میں صراحت سے ذکر کیاگیا ھے۔

 

حدیث ”ثقلین“اور حدیث”سفینہ“

حدیث ثقلین کے اسناد

اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی ایک بڑی جماعت نے بلا واسطہ (براہ راست)آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ھے بعض بزرگ علماء نے اس حدیث کی روایت کر نے والے اصحاب کی تعداد تیس سے زیادہ بتائی ھے۔[10]

مفسرین،محدثین اور مور خین کے ایک بڑے گروہ نے اس حدیث کو اپنی کتا بوں میں درج کیا ھے۔اس طرح اس حدیث کے متواتر ھو نے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہیں رہتا ھے۔

بزرگ عالم سید ہاشمۺ بحرانی نے اپنی کتاب”غایة المرام“میں اس حدیث کو اہل سنت علماء کے ۳۹ اسناد اور شیعہ علماء کے ۸۰ اسناد سے نقل کیاھے ۔اور عالم بزرگوار میر حامد حسین ۺ ہندی نے اس حدیث کے بارے میں مزید تحقیقات انجام دی ہیں اور تقریباً دوسو اہل سنت علماء سے یہ حدیث نقل کی ھے اور اس حدیث کے سلسلہ میں تحقیقات کو اپنی عظیم کتاب(احقاق الحق) کی چھ جلدوں میں جمع کیا ھے ۔

جن مشھور اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ھے ،ان میں :ابو سعید خدری ،ابوذر غفاری،زید بن ارقم،زید بن ثابت،ابورافع،جبیر بن مطعم ،یاخذیفہ،ضمرہ اسلمی ،جابر بن عبداللہ انصاری اور ام سلمہ قابل ذکر ہیں۔حضرت ابوذرغفاریۺ کے بیان کے مطابق اصل حدیث یوں ھے :ابوذر غفاری اس حال میں کہ خانہ کعبہ کے دروازے کو پکڑے ھوئے تھے، لوگوں کی طرف مخاطب ھو کربیان کر رھے تھے :میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سے سنا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فر ماتے تھے :

<إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ وعترتی وانھمالن تفترقاحتی یرد اعلی الحوض>[11]

”میں تمھارے درمیان دویاد گار گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جارہاھوں، قرآن مجیداور میرے اہل بیت(ع)۔یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ھوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں ،پس تم ان کا خیال رکھنا اور دیکھنا تم میری وصیت کا ان کے بارے میں کس قدر لحاظ رکھتے ھو۔“

یہ روایت اہل سنت کے معتبر ترین مآخذ، جیسے ” صحیح ترمذی“، ”نسائی“، ”مسند احمد“، کنزالعمال“ اور ” مستدرک حاکم“ و غیرہ میں نقل ھوئی ھے۔

بہت سی روایتوں میں”ثقلین“(دوگرانقدر چےزیں) کی تعبیر اور بعض روایات میں ”خلیفتین“(دوجانشین) کی تعبیر آ ئی ھے۔ مفھوم کے اعتبار سے ان دونوںمیں کوئی فرق نہیں ھے۔

دلچسپ بات ھے کہ مختلف روایتوں سے معلوم ھوتاھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر لوگوںکے سامنے بیان فرمایاھے:

”جابربن عبداللہ انصاری“ کی روایت میں آیاھے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سفر حج کے دوران عرفہ کے دن اس حدیث (ثقلین) کو بیان فرمایا۔

”عبداللہ بن خطب“ کی روایت میں آیا ھے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کو سرزمین جحفہ(جو مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک جگہ ھے جہاں سے بعض حجاج احرام باندھتے ہیں) میں بیان فرمایاھے۔

” ام سلمہ“ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس حدیث کو غدیر خم میں بیان فرمایا۔

بعض روایتوں میں آیا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بستر علالت پر بیان فرمایاھے۔

ایک روایت میں آیا ھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یہ حدیث مدینہ منورہ میں منبر پر بیان فرمائی ھے[12]۔

حتی اہل سنت کے ایک مشھور عالم ” ابن حجر“ اپنی کتاب”صواعق المحرقہ“ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے نقل کرتے ہیں:

” پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمانے کے بعد حضرت علی(ع) کے ہاتھ کو پکڑ انھیں بلند کیا اور فرمایا:” یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ ھے اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ھے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدانہیں ھوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے پاس مجھ سے ملیں گے۔“[13]

اس سے واضح ھوتاھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ پر ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے بار بار تا کید فر ما ئی ھے اور اس قطعی حقیقت کو بیان کر نے کے لئے کو ئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ھے تا کہ اسے کبھی فرا موش نہ کیا جائے۔

حدیث ثقلین کا مفھوم

یہاں پر چند نکات قابل توجہ ہیں:

۱۔قرآن اور عترت (اہل بیت) کو پیغمبر اسلام کی طرف سے دو ”خلیفہ “ یا دو گرانقدر چیزوں کے عنوان سے پیش کر نا اس بات کی واضح دلیل ھے کہ مسلمانوں کو ہر گز ان دوچیزوں کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہئے ،بالخصوص اس قید وشرط کے ساتھ جو بہت سی روایتوں میں مذکور ھے :” اگر ان دو چیزوں کا دامن نہ چھوڑو گے تو ہر گز گمراہ نہ ھو گے “اس سے یہ حقیقت تا کید اً ثابت ھو تی ھے۔

۲۔قرآن مجید کا عترت کے ساتھ اور عترت کا قرآن مجید کے ساتھ قرار پانا اس بات کی دلیل ھے کہ جس طرح قرآن مجید ہر قسم کے انحراف اور خطا سے محفوظ ھے،اسی طرح عترت اور اہل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی مرتبہ عصمت کے مالک ہیں۔

۳۔ان بعض روایتوں میں پیغمبر اسلام نے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صراحت سے فر مایا ھے :میں قیامت کے دن تم سے ان دو یاد گاروں کے ساتھ کئے گئے تمھارے برتا ؤ کے بارے میں باز پرس کرونگا تاکہ دیکھ لو کہ تمھارا ان کے ساتھ کیسا سلوک رہا ھے؟

۴۔بلاشک شبہہ،ہم ”عترت واہل بیت“کی جس طرح بھی تفسیر وتوضیح کریں،حضرت علی (ع) ان کے نمایاں ترین مصداق ہیں ۔اور متعدد روایات کے مطابق آپ(ع) کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ھوئے ہیں اور قرآن مجید بھی آپ(ع) سے جدا نہیں ھوا ھے۔

اس کے علاوہ متعدد روایتوں میں آیا ھے کہ آیہ ”مباہلہ“ کے نازل ھو نے کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے علی،فاطمہ حسن اور حسین (علیہم السلام) کو پکار کر فر مایا: ”یہ میرے اہل بیت ہیں۔“[14]

۵۔اگر چہ اس دنیا کی چار دیواری میں مقیّد ہم لوگوں کے لئے قیامت سے متعلق مسائل پوری طرح واضح نہیں ہیں ،لیکن جیسا کہ روایتوں سے معلوم ھو تا ھے ”حوض کوثر“سے مراد بہشت میں موجود ایک خاص نہر ھے جس کے بہت سے خصوصیات ہیں، اور یہ نہر سچے مومنین ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ائمہ اہل بیت(ع) اور ان کے مکتب کے پیروؤں کے لئے مخصوص ھے۔

یہاں تک کی گئی ہماری گفتگو سے واضح ھو تا ھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کے رہبر و قائد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور آپ(ع) کے بعد آپ ہی کی نسل سے گیارہ ائمہ ہیں۔

حدیث سفینہ

اہل سنت اور شیعوں کی کتا بوں میں جو دلکش تعبیریں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سے نقل ھو ئی ھےں،ان میں سے ایک مشھور حدیث ”سفینہ نوح“ھے۔

اس حدیث کے راوی حضرت ابو ذر فر ماتے ہیں کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یوں فر مایا:

”اٴلا إن ّمثل اھل بیتی فیکم مثل سفینة نوح من رکبھا نجی ومن تخلف عنھا غرق“

”میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ھے جو اس میں سوار ھوا نجات پاگیا اور جو اس سے جدا ھوا وہ غرق (ہلاک) ھو گیا۔“[15]

یہ مشھور حدیث بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی و اطاعت کو ضروری اور لازم قرار دیتی ھے۔

چونکہ ایسی عظیم اور عالمگیر طوفان کے وقت صرف حضرت نوح کی کشتی نجات کا ذریعہ تھی ،اس سے یہ حقیقت واضح ھو جاتی ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں رونما ھو نے والے گمراہی کے طوفان میں راہ نجات صرف ولایت اہل بیت سے تمسک رکھنا تھا اور ھے۔

 

بارہ امام (ع)

 

بارہ اماموں کے بارے میں روایات

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت و امامت کو ثابت کر نے کے بعد اب ہم باقی اماموں کی امامت کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔

اس سلسلہ کی بحث کا خلاصہ یہ ھے :

آج ہمارے پاس اہل سنت اور اہل تشیّع کی متعدد ایسی روایتیں موجود ہیں جو کلی طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد”بارہ خلفاء اور ائمہ“کی خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔

یہ احادیث اہل سنت کی نہایت اہم اور مشھور کتا بوں ،جیسے:صحیح بخاری،صحیح تر مذی،صحیح مسلم ،صحیح ابی داؤد اور مسند احمد وغیرہ میں درج ہیں۔

کتاب”منتخب الاثر “ کے مصنف نے اس موضوع پر دوسو اکتھر احادیث جمع کی ہیں جن کی قابل توجہ تعداد اہل تسنن علماء کی کتا بوں سے اور باقی شیعوں کی کتا بوں سے نقل کی گئی ہیں۔

مثال کے طور پر،اہل سنت کی مشھور ترین کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلہ یوں آیا ھے:

”جابر بن سمرة“کہتا ھے کہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فر مایا:

”یکون اثنا عشرامیراً۔فقال کلمة لم اسمعھا فقال ابی انہ قال۔کلھم من قریش۔“    (صحیح بخاری ،ج۹،کتاب الامقام،ص۱۰۰)

”میرے بعد بارہ امیر ھوں گے۔اس کے بعد ایک جملہ فر مایا کہ میں سن نہ سکا ۔میرے باپ نے کہا کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فر مایا تھا :”وہ سب قریش میں سے ہیں “

”صحیح مسلم“میں اس حدیث کو یوں نقل کیا گیا ھے کہ”جابر“نے کہا :میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فر مایا:

”لایزال الاسلام عزیزاًالی اثنا عشر خلیفة ثم قال کلمة لم افھمھا،فقلت لابی ماقال فقال کلھم من قریش“(صحیح مسلم،کتاب الامارہ ،باب الناس تیع لقریش)

”اسلام ہمیشہ عزیز رھے گا یہاں تک کہ میرے بارہ خلیفہ وجانشین ھوں گے ۔اس کے بعد ایک جملہ ارشاد فر مایا کہ میں نہ سن سکا۔ میں نے اپنے باپ سے سوال کیا ،تو انھوں نے کہا پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فر مایا :”وہ سب قریش ھوں گے۔“

کتاب ”مسند احمد“میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشھور صحابی عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا گیا ھے کہ لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خلفاءکے بارے میں سوال کیا ۔توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فر مایا:

”اثناعشر کعدة نقباء بنی اسرائیل“[16]

”(میرے خلفاء)بنی اسرائیل کے نقباؤرؤسا کی تعداد کے برابر بارہ ھوں گے۔“

ان احادیث کا مفھوم

ان احادیث میں سے بعض میں”اسلام کی عزت“کا دار ومدار بارہ خلیفوں پر قرار دیا گیا ھے اور بعض میں قیامت کے دن کی بقاء اور حیات کو بارہ خلفاء کا مر ھون منت جانا ھے۔سب کو قریش سے اور بعض احادیث میں سب کو خاندان ”بنی ہاشم“سے بتایا گیا ھے۔یہ احادیث مذاہب اسلامی میں سے مذہب شیعہ کے علاوہ کسی مذہب سے تطبیق نہیں کرتی ہیں،کیونکہ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ان کی توجیہ مکمل طور پر بالکل صحیح اور واضح ھے،جبکہ اہل سنت علماء کے پاس ان کی توجیہ کا کوئی راستہ نہیں ھے ۔

کیا ان(بارہ خلفاء)سے مراد پہلے چار خلفاء اور خلفائے بنی امیہ وبنی عباس ہیں؟

جبکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نہ پہلے خلفاء کی تعدادبارہ تھی اور نہ بنی امیہ کے خلفاء کو ملاکر بارہ بنتی ھے نہ خلفائے بنی عباس کو ملا کر یہ تعداد بارہ بنتی ھے ۔مختصر یہ کہ کسی بھی حساب سے بارہ کی یہ تعداد پوری نہیں ھوتی ھے۔

اس کے علاوہ بنی امیہ کے خلفاء میں ”یزید“جیسے اور خلفائے بنی عباس میں ”منصوردوانقی “اور ”ہارون الرشید“جیسے افراد بھی تھے جن کے ظالم اور جابر ھونے میں کسی کو شک وشبہہ نہیں ھے ،اس لئے ممکن نہیں ھے ایسے افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء اور اسلام کی عزت وسر بلندی کا سبب شمار ھوں،جس قدر بھی ہم خلافت کے معیار کو گھٹائیں،ایسے افراد قطعاًاس دائرے میں نہیں آسکتے ہیں۔

اس بحث سے قطع نظر،شیعوں کے بارہ اماموں کے علاوہ کسی صورت میں بارہ خلفاء کی تعداد کہیں بھی پوری ھوتی نظر نہیں آتی ۔

بہتر ھے کہ اس بحث کو ہم اہل سنت کے ایک مشھور عالم کی زبانی پیش کریں:

”سلیمان بن ابراھیم قندوزی حنفی “اپنی کتاب ”ینا بیع المودة“میں فر ماتے ہیں:

بعض محققین نے کہا ھے :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بارہ خلفاء پردلالت کر نے والی احادیث مشھور ہیں ۔ یہ احادیث مختلف طریقوں سے نقل کی گئی ہیں۔مرور زمانہ سے جو کچھ ہمیں معلوم ھوا ھے وہ یہ ھے کہ اس حدیث سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اہل بیت اور عترت سے بارہ جانشین ہیں،کیونکہ اس حدیث کو پہلے خلفاء سے مربوط جاننا ممکن نہیں ھے،کیونکہ ان کی تعداد چار افراد سے زیادہ نہیں تھی ۔اس کے علاوہ یہ حدیث بنی امیہ پر بھی تطبیق نہیں ھوتی ھے ،کیونکہ وہ بارہ سے زیادہ تھے اور وہ عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ سب ظالم وستمگر تھے اور یہ کہ وہ ”بنی ہاشم“سے نہیں تھے ،جبکہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فر مایا ھے کہ وہ بارہ کے بارہ بنی ہاشم سے ہیں،جیسا کہ ”عبد الملک بن عمر“نے ”جابر بن سحرہ“سے نقل کیا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سوال کے سلسلہ میں کہ وہ (بارہ جانشین)کسی قبیلہ سے ھوں گے؟ آہستہ جواب دینا اس بات کی دلیل ھے کہ بنی ہاشم کی خلافت پر بعض افرادراضی نہیں تھے ۔اسی طرح یہ حدیث خلفائے بنی عباس پر بھی قابل تطبیق نہیں ھے،کیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ تھی۔اس کے علاوہ انھوں نے آیہ مودت”قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودة فی القربی[17] پر عمل نہیں کیا ھے اور حدیث کساء سے چشم پوشی کی ھے! 

ان وجو ہات کی بناء پریہ حدیث صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت وعترت سے تعلق رکھنے والے بارہ اماموں پر ہی قابل تطبیق ھے۔    

کیونکہ وہ علم ودانش کے اعتبار سے سب پر فضیلت رکھتے ہیں ،اور زہد وتقویٰ کے لحاظ سے بھی سب سے زیادہ زاہد وپرہیز گار ہیں ،اور حسب ونسب کے اعتبار سے بھی سب پر فضیلت رکھتے ہیں اور انھوں نے تمام علوم وفنون کو اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وراثت میں حاصل کیا ھے ۔اس نظریہ کی حدیث ثقلین اور دوسری بہت سی احادیث تائید کرتی ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ھو ئی ہیں۔“[18]

دلچسپ بات ھے کہ میں نے اپنے سفر مکہ کے دوران علماء حجاز کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کے دوران اس حدیث کے بارے میں ان سے ایک نئی توجیہ سنی ،جس سے ان کی اس سلسلہ میں بے بسی اور عاجزی واضح ھوتی ھے ،وہ کہتے تھے :”شاید بارہ خلفاء اور امراء سے مراد پہلے چار خلیفہ ہیں جو اسلام کی ابتداء میں تھے اور ان کے باقی افراد مستقبل میں آنے والے ہیں جنھوں نے ابھی ظھور نہیں کیا ھے!“

اس طرح ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے واضح ھو نے والے ان خلفاء کے ارتباط سے دیدہ و دانستہ طور پر چشم پوشی کی گئی ھے۔

 ہم یہ کہتے ہیںکہ کیاوجہ ھے کہ ہم اس حدیث کی واضح اور روشن تفسیر (جو شیعوں کے بارہ اماموں پر منطبق ھے)کو چھوڑ کر ایسی دلائل میں کود پڑیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ھو۔

نام بنام ائمہ کی تعیین

قابل توجہ بات ھے کہ اہل سنت راویوں سے ہم تک پہنچی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض احادیث میں صراحت کے ساتھ بارہ اماموں کے نام ذکر ھوئے ہیں اور ان کی خصوصیات و صفات بھی تفصیل سے ذکر ھوئی ہیں۔

اہل سنت کے معروف اور مشھور عالم ”شیخ سلیمان قندوزی “اپنی اسی کتاب ”ینابیع المودة“میں یوں نقل کرتے ہیں:

”نعثل نامی ایک یھودی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوا اورکئی سوالات کے ضمن میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خلفاء اور اوصیاء کے بارے میں سوال کیا ۔آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے جانشینوںکا تعارف یوں کرایا:

ان وصیی علی بن ابیطالب وبعدہ سبطای الحسن والحسین تلوہ تسعة ائمة من صلب الحسین۔

قال یا محمّد فسمھم لی۔

قال(ص) اذا مضی الحسین فابنہ علی،فاذا مضی علی فابنہ محمد ،فاذا مضی محمد فابنہ جعفر،فاذامضی جعفر فابنہ موسی ،فازامضی موسی فابنہ علی،فاذا مضی علی فابنہ محمد، فاذا مضی محمد فابنہ علی، فاذا مضی علی فابنہ الحسن، فاذا مضی الحسن فابنہ الحجة محمد المھدی (ع) فھٰؤلاء اثنا عشر۔“[19]

”میرے وصی علی بن ابیطالب ہیں اور ان کے بعد میرے دو نواسے حسن اور حسین ہیں اور حسین کے بعد نو امام ان کی نسل سے ھوں گے ۔“

یھودی نے کہا :اُن کے نام بیان فر ما ئیے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:

  جب حسین دنیاسے رخصت ھوںگے تو اُن کے بیٹے علی ھوں گے، جب علی دنیا سے رخصت ھوں گے تو ان کے بیٹے محمد ھوں گے ،جب محمد دنیا سے رخصت ھوں گے تو ان کے بیٹے جعفر ھوں گے ،جب جعفر دنیا سے رخصت ھوں گے تو ان کے بیٹے موسیٰ ھوں گے ،جب موسیٰ دنیا سے رخصت ھوں گے تو ان کے بیٹے علی ھوں گے،جب علی دنیا سے رخصت ھوں گے تو ان کے بیٹے محمد ھوں گے ،جب محمد دنیاسے رخصت ھوں گ تو ان کے بیٹے علی ھوں گے ،جب علی اس دنیاسے رخصت ھوں گے تو ان کے بیٹے حسن ھوں گے،اور جب حسن اس دنیا سے رخصت ھوں گے توان کے بیٹے حجت محمد المھدی ھوں گے۔یہ بارہ امام ہیں۔“[20]

اس کے علاوہ اسی کتاب”ینابیع المودة“میں ”کتاب مناقب“سے نقل کی گئی ایک اور حدیث درج ھے ،جس میں بارہ اماموں کے نام اور ان کے القاب بھی بیان کئے گئے ہیں اور حضرت مھدی کی غیبت ،اور اس کے بعد ان کے قیام کر کے دنیا کو عدل وانصاف سے اسی طرح پر کر نے کا ذکر کیا گیا ھے جس طرح دنیا اس سے پہلے ظلم وستم سے بھر گئی ھوگی۔[21]

البتہ اس سلسلہ میں شیعوں کی احادیث بہت زیادہ اور حد تواتر سے بڑھ کر موجود ہیں ۔(غور فر مائیے)۔

جوشخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے۔۔۔   

دلچسپ بات ھے کہ اہل سنت کی کتابوں میں ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ھے:

”من مات بغیر امام مات میتتة جا ھلیة“[22]

”جو شخص امام کے بغیر مر جائے ،اس کی موت جاہلیت کی موت ھے۔“

شیعہ کتابوں میں یہی حدیث اس عبارت میں نقل ھو ئی ھے:

”من مات ولا یعرف امامہ مات میتتہ جاھلتہ“

”جوشخص مرگیا اور اس نے اپنے امام کو نہیں پہچانا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ھے۔“(بحارالانوار ج۶،(طبع قدیم)ص۱۶)

یہ حدیث اس بات کی گواہ ھے کہ ہر دور اور ہر زما نے ایک معصوم امام موجود ھوتا ھے ،اس کو پہچاننا ضروری ھے ۔اس کو نہ پہچاننا اتنا نقصان دہ ھے کہ انسان کفر و جاہلیت کی سر حدمیں پہنچ جاتا ھے۔

کیا اس حدیث میں بیان کئے گئے امام وپیشوا سے مراد وہی لوگ ہیں جو زمام حکومت سنبھالتے ہیں،جیسے،چنگیز خان ،ہارون اور دوسروں کے ایجنٹ اور کٹھ پتلی حکام؟

بے شک اس سوال کا جواب منفی ھے، کیونکہ اکثر حکمران غیر صالح ،ظالم اور کبھی مشرق ومغرب کی طاقتوں سے وابستہ اور اغیار کی سیاست کے آلہ کار ھو تے ہیں،یقیناًایسے حکمرانوں کو امام کی حیثیت سے قبول کر نا انسان کو جہنم میں بھیج دیتا ھے۔

لہذا واضح ھو تا ھے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایک معصوم امام  موجود ھو تا ھے  لوگوں کے لئے اس کو تلاش کر کے اس کی رہبری کو قبول کر نا ضروری ھے۔

البتہ ہر ایک امام کی امامت کو مذکورہ بالا طریقوں کے علاوہ قرآنی نصوص اور آنے والے امام کے بارے میں ہر سابق امام کی بیان کی گئی احادیث و روایات نیز ان کے معجزات سے بھی ثابت کیا جاسکتا ھے۔

   



[1] نہج البلاغہ،کلمات قصارنمبر۱۴۷

[2] مزید تفصیلات کے لئے کتاب ”احقاق الحق“،”الغدیر“،”المراجعات“ اور ”دلائل الصدق“کا مطالعہ کریں۔

[3] مزید تفصیلات کے لئے تفسیر نمونہ ج۳:ص۴۳۵کا مطالعہ کریں۔

[4] مزید توضیح کے لئے قیمتی کتاب”المراجعات “کا مطالعہ فر مایئے ،جس کا اردو ترجمہ”دین حق“کے نان سے ھو چکا ھے۔

[5] سورہ مائدہ/۳

[6] صحیح بخاری ج۶،ص۳۔ صحیح مسلم ج۱،ص۴۴۔اور ج۴،ص۱۸۷۔

[7] تاریخ بغداد ،ج۷،ص۴۵۲

[8] تاریخ بغداد ،ج۷،ص۴۵۲)

[9] مزید تفصیلات کے لئے کتاب” المراجعات“،ص۱۳۰سے الخ اورکتاب ”احقاق الحق“، ج۴، ص۶۲الخ کی طرف رجوع کیا جائے۔

[10] سیرہ حلی ج۳۳،ص۳۰۸۔

[11] جامع ترمذی،طبق نقل ینابیع المودة،ص۳۷

[12] المراجعات،ص ۴۲۔

[13] الصواعق المحرقہ،ص ۷۵

[14] مشکوة المصابیح ،ص۵۶۸(طبع دہلی)ریاض المنضرہ ،ج۲،ص۲۴۸(بحوالہ مسلم و تر مذی)۔

[15] مستدرک حاکم ،ج۳،ص۱۵۱

[16] مسند احمد،ج۱،ص۳۹۸

[17] سورہ شوریٰ/۲۳

[18] ینابیع المودة،ص۴۴۶

[19] ینابیع المودة،ص۴۴۱

[20] ینابیع المودة،ص۴۴۱

[21] ینابیع المودة،ص۴۴۲

[22] المعجم المفہرس لالفاظ الاحادیث النبوی،ج۶،ص۳۰۲

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:18
جعفر علی نقوی