معارف قرآن و اھل البیت (ع)

معارف قرآن و اھل البیت (ع)

۳۸ مطلب در سپتامبر ۲۰۱۷ ثبت شده است

سوال:

کیا روایت « إنّی تارک فیکم خلیفتین » معتبر و صحیح سند کے ساتھ اہل سنت کی کتب میں نقل ہوئی ہے ؟

جواب:

مصادر روایت:

یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ جیسے: « إِنِّی تَرَکْتُ فِیکُمُ الْخَلِیفَتَیْنِ کَامِلَتَیْنِ » ، « إنی قد تَرَکْتُ فِیکُمْ خَلِیفَتَیْنِ » ، « إنی تارک فیکم الخلیفتین » ، « انی تَارِکٌ فِیکُمْ خَلِیفَتَیْنِ »  اور صحیح و معتبر سند کے ساتھ اہل سنت کی کتب میں نقل ہوئی ہے۔

کیونکہ ان تمام روایات کی تمام اسناد تقریبا ایک ہی طرح کی ہیں، اس لیے ہم فقط قدیمی ترین کتاب ابن ابی شیبہ کی نقل کردہ روایت کو ذکر کرتے ہیں:

حدثنا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ شَرِیکٍ، عَنِ الرُّکَیْنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، یَرْفَعُهُ، قَالَ:

« إِنِّی تَرَکْتُ فِیکُمُ الْخَلِیفَتَیْنِ کَامِلَتَیْنِ: کِتَابَ اللَّهِ، وَ عِتْرَتِی، و إِنَّهُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ »

میں تم میں دو کامل خلیفہ و جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں، خداوند کی کتاب اور اپنی عترت (اہل بیت)، اور حوض کوثر کے کنارے میرے پاس آنے تک، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

إبن أبی شیبة الکوفی، ابوبکر عبد الله بن محمد (متوفای235 هـ)، مسند ابن أبی شیبة ، ج 1، ص108، ح135، تحقیق : عادل بن یوسف العزازی و أحمد بن فرید المزیدی ، ناشر : دار الوطن - الریاض ، الطبعة : الأولی ، 1997م؛

إبن أبی شیبة الکوفی، ابوبکر عبد الله بن محمد (متوفای235 هـ)، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، ج 6، ص309، ح31679، تحقیق: کمال یوسف الحوت، ناشر: مکتبة الرشد - الریاض، الطبعة: الأولی، 1409هـ؛

الطبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن أحمد بن أیوب (متوفای360هـ)، المعجم الکبیر، ج 5، ص153، ح4921 ؛ ج 5، ص154، ح4922 ، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، ناشر: مکتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانیة، 1404هـ - 1983م؛

الشیبانی، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفای241هـ)، فضائل الصحابة، ج 2، ص603، ح1032؛ ج 2، ص786، ح1403، تحقیق د. وصی الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الأولی، 1403هـ - 1983م؛

الشیبانی، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفای241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 5، ص181، ح21618؛ ج 5، ص189، ح21697، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر؛

القرطبی ، بقی بن مخلد (متوفای276هـ) ، ما روی الحوض والکوثر (الذیل علی جزء بقی بن مخلد)، ج 1، ص137، تحقیق : عبد القادر محمد عطا صوفی ، ناشر : مکتبة العلوم والحکم - المدینة المنورة ، الطبعة : الأولی ، 1413هـ؛

الشیبانی، عمرو بن أبی عاصم الضحاک (متوفای287هـ)، السنة، ج 2، ص351؛ ج 2، ص643 ، ح1548 ـ 1549، تحقیق: محمد ناصر الدین الألبانی، ناشر: المکتب الإسلامی - بیروت، الطبعة: الأولی، 1400هـ؛

الثعلبی النیسابوری، ابوإسحاق أحمد بن محمد بن إبراهیم (متوفای427هـ)، الکشف والبیان، ج 3، ص163، تحقیق: الإمام أبی محمد بن عاشور، مراجعة وتدقیق الأستاذ نظیر الساعدی، ناشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت، الطبعة: الأولی، 1422هـ-2002م؛

الأنصاری الشافعی، سراج الدین أبی حفص عمر بن علی بن أحمد المعروف بابن الملقن(متوفای804هـ)، تذکرة المحتاج إلی أحادیث المنهاج ، ج 1، ص64، تحقیق : حمدی عبد المجید السلفی ، ناشر : المکتب الإسلامی - بیروت ، الطبعة : الأولی ، 1994م؛

و ...

بررسی سند روایت:

عُمَرُ ابْنُ سَعْد:

یہ کتاب صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:

عمر بن سعد بن عبید أبو داود الحفری بفتح المهملة والفاء نسبة إلی موضع بالکوفة ثقة عابد من التاسعة مات سنة ثلاث ومائتین م 4

۔۔۔۔ یہ ایک ثقہ و عابد انسان تھا۔۔۔۔۔

العسقلانی الشافعی، أحمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، تقریب التهذیب، ج1 ، ص413، رقم: 4904، تحقیق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشید - سوریا، الطبعة: الأولی، 1406 - 1986.

شریک بن عبد الله:

یہ کتاب صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:

شریک بن عبد الله النخعی الکوفی القاضی بواسط ثم الکوفة أبو عبد الله صدوق یخطیء کثیرا تغیر حفظه منذ ولی القضاء بالکوفة وکان عادلا فاضلا عابدا شدیدا علی أهل البدع من الثامنة مات سنة سبع أو ثمان وسبعین خت م  4

یہ بہت سچّا اور عادل، فاضل، عابد انسان تھا کہ جو اہل بدعت پر بہت سخت تھا۔

تقریب التهذیب ، ج1 ، ص266، رقم: 2787

رکین بن الربیع الفزاری:

یہ کتاب صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:

رکین بالتصغیر بن الربیع بن عمیلة بفتح المهملة الفزاری أبو الربیع الکوفی ثقة من الرابعة مات سنة إحدی وثلاثین بخ م 4

وہ کوفی و ثقہ تھا۔

تقریب التهذیب ، ج 1، ص1944، رقم: 1956

القاسم بن حسان:

القاسم بن حسان العامری الکوفی مقبول من الثالثة د س

اسکی روایات کو قبول کیا جاتا تھا۔

تقریب التهذیب، ج1 ، ص449، رقم: 5454

زید بن ثابت:

صحابی.

یہ راوی صحابی تھا۔

تصحیح روایت:

ناصر الدین البانی کہ اسکو اپنے زمانے کا بخاری کہا جاتا تھا۔  اس نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

2457. إنی تارک فیکم خلیفتین : کتاب الله حبل ممدود ما بین السماء و الأرض و عترتی أهل بیتی و إنهما لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض

( حم طب ) عن زید بن ثابت .

( صحیح )

ألبانی، محمد ناصر الدین (متوفای1420هـ)، صحیح جامع الصغیر وزیادته، ج1، ص482، ح2457، ناشر: المکتب الإسلامی .

علی ابن ابی بکر ہیثمی نے بھی اپنی کتاب میں دو جگہ پر اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے:

رواه الطبرانی فی الکبیر ورجاله ثقات.

الهیثمی، ابوالحسن نور الدین علی بن أبی بکر (متوفای 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 1، ص170، ناشر: دار الریان للتراث/ دار الکتاب العربی - القاهرة، بیروت - 1407هـ.

رواه أحمد وإسناده جید

مجمع الزوائد، ج 9، ص163

وہ مطالب جو اس روایت سے ثابت ہوتے ہیں:

اس مہم روایت سے بعض قابل توجہ نتائج حاصل ہوتے ہیں:

1. قرآن و اہل بیت علیہم السلام ہر دو رسول خدا (ص) کے جانشین ہیں، انکی جانشینی کو قبول نہ کرنا یا ان میں سے ایک کی اتباع و پیروی نہ کرنا، یہ رسول خدا (ص) کے فرمان کو ردّ کرنے کے مترادف ہے کہ جو انسان کے لیے ابدی گمراہی کا سبب بنتی ہے:

وَما کانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَی اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ یَکُونَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُبیناً.

کسی بھی مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کے لیے اپنی مرضی کرنا جائز نہیں ہے، جب خدا اور اسکا رسول کسی کام کے بارے میں فیصلہ کریں اور جو بھی خدا اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوا ہے۔

سورہ أحزاب آیت 36

اس بیان کے ساتھ وہ لوگ جہنوں نے اہل بیت کی اطاعت کو چھوڑ کر دوسروں کی اطاعت کی ہے، واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے آپکو کس گمراہی میں ڈالا ہے ؟!

2. اہل بیت کی اطاعت مطلق (اطاعت بے چون و چرا) واجب ہے، جس طرح کہ قرآن کی بھی اطاعت مطلق واجب ہے، کوئی بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ قرآن کی اطاعت کے ساتھ، اہل بیت (ع) کی اطاعت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں رسول خدا  (ص)کی نافرمانی کرنا لازم آئے گا۔

3. یہ دونوں (قرآن و اہل بیت) قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

وَإِنَّهُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ،

بالکل اسی نکتے سے اہل بیت کی اطاعت مطلق ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اگر اہل بیت معصوم نہ ہوں تو اور ان سے گناہ اور خطا سرزد ہو تو، اسی وقت اتنی ہی مقدار میں قرآن سے دور ہو جائیں گے، اور ایسا ہونا رسول خدا کے واضح فرمان کے خلاف ہے، پس جس طرح کہ قرآن ہر خطا سے محفوظ ہے اور کوئی بھی باطل چیز اس میں موجود نہیں ہے، رسول خدا کے اہل بیت بھی بالکل ایسے ہی ہیں۔

لا یَأْتیهِ الْباطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزیلٌ مِنْ حَکیمٍ حَمید. 

کسی قسم کا کوئی باطل نہ سامنے سے اور نہ ہی پیچھے سے، اس (قرآن) میں نہیں آتا، کیونکہ خداوند حکیم و حمید کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

سورہ فصلت آیت 42

4. اہل بیت کے قرآن سے حوض کوثر تک جدا نہ ہونے پر تاکید کرنا، ایک طرف سے قرآن کے قیامت تک باقی ہونے پر دلالت کرتا ہے تو دوسری طرف سے تمام لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے کہ اہل بیت کا ایک فرد قیامت تک قرآن کے ساتھ رہے گا، اور شیعیان نے اسی نکتے سے امام زمان (عج) کے زندہ ہونے پر استدلال کیا ہے۔

علامہ مناوی عالم بزرگ اہل سنت نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

قال ( الشریف ): هذا الخبر یفهم وجود من یکون أهلا للتمسک به من أهل البیت والعترة الطاهرة فی کل زمن إلی قیام الساعة حتی یتوجه الحث المذکور إلی التمسک به کما أن الکتاب کذلک فلذلک کانوا أمانا لأهل الأرض فإذا ذهبوا ذهب أهل الأرض ) حم طب عن زید بن ثابت ( قال الهیثمی: رجاله موثقون ورواه أیضا أبو یعلی بسند لا بأس به والحافظ عبد العزیز بن الأخضر.

یہ حدیث ہمیں سمجھاتی ہے کہ اہل بیت میں سے ایک بندہ ہمیشہ قیامت تک موجود ہے، تا کہ اس سے تمسک کرنے کا معنی پیدا ہو سکے، جس طرح کہ قرآن بھی ایسے ہی ہے، اسی وجہ سے وہ (اہل بیت) اہل زمین کے لیے باعث امان ہیں اور جب وہ نہ ہوں تو اہل زمین بھی نابود ہو جائیں گے۔

اس روایت کو احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں اور طبرانی نے معجم کبیر زید ابن ثابت سے نقل کیا ہے اور ہیثمی نے کہا ہے کہ اس روایت کے راوی موثق ہیں۔ اسی طرح ابو یعلی اور حافظ عبد العزیز ابن اخضر نے بھی اسی روایت کو قابل قبول سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔

المناوی، عبد الرؤوف بن علی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج3، ص15، المکتبة التجاریة الکبری - مصر، 1356هـ.

5. جس طرح کہ قرآن کریم « تِبْیاناً لِکُلِّ شَیْ ء » (سورہ نحل آیت 89) ہے، اہل بیت بھی بالکل اسی طرح ہیں، کیونکہ جو ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہے، وہ تمام حقائق قرآن سے آگاہ ہوتا ہے، پس امام معصوم کو بھی « تبیانا لکل شیء » ہونا چاہیے، تا کہ قرآن و اہل بیت کے درمیان عدم جدائی عملی طور پر بھی ثابت ہو سکے۔

لہذا اس روایت اور اسی مطلب کی طرح دوسری روایات کے مطابق قرآن اور اہل بیت ہر چیز میں آپس میں مساوی و ہم پلہ ہیں، پس قرآن کی حقیقی طور پر پیروی کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس پیروی کو مکمل کرنے کے لیے، اہل بیت کی بھی پیروی کریں اور دوسروں کی پیروی کرنے سے اجتناب کریں، کیونکہ ایک دل میں دو محبتیں نہیں آ سکتیں اور اسکے علاوہ غدیر کے میٹھے اور صاف پانی سے سیراب ہونے والا عقلمند انسان خود کو سقیفے کے کھارے اور گندے پانی سے آلودہ نہیں کرتا۔

وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِی خَبُثَ لَا یَخْرُجُ إِلَّا نَکِدًا ۚ کَذَٰلِکَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَشْکُرُونَ،

اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کا سبزہ اس کے رب کے حکم سے نکلتا ہے، اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہی ہوتا ہے، اسی طرح ہم شکر گزاروں کے لیے مختلف طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں۔

سورہ اعراف آیت 58

6. « اهل بیتی » سے مراد، رسول خدا کی زوجات نہیں ہو سکتیں، کیونکہ اس روایت میں ذکر ہونے والی خصوصیات ان زوجات میں نہیں پائی جاتیں، اس لیے کہ اس روایت میں رسول خدا نے « وَإِنَّهُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ» کے الفاظ کو استعمال کیا ہے، اور واضح ہے کہ تمام امہات المؤمنین وفات پا کر دنیا سے چلی گئیں ہیں، کوئی بھی زندہ نہیں بچی کہ جو اس روایت کے مطابق، قیامت تک قرآن کے ساتھ باقی رہے !

اسکے علاوہ رسول خدا کی بعض زوجات کا اخلاق اور کردار ایسا تھا کہ ہرگز اس روایت کا یہ جملہ « وَإِنَّهُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ» انکو شامل نہیں ہوتا،  ان زوجات میں سے ایک عایشہ ہے کہ اس نے شیعہ اور اہل سنت کی تاریخ کی معتبر کتب کے مطابق، جنگ جمل میں مسلمانوں کے خلیفہ برحق کے خلاف علم بغاوت بلند اور اعلان جنگ کیا تھا، اور اسی عایشہ کی وجہ سے جنگ جمل میں 20 ہزار سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے، حالانکہ قرآن میں خداوند نے فرمایا ہے کہ:

وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فیها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظیما.

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی  سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔

سورہ نساء آیت 93

20 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا خون کس کی گردن پر ہے ؟؟؟

کیا قبول کیا جا سکتا ہے کہ عایشہ جنگ جمل کے زمانے میں قرآن کے ساتھ تھی ؟

اس روایت کی روشنی میں عایشہ کیسے قرآن کے ساتھ ہو سکتی، حالانکہ وہ آیات قرآن کی واضح طور پر مخالفت کر رہی تھی ؟

عایشہ کیسے قیامت تک قرآن کے ساتھ ہو سکتی ہے، حالانکہ وہ ناطق قرآن اور روح قرآن کی جان کی پیاسی اور اس سے جنگ کر رہی تھی ؟

علامہ آلوسی نے تصریح کی ہے کہ حدیث ثقلین میں مذکور «اهل بیت» سے مراد، رسول خدا کی زوجات نہیں ہیں:

وأنت تعلم أن ظاهر ما صح من قوله صلی الله تعالی علیه وسلم : إنی تارک فیکم خلیفتین وفی روایة ثقلین کتاب الله حبل ممدود ما بین السماء والأرض وعترتی أهل بیتی وإنهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض یقتضی أن النساء المطهرات غیر داخلات فی أهل البیت الذین هم أحد الثقلین لأن عترة الرجل کما فی الصحاح نسله ورهطه الأدنون...

آپ جانتے ہیں کہ رسول خدا کی صحیح حدیث کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ: « إنی تارک فیکم خلیفتین... »  اس حدیث کا تقاضا ہے کہ رسول خدا کی زوجات اهل بیتی میں داخل نہ ہوں کہ وہ ثقلین میں سے ایک قرار پا سکیں، کیونکہ ایک انسان کی عترت، جسطرح کہ جوہری کی کتاب صحاح میں ذکر ہوا ہے، اسکی نسل اور خونی رشتے دار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

الآلوسی البغدادی الحنفی، أبو الفضل شهاب الدین السید محمود بن عبد الله (متوفای1270هـ)، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ج 22، ص16، ناشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت.

اہل سنت کے علماء کی نظر میں حدیث ثقلین کا معتبر ہونا:

اہل سنت کے بہت سے علماء اس حدیث کے لیے ایک خاص اعتبار و اہمیت کے قائل ہیں:

1. محمد بن عیسی ترمذی:

ترمذی نے حدیث ثقلین کو زید بن ثابت سے نقل کیا ہے اور آخر میں کہا ہے کہ:

هذا حدیث حسن غریب.

الترمذی السلمی، ابوعیسی محمد بن عیسی (متوفی 279هـ)، سنن الترمذی، ج5، ص663، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، ناشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت.

2. حاکم نیشاپوری:

حاکم نے کتاب مستدرک صحیحین میں اس حدیث کو زید ابن ارقم سے نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین و لم یخرجاه.

یہ حدیث مسلم اور بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، لیکن ان دونوں نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔

الحاکم النیسابوری، ابو عبد الله محمد بن عبد الله (متوفی 405 هـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص160، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت الطبعة: الأولی، 1411هـ - 1990م.

3. ابن کثیر دمشقی:

ابن کثیر سلفی وہابی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:

وقد ثبت فی الصحیح م 2408 أن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال فی خطبة بغدیر خم إن تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی وإنهما لم یفترقا حتی یردا علی الحوض.

صحیح مسلم میں حدیث نمبر 2408 میں ثبت ہوا ہے کہ رسول خدا نے اپنے خطبہ غدیر میں فرمایا کہ: اے لوگو میں تمہارے دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں...................،

ابن کثیر الدمشقی، ابو الفداء إسماعیل بن عمر القرشی (متوفی774هـ)، تفسیر القرآن العظیم، ج4، ص114، ناشر: دار الفکر - بیروت - 1401هـ.

4. ابو الحسن ہیثمی:

ہیثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں اس روایت میں کہ جس میں لفظ خلیفتین آیا ہے، کی سند کو واضح طور پر معتبر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ:

رواه أحمد وسنده جید.

اس حدیث کو احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب مسند احمد میں نقل کیا ہے اور اسکی سند اچھی و ٹھیک ہے۔

الهیثمی، ابو الحسن علی بن أبی بکر (متوفی 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص163، ناشر: دار الریان للتراث، دار الکتاب العربی - القاهرة، بیروت - 1407هـ.

اور ایک دوسری جگہ پر کہا ہے کہ:

ورجاله ثقات.

حدیث ثقلین کے نقل کرنے والے سارے راوی ثقہ و قابل اعتماد ہیں۔

الهیثمی، ابو الحسن علی بن أبی بکر (متوفی 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج1، ص170، ناشر: دار الریان للتراث/ دار الکتاب العربی - القاهرة، بیروت - 1407هـ.

5. سیوطی اور محمد بن یوسف صالحیی شامی:

ان دونوں نے حدیث ثقلین کے حسن و صحیح ہونے کے بارے میں ترمذی اور حاکم کے کلام کو نقل کیا ہے اور انکے کلام کو بالکل ردّ نہیں کیا اور انکے کلام پر کسی قسم کا اعتراض و اشکال بھی نہیں کیا:

وأخرج الترمذی وحسنه والحاکم وصححه عن زید بن أرقم أن النبی صلی الله علیه وسلم قال (إنی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وأهل بیتی)

السیوطی، أبو الفضل جلال الدین عبد الرحمن أبی بکر (متوفی 911هـ)، الخصائص الکبری، ج2، ص466، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1405هـ - 1985م.

الصالحی الشامی، محمد بن یوسف (متوفی942هـ)، سبل الهدی والرشاد فی سیرة خیر العباد، ج11، ص6، تحقیق: عادل أحمد عبد الموجود وعلی محمد معوض، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت، الطبعة: الأولی، 1414هـ.

6. حسن بن علی سقاف:

سید سقاف قرشی نے اپنی کتاب شرح صحیح عقیده طحاویہ میں لکھا ہے کہ:

ورواه الترمذی (5 / 663 برقم 3788) بسند صحیح بلفظ: «إنی تارک فیکم ما إن تمسکتم به لن تضلوا بعدی، أحدهما أعظم من الآخر: کتاب الله حبل ممدود من السماء إلی الأرض، وعترتی أهل بیتی، ولن یتفرقا حتی یردا علی الحوض، فانظروا کیف تخلفونی فیهما».

ترمذی نے اس حدیث کو اس نمبر کے ساتھ ، صحیح سند کے ساتھ اس لفظ کے ساتھ نقل کیا ہے:انی تارک فیکم.....

رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: میں دو چیزیں اپنے خلیفہ و جانشین کے طور پر تمہارے لیے چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک خداوند کی کتاب کہ جو زمین و آسمان کے درمیان ایک لٹکتی ہوئی رسی کی طرح ہے، اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، یہ دو چیزیں حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک آپس میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی، پس اب یہ دیکھنا کہ میرے بعد تم میرے اہل بیت سے کیسا سلوک کرتے ہو ؟؟؟

السقاف القرشی الهاشمی، حسن بن علی (معاصر) صحیح شرح العقیدة الطحاویة أو المنهج الصحیح فی فهم عقیدة أهل السنة والجماعة مع التنقیح، 654، ناشر: دار الإمام النووی - عمان - الأردن، الطبعة الأولی، 1416 - 1995 م.

7. البانی، مفتی اہل سنت:

البانی وہابی (متوفی 1420) کہ اسکو امیر المؤمنین فی الحدیث اور اپنے زمانے کا بخاری کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا، اس نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب صحیح الجامع الصغیر میں  حدیث نمبر 2457 کے طور پر ذکر کیا اور اسے صحیح قرار بھی دیا ہے۔

یہ حدیث ثقلین کے بارے میں اہل سنت کے بزرگ علماء کے اقوال تھے، مزید علماء کے نام اور اقوال کو ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اتنی ہی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:11
جعفر علی نقوی
کیا قرآن کریم کی آیت « بقیۃ الله خیر لکم ان کنتم مؤمنین » امام زمان (عج) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؟
 

 

جواب:

قرآن کریم میں بہت سی آیات ایسی ہیں کہ جن کا موضوع و مفہوم گذشتہ انبیاء کے زمانے میں تھا، لیکن ان آیات کا مصداق رسول خدا (ص) کے زمانے میں وجود میں آیا تھا۔ وہ تمام واقعات کہ جو گذشتہ انبیاء کے بارے میں قرآن کریم میں نقل ہوئے ہیں ، وہ اس لیے نقل ہوئے ہیں کہ ان واقعات کا تعلق رسول خدا (ص) کے زمانے سے تھا۔

اس بارے میں واضح ترین آیت ،

رَحمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ عَلَیکُم أهلَ البَیتِ ،

خداوند کی رحمت اور اسکی برکات آپ پر ہوں اے اہل بیت ،

سورہ ہود  آیت 73

کو مثال کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے کہ جو حضرت ابراہیم (ع) اور انکے خاندان کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن رسول خدا (ص) نے خداوند سے دعا کی کہ اس چیز کو میری اولاد میں بھی قرار دے۔

عالم اہل سنت شوکانی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

قوله : کما صلیت علی آل إبراهیم هم إسماعیل وإسحاق وأولادهما، وقد جمع الله لهم الرحمة والبرکة بقوله: رحمة الله وبرکاته علیکم أهل البیت إنه حمید مجید ولم یجمعا لغیرهم، فسأل النبی صلی الله علیه وآله وسلم إعطاء ما تضمنته الآیة.

رسول خدا کا فرمانا کہ: اے خداوندا جس طرح آپ نے ابراہیم پر اور انکی آل پر درود بھیجا ہے، اس سے مراد اسماعیل، اسحاق اور ان دونوں کی اولاد ہے، اور خداوند نے اسکی نسل کے لیے رحمت و برکت کو جمع فرمایا ہے ، کیونکہ قرآن میں خداوند نے فرمایا ہے کہ: خداوند کی رحمت اور اسکی برکات آپ پر ہوں اے اہل بیت، کہ خداوند تعریف شدہ، بخشنے والا ہے۔ یہ دو مطلب (رحمت و برکت) کسی کے لیے بھی ایک جگہ جمع نہیں ہوئے، پس رسول خدا نے خداوند سے دعا کی کہ جو کچھ اس آیت میں ذکر ہوا ہے، مجھے بھی عطا فرمائیں۔

نیل الأوطار - الشوکانی - ج 2 - ص 325

شربینی نے بھی لکھا ہے کہ:

قال تعالی: (رحمة الله وبرکاته علیکم أهل البیت إنه حمید مجید) فسأل (ص) إعطاء ما تضمنته هذه الآیة مما سبق إعطاؤه لإبراهیم.

خداوند نے فرمایا کہ خداوند کی رحمت اور اسکی برکات آپ پر ہوں اے اہل بیت ، کہ خداوند تعریف شدہ، بخشنے والا ہے۔ پس رسول خدا نے خداوند سے درخواست کی کہ جو کچھ اس آیت میں ابراہیم کے لیے بیان ہوا ہے، وہ مجھے بھی عطا فرمائیں۔

مغنی المحتاج - محمد بن أحمد الشربینی - ج 1 - ص 176

اور اسی وجہ سے روایات میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول خدا (ص) اپنے اہل بیت (ع) کو سلام کرتے وقت اور ان پر درود بھیجتے وقت اسی آیت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے:

ثم نهض الیمانی وهو یقول رحمة الله وبرکاته علیکم أهل البیت.

یمنی شخص کھڑا ہوا اور کہا: خداوند کی رحمت اور اسکی برکات آپ پر ہوں اے اہل بیت۔

الکافی - الشیخ الکلینی - ج 1 - ص 347

موضوع بحث آیت بھی ایسے ہی ہے۔

بقیة الله کا معنی کوئی بندہ یا کوئی ایسی مفید و باعث سعادت چیز ہے کہ جسکو خداوند نے لوگوں کے لیے باقی بچا کر رکھا ہے۔

تفسیر نمونه، ج 9، ص 204. 

قرطبی اہل سنت کے مفسر نے لکھا ہے کہ:

( بقیة الله خیر لکم ) أی ما یبقیه الله لکم بعد إیفاء الحقوق.

بقیة الله تمہارے بہتر ہے، یعنی وہ چیز کہ جو خداوند نے دوسروں کا حق دینے کے بعد تمہارے لیے باقی بچا کر رکھی ہے۔

تفسیر القرطبی - القرطبی - ج 9 - ص 86

پس معنی «بقیۃ  الله» عام ہے اور ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جو خداوند نے انسانوں کے لیے باقی محفوظ کر رکھی ہے۔ ان چیزوں میں سب سے مہم وہ ہے کہ جو ضرور آئے گا اور معاشرے کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

اسی وجہ سے اہل سنت کی بعض کتب میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت مہدی (ع) کو «بقیۃ              الله» کا نام دیا گیا ہے اور دوسروں نے بھی حضرت مہدی (ع) کو «بقیۃ  الله» کہا ہے۔

وعن أبی جعفر أیضا قال : المهدی منا منصور بالرعب ...وصاح صایح من السماء بأن الحق معه ومع أتباعه فعند ذلک خروج قائمنا ، فإذا خرج أسند ظهره إلی الکعبة واجتمع إلیه ثلاث مائة وثلاثة عشر رجلا من أتباعه ، فأول ما ینطق هذه الآیة : ( بقیة الله خیر لکم إن کنتم مؤمنین ) ثم یقول : أنا بقیة الله وخلیفته وحجته علیکم ، فلا یسلم مسلم علیه إلا قال : السلام علیک یا بقیة الله فی الأرض...

ابو جعفر (امام باقر) سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا کہ مہدی ہم ( اہل بیت ) میں سے ہے اور خداوند دشمنوں کے دلوں میں اسکا رعب ڈال کر اسکی مدد کرے گا۔۔۔۔۔ آسمان سے منادی ندا دے گا کہ حق اسکے اور پیروکاروں کے ساتھ ہے، اس وقت ہمارا قائم قیام کرے گا، پس جب وہ ظاہر ہو گا تو خانہ کعبہ کا سہارا لے کر کھڑا ہو گا اور اسکے پیروکاروں میں سے 313 بندے اسکے پاس جمع ہو جائیں گے۔ پس وہ سب سے پہلے اسی آیت کی تلاوت کریں گے: ( بقیة الله خیر لکم إن کنتم مؤمنین ) پھر کہیں گے کہ اے لوگو میں اس زمین پر «بقیة الله» ہوں، خداوند کا خلیفہ اور تم پر اسکی حجت ہوں، پس جو بھی ان پر سلام کرے گا، کہے گا، سلام ہو آپ اے «بقیة الله» ۔۔۔۔۔۔

الفصول المهمة فی معرفة الأئمة - ابن الصباغ مالکی - ج 2 ص 1133- 1135چاپ دار الحدیث

مرحوم آیت الله مرعشی نجفی نے کتاب شرح احقاق الحق میں اسی مطلب کے بارے میں اہل سنت کی کتب سے دوسرے دلائل بھی نقل کیے ہیں :

منهم العلامة الشیخ عبد الهادی الأبیاری فی «العرائس الواضحة» (ص 209 ط القاهرة) قال: وعن أبی جعفر من خبر طویل: أنه إذا خرج أسند ظهره إلی الکعبة واجتمع إلیه ثلاثمائة وثلاثة عشر رجلا من أتباعه، فأول ما ینطق بهذه الآیة : (بقیة الله خیر لکم إن کنتم مؤمنین) ثم یقول: أنا بقیة الله وخلیفته وحجته علیکم فلا یسلم علیه أحد إلا قال : السلام علیک یا بقیة الله فی الأرض ...

ومنهم العلامة المذکور فی جالیة الکدر (ص 209 ط مصر). روی الحدیث عن أبی جعفر بعین ما تقدم عن «العرائس الواضحة ».

ان سے ( کہ جہنوں نے اہل سنت کے علماء سے اس روایت کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے ) ایک علامہ شیخ عبد الہادی آبیاری ہے کہ اس نے اپنی کتاب العرائس الواضحۃ ص 209 طبع مصر میں کہا ہے اور ابو جعفر (امام باقر) سے ایک طولانی روایت نقل ہوئی ہے کہ: جب حضرت مہدی ظہور کریں گے ، تو خانہ کعبہ کا سہارا لے کر کھڑا ہو گا اور اسکے پیروکاروں میں سے 313 بندے اسکے پاس جمع ہو جائیں گے۔ پس وہ سب سے پہلے اسی آیت کی تلاوت کریں گے: ( بقیة الله خیر لکم إن کنتم مؤمنین ) پھر کہیں گے کہ اے لوگو میں اس زمین پر «بقیة الله» ہوں، خداوند کا خلیفہ اور تم پر اسکی حجت ہوں، پس جو بھی ان پر سلام کرے گا، کہے گا، سلام ہو آپ اے «بقیة الله» ۔۔۔۔۔۔

اور ان سے اسی عالم نے کتاب «جالیة الکدر» میں اسی روایت کو کہ جو کتاب العرائس الواضحة میں تھی، کو نقل کیا ہے۔

شرح إحقاق الحق - السید المرعشی - ج 13 - ص 332

ملا محسن فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج 2، ص 468

قرآن میں یہ عبارت سورہ ہود میں مذکور ہے، جہاں حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو خداوند متعال کی بندگی اور پرستش کی تلقین کرتے ہیں اور فساد اور برائی سے منع کرتے ہیں، بعد ازاں فرماتے ہیں:

بَقِیَّةُ اللّهِ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ،

جو کچھ ذخیرہ خدا کی طرف باقی ہے وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم با ایمان ہو تو،

سورہ ہود آیت 86

لہذا اگرچہ اس آیت کا معنی و مفہوم حضرت شیعب (ع) کا اپنی قوم سے خطاب کرنا ہے، لیکن اس کا اعلی ترین مصداق حضرت مہدی (ع) کا وجود مبارک ہے۔

مفسرین نے بَقِیَّةُ اللّهِ کو پیمانہ بھرا رکھنے یا ناپ تول کے آلے اور میزان یا ترازو کے عدالت کے مطابق رکھنے سے جوڑ دیا ہے اور کہا ہے کہ بقیۃ اللہ یعنی وہ جو صحیح طور پر پیمانہ کرنے، تولنے اور ناپنے کے بعد تمہارے لئے باقی رہے یا جو کچھ خداوند متعال اس کے بعد تمہارے لئے باقی رکھے وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم کم فروشی سے کام لو۔

 اہل سنت کے بزرگ مفسر زمخشری نے بَقِیَّةُ اللّهِ کو اس حلال مال سے تفسیر کیا ہے جو مال حرام سے اجتناب کے بعد باقی رہتا ہے تاہم وہ یہ احتمال بھی دیتا ہے کہ ممکن ہے بَقِیَّةُ اللّهِ سے مراد وہ طاعات اور عبادات ہوں جو اللہ کے پاس باقی باقی رہتی ہیں۔

زمخشری، کشاف، ج2، ص418

لغویوں نے بھی بَقِیَّةُ اللّهِ اور "بقیة" کے لیے تقریبا یہی معانی ذکر کیے ہیں اور یہ معانی بظاہر آیت کے سیاق اور اس آیت میں اس عبارت کے موضوع کے پیش نظر اخذ کیے گئے ہیں۔

شیعہ احادیث میں، اس آیت میں بَقِیَّةُ اللّهِ کو آئمہ سے تاویل کیا گیا ہے۔ علامہ مجلسی ، ابن شہر آشوب کی کتاب مناقب آل ابی طالب سے نقل کرتے ہیں کہ "بَقِیَّةُ اللّهِ خیرلکم نَزَلَت فیهم؛ یعنی آیت بَقِیَّةُ اللّهِ ... آئمہ کی شان میں نازل ہوئی ہے"۔

مجلسی، بحار الانوار، ج24، ص211۔

 علامہ مجلسی اس حدیث پر کہ " آئمہ بَقِیَّةُ اللّهِ ہیں " بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "مراد انبیاء اور اوصیاء میں سے وہ افراد ہیں جنہیں اللہ تعالی لوگوں کی ہدایت کے لئے زمین پر باقی رکھتا ہے؛ یا وہ اوصیاء اور آئمہ جو امتوں کے درمیان انبیاء (ع) کے وارث ہیں۔ وہ "بقیة" کو "من ابقاہ" سمجھتے ہیں یعنی وہ جس کو خداوند متعال نے زندہ اور باقی رکھا ہے۔

مجلسی، بحار الانوار، ج24، ص211۔

بحار الانوار میں ایک روایت منقول ہے کہ جب ایک کچھ لوگوں نے امام محمد باقر علیہ السلام پر شہر کا دروازہ بند کیا تو آپ(ع) نے اپنا تعارف بَقِیَّةُ اللّهِ کے عنوان سے کرایا۔ اس عبارت کی دوسری تفسیر کا تعلق شیعہ اثنا عشریہ کے بارہویں امام(عج) کی طرف پلٹتی ہے: یعنی امام مہدی عجل اللہ تعالی فَرَجَہُ الشریف۔

مجلسی، بحارالانوار ج24، ص212

متعدد روایات منقول ہیں جن کی بنیاد پر بَقِیَّةُ اللّهِ سے مراد امام زمان (عج) ہیں، منجملہ، طبرسی حضرت علی علیہ السلام کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ بَقِیَّةُ اللّهِ سے مراد امام مہدی عجل الله تعالی فَرَجَهُ الشریف ہیں جو غیبت کی مہلت کے اختتام پر ظہور کر کے آئیں گے اور زمین کو جو ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہو گی، کو عدل و انصاف سے مالا مال کریں گے۔

طبرسی، احتجاج، ج1، ص252

علامہ مجلسی، کتاب الکافی کے حوالے سے لکھتے ہیں: امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا گیا کہ بعض لوگ امام مہدی علیہ السلام کو امیر المؤمنین کہہکر پکارتے ہیں تو آپ(ع) نے فرمایا: یہ لقب علی بن ابی طالب علیہ السلام کے لئے مختص ہے اور امام مہدی علیہ السلام کو بَقِیَّةُ اللّهِ کہہ کر پکارا کرو اور یوں سلام کرو: "السلام علیک بَقِیَّةُ اللّهِ۔

مجلسی، بحار الانوار، ج24، ص211 ـ 212

بعض علمائے امامیہ نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اس جملے کو نقل کیا ہے کہ:

بقیةٌ من بقایا حجته ،

وہ اللہ کی حجتوں میں سے باقی ماندہ حجت ہیں۔

نهج البلاغه، خطبه، 181

اور اس کو بارہویں امام (عج) سے تفسیر کیا ہے،

قطب راوندی، منهاج البراعة فی شرح نهج البلاغة، ج2، ص722

لیکن نہج البلاغہ کے بعض شارحین نے لفظ "بقیة" کا اطلاق ان علماء اور عرفاء پر کرتے ہیں جو تمام زمانوں میں اللہ کے بندوں کے اوپر اس کی حجت ہیں۔

ابن میثم، شرح نهج البلاغه، ج3، ص393

ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج10، ص96

دعائے ندبہ میں بھی امام مہدی عجّل اللہ تعالی فَرَجَهُ الشریف کا تذکرہ بَقِیَّةُ اللّهِ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔

شیعہ روایات میں منقول ہے کہ حضرت مہدی عجّل اللہُ تعالی فَرَجَهُ الشریف ظہور کے وقت آیت بقیة اللّهِ خَیرٌلَکُم ... کی تلاوت کریں گے اور کہیں گے: "انا بَقِیَّةُ اللّهِ وحُجّتُهَ" (میں اللہ کا محفوظ کیا ہوا ذخیرہ اور حجت ہوں)۔ علامہ مجلسی سے بھی نقل ہوا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام نے خود فرمایا ہے کہ "انا بَقِیَّةُ اللّهِ فی ارضه" (میں ہی زمین میں اللہ کا ذخیرہ ہوں)۔

مجلسی، بحار الانوار، ج24، ص212

مجلسی، بحار الانوار ، ج24، ص212

سابقہ موضوعات کو مد نظر رکھتے ہوئے، عبارت "بَقِیَّةُ اللّهِ" کی آئمہ (ع) سے تفسیر کا سبب بخوبی واضح ہو جاتا ہے اور جہاں بَقِیَّةُ اللّهِ سے مراد حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فَرَجَہُ الشریف ہیں، وہاں بَقِیَّةُ اللّهِ کے بجائے آسانی سے عبارت "فضل اللہ" متبادل کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے، یعنی یہ معنی کہ امام مہدی (عج) انسانوں پر اللہ کا فضل اور اس کی نعمت ہیں۔ یہ تفسیر زیادہ واضح اور زیادہ بہتر ہے علامہ مجلسی کی تفسیر سے جہاں آئمہ کو انبیاء اور اوصیاء کے وارثین اور ان کی طرف سے باقی ماندہ سمجھے جاتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ خداوند نے آئمہ کو بعد کی نسلوں کے لیے ودیعت اور ذخیرہ قرار دیا ہے۔

لہذا جو کچھ کہا گیا، آیت کریمہ: "بَقِیَّةُ اللّهِ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ۔ کی تفسیر حدیث شریف "بَقِیَّةُ اللّهِ خَیْرٌ لَّکُمْ نَزَلَت فِیهِمْ"۔

آیت "بَقِیَّةُ اللّهِ" خَیْرٌ لَّکُمْ" اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

کی تفسیر کچھ یوں ہو گی کہ آئمہ جو خداوند کی برگزیدہ ہستیاں ہیں، تمہارے لیے بہتر ہیں۔ بَقِیَّةُ اللّهِ کا جائزہ امام مہدی عجل اللہ تعالی فَرَجَهُ الشریف کے لقب کے خاص کے عنوان سے، بھی ایسا ہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ لفظ "بقیہ" مذکورہ دو آیات کے علاوہ ایک بار سورہ بقرہ کی آیت 248 میں بھی آیا ہے۔ لہذا بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ "بقیہ" سے مراد فضل و خیر (سرمایہ اور مال) ہے۔

عمران بن واہر نے روایت نقل کی ہے کہ : ایک شخص امام جعفر صادق (ع) کے پاس آیا اور عرض کی، اے میرے مولا : کیا حضرت  قائم   کو  امیر المؤمنین کہہ کر سلام کر سکتے ہیں ؟ امام صادق (ع) نے فرمایا: نہیں ، اللہ تبارک و تعالی نے یہ نام صرف حضرت علی (ع) کے ساتھ خاص کیا ہے۔ ان کے بعد یہ نہیں کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے یہ نام کوئی بھی نہیں رکھے گا مگر کافر۔ پس اس شخص  نے عرض کی کس طرح اپنے آخری مولا پر سلام کریں ؟ تو امام نے فرمایا : کہو: السلام علیک یا بقیۃ اللہ . اور اس کے بعد فرمایا: بقیۃاللہ خیرلکم ان کنتم مومنین.

بقیۃ الانبیاء:

امام زمان (ع) کے القاب میں سے ایک لقب بقیۃ الانبیاء، بھی ہے۔ حافظ برسی حکیمہ خاتون سے اس  طرح روایت نقل کرتے ہیں کہ جب 15 شعبان المعظم کو امام زمان (ع) نے ظہور پر نور فرمایا تو آپ مولود کو لے کر امام حسن عسکری (ع) کے پاس آئیں تو امام نے اپنے اس مولود کو بہت سے ناموں سے پکارا۔ ان میں سے ایک نام بقیہ انبیاء بھی تھا۔

امام مہدی (عجل ﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کو بقیۃ اللہ کا نام دینے کی وجہ:

یہ مبارک لقب "بقیۃ اللہ" قرآن میں آیا ہے۔  اس قرآنی نام کے لیے بہت ساری وجوہات ذکر ہوئی ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق خود خدا کے سوا کوئی چیز باقی رہنے والی نہیں ہے اور صرف وہ چیز باقی رہے گی جس کا اللہ تعالیٰ سے نہایت قریبی اور نہ ٹوٹنے والا تعلق ہو گا:

کُلُّ شَئٍ ھالِکٌ إِلاَّ وَجھہ

ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے وجہ (چہرے) کے

(وَجہَہُ) ہر چیز کے لیے دو جہت یا وجہ ہیں:

1- اس کا ذاتی اور خصوصی وجہ کہ جو فقر، فقد، زوال و تغییر کے سوا کچھ نہیں ہے۔

2- اس کا الٰہی وجہ، یعنی رب کے ساتھ تعلق اور ایک بے نیاز اور قادر سرچشمہ کے ساتھ رابطہ کہ اس لحاظ سے یہ چیز خدا کی آیت شمار ہوتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تغییر و تبدیلی کا تصور نہیں ہے۔ ہر چیز کا وجہ الٰہی جس طرح بھی ظاہر ہو ہمیشہ اس بے نشان کا نشان ہے اور فانی ہونے والا نہیں ہے۔ ہر جہت سے ملاحظہ کریں تو واضح ہو گا کہ وجہ اللہ یعنی وہ چہرہ جو خداوند نے کسی مخصوص شے یا کسی خاص فرد کو عطا کیا ہے، اور یہ چہرہ علم و عدل کی بنیاد پر باقی رہنے والا ہے، یعنی ہر وہ شخص جو ایک طرف سے موحّد اور وظیفہ شناس ہو تو دوسری طرف ان پہچانے ہوئے وظیفوں پر عمل کرے، تو وہ ایسا عالم عادل ہے کہ (وجہ اللہ) میں حصہ رکھتا ہے اور اسی حصہ کی مقدار میں بقاء سے بہرہ مند رہے گا اور قرآن کی تعبیر میں { اولَو بَقِیَّۃ } سے ہے یعنی صاحبان بقا میں سےہے۔

سورہ ہود آیت 116

اس بنیاد پر، چونکہ امام عصر (عجل ﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) تمام انسانی معاشروں کی اصلاح کے لیے، اللہ تعالیٰ کا ذخیرہ ہیں، لہٰذا انہیں بقیۃ اللہ کہتے ہیں، سارے معصومین علیھم السلام رسول اکرم (ص) سے لے کر خاتم اوصیاء امام زمان (عجل ﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) تک بقیۃ اللہ ہیں اور عالم حقیقت میں ہمیشہ باقی اور انسانوں کی تربیت کے لیے موجود ہیں، اسی لیے الٰہی عالموں کے واضح اور مکمل مصداق اور جلوے صرف وہ ہیں جو امیر المؤمنین علی (ع) کی تعبیر میں، جب تک نظام کائنات برقرار ہے وہ بھی باقی ہیں:

العلماء باقون ما بقی الدھر،

جب تک زمانہ باقی ہے علماء بھی باقی رہیں گے،

 نہج البلاغہ، حکمت147

بقیۃ اللہ کون ہے ؟

متعدد روایات میں بقیۃ اللہ کا کامل ترین اور مکمل مصداق حضرت مہدی (عج) کو بیان کیا گیا ہے اور یہ لفظ ان حضرت کے لیے تاویل ہوا ہے۔

بَقِیَّتُ اللَّهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ،

سورہ ھود آیت 86

آیت میں بقیۃ اللہ کے سلسلے سے بہت ساری تفاسیر کی رُو سے حضرت مہدی علیہ السلام کے وجود مبارک کی نشاندہی کی گئی ہے، جیسا کہ کتاب اکمال الدین میں حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت موجود ہے آپ فرماتے ہیں کہ:

سب سے پہلی بات جو حضرت مہدی علیہ السلام اپنے قیام سے پہلے فرمائیں گے وہ یہ آیت ہو گی:

بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم مومنین، اسکے بعد فرمائیں گے: میں ہوں بقیۃ اللہ اور تمہارے درمیان اسکا خلیفہ اسکے بعد انہیں ہر کوئی السلام علیک یا بقیۃ اللہ فی ارضہ  کہتے ہوئے سلام کرے گا۔

یہ صحیح ہے کہ مورد بحث آیت کے مخاطبین قوم شعیب ہیں اور بقیۃ اللہ سے مراد حلال سرمایہ اور الٰہی انعام ہے ، لیکن قرآن کی آیات چاہے جتنی ہی خاص جگہوں کے لیے ہی کیوں نہ نازل ہوئی ہوں، پھر بھی انکے مفاہیم عام ہوتے ہیں جس سے اسکے آثار کو دوسری جگہوں اور کلی و وسیع تر مصادیق پر بھی تطبیق دیا جا سکتا ہے اسی لیے ہر وہ موجود جو نفع بخش ہو اور خدا کی طرف سے اسے باقی رکھا گیا ہو اور وہ خیر و سعادت کا باعث ہو وہ بقیۃ اللہ کے ہی زمرے میں آئے گا۔

پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت مہدی موعود علیہ السلام چونکہ انقلاب اسلامی کے سب سے بڑے رہبر کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں، اس لیے بقیۃ اللہ کے روشن ترین مصادیق میں سے کہلائیں گے اور وہی اس لقب کے سب  سے زیادہ شائستہ حقدار ہیں۔ خاص طور پر اس وقت کہ جب وہی انبیاء و آئمہ علیہم السلام کے بعد فقط وہی عظیم ترین شخصیت ہیں۔

اس کلمے کے بارے میں دو احتمال دئیے جاتے ہیں:

1- یہ کہ «بقیة الله» سے مراد ایک مفہوم کلی و عام ہے اور یہ زمین پر خداوند کی حجت و خلیفہ پر دلالت کرتا ہے، ایسی حجت کہ زمین اسکے وجود سے نہ خالی تھی اور نہ ہی خالی ہو گی۔ اس لفظ امام زمان (ع) پر منطبق کرنا، ایک کلی کو اسکے ایک فرد و مصداق پر منطبق کرنے کے باب سے ہے۔

2- یہ کہ «بقیة الله» سے مراد امام زمان (ع) کا لقب ہے، اس لحاظ سے کہ وہ روئے زمین پر وجود ہیں اور دنیا کے آخر تک باقی رہیں گے۔

ابن سکیت نے کہا ہے کہ: اس جملے کو اس جگہ بولا جاتا ہے کہ انسان کسی کے خیال میں اور اسکے انتظار میں بیٹھا ہو۔ اس معنی کو نظر میں رکھتے ہوئے حضرت مہدی کو «بقیة الله» اس لیے کہتے ہیں کہ وہ خداوند کی حمایت کے زیر سایہ ہیں اور خداوند نے انکو ایسا مقام و مرتبہ دیا ہے کہ لوگ انکے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

معجم مقاییس اللغه، ص 128.

اس وجہ سے کہ مہدی موعود موجود رسول خدا کے قیام کے بعد بزرگترین انقلابی ہوں گے، اسی وجہ سے ان کا مبارک وجود «بقیة الله» کا واضح ترین مصداق ہے، اسکے علاوہ انبیاء اور آئمہ کے بعد فقط باقی رہنے اور باقی بچ جانے والی وہی نورانی اور معصوم ہستی ہے۔

اس آیت میں «بقیة الله» کا معنی ایک حلال سرمائے سے کما‏‏ئی ہوئی درآمد ہے کہ جو کمائی خدا پسند و صد در صد حلال ہے۔

لیکن روایات میں ہر وہ مبارک وجود کہ جو خداوند کے ارادے سے انسانیت و بشریت کے باقی ذخیرہ ہوا ہو، اسے «بقیة الله» کہا جاتا ہے۔

اسی طرح ان جانبازوں کو کہ جو میدان جنگ سے فتح کے ساتھ زندہ و سلامت واپس آتے ہیں، انکو بھی «بَقِیَّتُ اللَّهِ» کہتے ہیں ، کیونکہ وہ خداوند کے ارادے کے ساتھ جنگ میں زندہ و باقی بچے ہیں۔

تفسیر نمونه، ج 9، ص 203

روایات میں ہے کہ حضرت مہدی کے مبارک اسماء میں سے ایک اسم «بَقِیَّتُ اللَّهِ» ہے اور ہم بھی اسی نام کے ساتھ انکی زیارت کرتے ہوئے، سلام کرتے ہیں:

«السلام علیک یا بقیة اللَّه فى ارضه».

البتہ امام زمان (عج) کے علاوہ دوسرے آئمہ معصومین (ع) کو بھی «بقیة اللَّه» کا لقب دیا گیا ہے۔

تفسیر نور، ج‏ 5، ص 369.


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:10
جعفر علی نقوی

بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہم خود قرآن و حدیث پڑھ سکتے

ہیں اور احادیث کی کتابوں سے اور قرآن سے اپنے مسائل کا حل دریافت

کر سکتے ہیں تو پھر ہمیں مجتہدین کی تقلید کی کیا ضرورت ہے؟

جواب

اگر کسی کو علوم قرآن اور علوم حدیث میں اتنی ہی نظر ہو تو پھر وہ شخص خود مجتہد ہے اور اسے واقعی کسی کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اگر کوئی قرآن میں ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، مطلق و مشروط آیات، لغات عرب کا عالم ہو اور حدیث کے مندرجہ ذیل علوم کا ماہر ہوتو پھر واقعا اس پر سے تقلید ساقط ہی ہو جائے گی اور وہ علوم احادیث درج ذیل ہیں جن کو مجتہد بننے کے لئے حاصل کرنا ضروری ہے۔

1 محدث کی صداقت کا علم

2 اسناد حدیث کا علم

3 حدیث عالی کا علم

4 حدیث نازل کا علم

5 روایات موقوفہ کا علم

6 ان اسناد کا علم جس کی سند پیغمبر اسلام سے ذکر نہ ہو

7 صحابہ کے مراتب کا علم

8 احادیث مرسلہ اور ان کے سلسلے میں پیش کی جانے والی دلیلوں کی معرفت

9 تابعین سے نقل کی گئی احادیث کا علم

10 اسناد مسلسل کا علم

11 احادیث معنعنہ کا علم

12 روایات معضل کا علم

13 احادیث مدرج کی پہچان کا علم

14 تابعین کی شناخت کا علم

15 تباع تابعین کی معرفت

16 اکابر و اصاغر کی معرفت

17 اولاد اصحاب کی معرفت

18 علم جرح و تعدیل کی معرفت

19 صحیح و سقیم کی پہچان

20 فقہ الحدیث کا علم

21 ناسخ و منسوخ احادیث کا علم

22 متن میں جو غریب (نامانوس) الفاظ استعمال ہوں ان کا علم

23 احادیث مشہور کا علم

24 غریب اور نامانوس احادیث کا علم

25 احادیث مفرد کی پہچان کا علم

26 ان لوگوں کی معرفت جو حدیث میں تدلیس کر دیتے ہیں

27 حدیث کی علتوں کا پہچاننا

28 شاذ روایات کا علم

29 پیغمبر کی ان حدیثوں کا جانچنا جو دوسری احادیث سے معارض نہ ہو

30 ان حدیثوں کی معرفت جن کا کوئی رخ کسی رخ سے معارض نہ ہو

31 احادیث میں الفاظ زائد کی معرفت

32 محدیثین کے مذہب کی اطلاع

33 متون کی تحری غلطیوں سے آگاہی

34 مذاکرہ حدیث کا جانچنا اور مذاکرہ کرتے ہوئے راستگو کی معرفت

35 اسناد میں محدثین کی تحریری غلطیوں کی اطلاع

36 صحابہ، تابعین اور ان کے بھائیوں،بہنوں  کی عصر حاضر تک معرفت

37 ان صحابہ، تابعین،تباع تابعین کی معرفت جن میں سے بس ایک راوی نے روایت کی ہو

38 ان صحابہ تابعین اور ان کے پیرئووں میں سے جو راوی ہیں عصر حاضر تک ان کے قبائل کی معرفت

39 صحابہ سے عصر حاضر تک کے محدثین کے انساب کا علم

40 محدثین کے ناموں کا علم

41 صحابہ، تابعین، تباع تابعین اور عصر حاضر تک ان کے پیرئوں کی نیت کا جاننا

42 روایان حدیث کے وطن کی پہچان

43 صحابہ، تابعین، تباع تابعین کی اولاد اور ان کے غلاموں کی معرفت

44 محدثین کی عمر کی اطلاع۔ولادت سے وفات تک

45 حدثین کے القابات کی معرفت

46 ان راویوں کی معرفت جو ایک دوسرے سے قریب ہیں

47 راویوں کے قبائل، وطن، نام، کنیت اور ان کے پیشوں میں متشابہات کی پہچان

48 غزوات پیغمبر ان کے ان خطوط وغیرہ کا علم جو انہوں نے بادشاہوں کو تحریر فرمائے

49 اصحاب حدیث نے جن ابواب کو جمع کیا ہے ان کی معرفت اور اس بات کی جستجو کہ ان میں سے کون سا حصہ ضائع ہو گیا ہے

50 اس کے علاوہ احادیث کی مندرجہ ذیل اقسام کا علم بھی ہونا چاہئیے۔

1صحیح       2 حسن

3 ضعیف     4 مسند

5 متصل     6 مرفوع

7 موقوف   8 مقطوع

9 مرسل    10 معضل 11 تدلیس  12 شاذ

13 غریب   14 معنعن

15 معلق   16 مفرد

17 مدرج   18 مشہور

19 مصحف 20 عالی

21 نازل    22 مسلسل

23 معروف 24 منکر

25 مزید    26 ناسخ

27 منسوخ  28 مقبول

29 مشکل 30 مشترک

31 موتلف  32 مختلف

33 مطروح  34 متروک

35 مول     36 مبین

37 مجمل   38 معلل

39 مضطرب 40 مہمل

41مجہول   42 موضوع

43 مقلوب  44 حدیث ماثور

45 قدسی   46 عزیز

47 زائد الثقہ 48 موثوق

49 متواتر

اب اگر کوئی شخص تقلید نہ کرنا چاہے تو ٹھیک ہے وہ ان تمام علوم کوحاصل کرے اور احادیث و قرآن سے اپنے مسائل کا حل نکالے اور جو ایسا نہ کرسکے  یا اس کے پاس اتنا وقت نہ ہو تو اس کے پاس سوائے تقلید کرنے کا اور کونسا راستہ رہ جاتا ہے.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:09
جعفر علی نقوی



کچھ حضرات سوال کرتے ہیں کہ توضیح المسائل پرانے دور میں نہیں تھی تو اب کیوں،

پھر کہتے ہیں کہ فلاں فقیہ نے توضیح نہ لکھی فلاں نے نہیں تو آج کل کے مراجع کیوں لکھتے ہیں؟

شروعاتی صدیوں میں توضیح المسائل اس شکل و صورت میں بیشک نہیں تھی جس طرح آج ہے کیونکہ ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی، عوام میں اکا دکا بندہ ہی پڑھا لکھا نظر آتا تھا. سو عوام چونکہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی تو زیادہ تر گفتگو کے ذریعے ہی سوال جواب کا سلسلہ ہوتا. خط و کتابت بس علماء کے ہی بس کی بات تھی.

 لیکن فقہی رسالے مخلتف روایات کے نسخوں کی صورت میں دستہ بند موجود تھے، ھر دستے کو "اصل" کہا جاتا تھا. علماء ان سے استفادہ کرتے تھے.

اس کے بعد شیخ مفید علیہ رحمہ ''متوفی ۴۱۳'' نے *"المقنعہ"* لکھی اور پہلی بار شیعوں کو ایک ایسی فقہی کتاب ملی جس میں آئمہ "ع" روایات نہیں تھی اور مسائل کا جواب فتووں کی صورت میں تھا.  جیسے کے قبلے رخ کا تعین، مجبوری میں نجس پانی پینا وغیرہ.  یہ کتاب باعث بنی کے عوام کے مسائل کا آسان حل پیش کیا جا سکے.
 
اس کے بعد شیخ طوسی علیہ رحمہ نے بھی اسی طرز پر اپنی کتاب *"النھایہ"* لکھی جو فقہی مسائل کے جوابات پر مبنی تھی. اس کے بعد اسی بزرگوار نے *"المبسوط"* بھی لکھی.
شیخ طوسی "رض" کے انتقال اور حوزہ علمیہ بغداد کے سقوط کے دو صدیاں بعد حلہ کے حوزہ میں فقہ تشیع نے زور پکڑا اور اس کے بعد فقہ امامی ترقی کرتی کرتی نجف و اصفہاں کے حوزہ ھائے علمیہ سے ہوتی قم کے حوزہ علمیہ تک پہنچی. یہاں شیخ بہائی کی *"جامع عباسی"* کو پہلی توضیح المسائل کہا جا سکتا ہے. اس کے بعد آیت اللہ  بروجردی "رض" کے دور میں علامہ کرباسچیان نے باقائدہ طور پر *توضیح المسائل* مرتب کی اور آیت اللہ بروجردی "رض" کی اجازت سے چھپوائی.

 فقہ وہ واحد علم کی شاخ ہے جس نے اتنا مسلسل اور کٹھن سفر طے کیا ہے. اتنی کتب کسی موضوع پر نہیں جتنی فقہ پر ہیں اور مسلسل علماء و فقہاء نے عوام کے مسائل کا حل بتا کر ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا کی.
 
آج جب ہمارا بچہ بچہ پڑھا لکھا ہے تو فقہی مسائل کے حل کیلئے ایک جامع کتاب بنام *توضیح المسائل* یا استفتات کے جوابات مختلف زبانوں میں چھپوا کر عوام کی دہلیز تک پہنچانا ممکن ہے تو اس کی مخالفت صرف و صرف ایک کوڑ مغز انسان ہی کر سکتا ہے اور پاک و ہند میں یہ کوڑ مغز موجود ہیں اس لیئے سوال کرتے ہیں شیخ مفید کے دور میں تو ضیح المسائل کیوں نہیں تھی، شیخ کلینی کے دور میں توضیح کیوں نہیں تھی.

*نکتہ*
اگر تمہارا معیار یہ ہی ہے کہ ہر وہ چیز لینی ہے جو آئمہ علیہم السلام کے دور میں تھی یا کسی عالم کے دور میں تو کنگن، کلاوے، شہنشاہ فضائل، بحرالمصائب، نیاز کی دیگیں، اسٹیل کے علم، سبیلیں، عماریاں، تابوت، جلوس، انگوری تابوت، چپ تابوت، بولتا تابوت، آگ کا ماتم ... سب تو آئمہ علیھم السلام کے دور میں نہیں تھا تو کیا یہ بھی چھوڑ دیں گے؟  🤔

*توضیح المسائل* حلال و حرام کا گھر بیٹھے پتہ لگانے کیلئے اللہ تعالٰی کی ایک عظیم نعمت ہے. جب لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے اور چھپائی اتنی وافر مقدار میں ممکن نہیں تھی تو یہ اس شکل میں نہ تھی اب جب پرنٹنگ پریس نے ترقی کر لی عوام بھی پڑھی لکھی ہے تو کیوں نہ ایسی کتاب ہو جو عوام کیلئے آسانی پیدا کرے.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:08
جعفر علی نقوی

🔴موضوع:تقلید اور اس کے شرائط🔴

🔘تقلید کرنے کے لیے درج ذیل امور کو خیال رکھنا ضرورى ہے :
۱) تقلید سے مراد فقہى اصطلاح ہے کہ جو شخص مجتہد یا صاحب احتیاط نہیں ہے اور اپنے مسئلہ کا حل منابع استنباط سے نہیں لے سکتا اس کے لیے ضرورى ہے کہ با شرائط مجتہد کے فتاوى کے مطابق عمل کرے۔ اگر مجتہد باشرائط نہ ہو تو تقلید فقہى جنم نہیں لیتى ۔

۲) مجتہد میں درج ذیل شرائط کا ہونا ضرورى ہے :
🔹 مرد ہو
🔹 عاقل ہو
🔹 بالغ ہو
🔹 زندہ ہو
🔹 حلال زادہ ہو
🔹 شیعہ اثنا عشرى ہو
🔹 عادل ، غیر عادل کى تقلید باطل ہے
🔻ضرورى ہے کہ جس کى تقلید کى جائے وہ مقلِّد یعنى تقلید کرنے والے کى نظر میں تمام مجتہدین سے زیادہ علم رکھتا ہو ، یعنى اَعْلَم ہو ۔

۲) مجتہد میں ان خصوصیات کا علم حاصل کرنے کے درج ذیل طریقے ہیں :
🔹انسان کو خود یقین ہو کہ فلاں مجتہد اعلم اور با شرائط ہے ، یہ تب ممکن ہے کہ انسان خود صاحب علم ہو۔ اس لیے اس طریقہ کو علماء اختیار کر سکتے ہیں ۔

🔹 دو عالم اور عادل اشخاص جو مجتہد اور اعلم ہونے کو پہچاننے کى صلاحیت رکھتے ہیں وہ گواہى دیں اور انسان کو ان کى گواہى سے اطمینان حاصل ہو جائے کہ فلان شخص با شرائط مجتہد اور اعلم ہے ۔

🔹 انسان کسى عقلائى طریقے سے علم و اطمینانِ قلبى حاصل کر لے کہ فلاں مجتہد با شرائط اور اعلم ہے ۔ مثلا اہل خبرہ یعنى مجتہدین اور با صلاحیت عادل علماء کى وہ کمیٹى یا جماعت جو اعلم با شرائط مجتہد کو پہچاننے کى صلاحیت رکھتے ہیں وہ کمیٹى کسى کا اعلان کرے ۔

🔻 دوسرا اور تیسرا طریقہ عوام الناس اختیار کر سکتے ہیں ۔ اس وقت مجتہدین اور عادل علماء میں دو مجتہدین شرائط اور اعلمیت کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں :
۱) رہبر معظم آیت اللہ العظمى سید على خامنہ اى دام ظلہ العالى ، یہ واحب مرجع تقلید ہیں جو میدان جہاد میں خاک و خون کا جہاد کرتے رہے ہیں اور سیاست اور دشمن کے خلاف مقاومت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔

۲) آیت اللہ العظمى سید على حسینى سیستانى

🔻 جو اعمال تقلید کے بغیر بجا لائے ہیں وہ اگر اس با شرائط مجتہد جس کى آپ نے تقلید کى ہے اس کے مطابق ہیں تو وہ اعمال صحیح ہیں اور اگر اعمال اس کے مطابق نہیں ہیں تو اپنے مجتہد سے سابقہ اعمال جو تقلید سے پہلے انجام پائے کے بارے میں دریافت کرنا ضرورى ہے ۔

☀️البر علمی و فکری مرکز☀️

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:07
جعفر علی نقوی

🔵 تقلید کی ضرورت 🔵

عقلًا اور شرعًا جو شخص آیات اور روایات سے حکم شرعى کا استنباط نہیں کر سکتا اسے ’’تقلیدِ فقہى‘‘ کرنا ضرورى ہے.
جو شخص خود تقلید کے مرحلہ میں ہو اور بعض ایسى روایات پیش کرے جو اس کے خیال میں قابلِ بحث ہیں، اس کى مثال اس مریض کى سى ہے جسے ڈاکٹر نے علاج کا نسخہ دیا ہو اور وہ طب کے کورس کى کتابوں سے کوئى ایک پیراگراف نکال کر لے آیا ہو اور ڈاکٹر سے کہے کہ یہاں کچھ لکھا ہے اور آپ نے کچھ اور بتایا ہے!! یقینا ڈاکٹر کے لیے تفصیل کے ساتھ اس مریض کو کچھ سمجھانا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ طب کى علمى اصطلاحات سے بھى نابلد ہے اور تحقیقى دنیا سے بھى آشنا نہیں ہے. یہى صورتحال یہاں ہے.

🔹ہم فتوى کے مقابلے میں صرف اس وقت کچھ پیش کر سکتے ہیں جب خود صاحبِ اجتہاد ہوں اور ان تمام باریکیوں کو سمجھتے ہوں. مثلا اگر ایک شخص نے مطلوبہ علومِ دینى حاصل کیے ہوں اور تمام علوم پر کامل دسترس رکھتا ہو اس مرحلہ کے بعد ایک روایت سے ایک حکم لینے کے لیے عملى طور پر درج ذیل امور سے گزرنا ضرورى ہے:
1) اس موضوع کى تمام روایات کو جمع کرے.
2) روایات کى سندى تحقیق کرے.
3) روایات کے ظاہر کو دیکھے کہ ظاہرِ روایت کیا معنى دے رہى ہے.
4) یہ دیکھے کہ ان روایات میں سے کس کى دلالت حجت ہے اور کس کى نہیں.
5) روایات میں عام و خاص، مطلق و مقیّد، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، ظاہر نص ۔۔۔ ان سب قواعد کا خیال رکھے.
6) قواعد فقہیہ اور اصولیہ اپنے مبنى کے تحت جارى کرے.
7) فقہاءِ عظام کے اقوال کو مدنظر رکھے اور ان پر دقّت کرتے ہوئے استدلالى نوعیت کو جانے.

🔹ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہم ایک حکم شرعى بیان کر سکتے ہیں. اس لیے چند روایات ذکر کر کے فتوٰی کے مقابل انہیں پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ روایات واقعًا امام علیہ السلام سے صادر ہوئى ہیں یا نہیں؟ اس کا جاننا ضرورى ہے۔ جب ثابت ہو جائے کہ فلاں فلاں روایت صحیح ہے اور فلاں ضعیف تو صحیح کے معنى پر قواعد جارى کیے جائیں گے۔

🔻پس ہم کسى فتوٰی کے مقابل اس طرح سے روایت کو پیش نہیں کر سکتے۔ بلکہ ضرورى ہے کہ روایت کو بیان کر کے کاملًا تفصیلى بحث کریں۔ اس لیے آپ ان روایات کے ذیل میں مندرجہ بالا نکات کى روشنى میں تفصیلى بحث کریں تو سلسلہِ بحث آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہمارے اوپر تقلید کرنا ضرورى ہے.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:06
جعفر علی نقوی

🔵تقلید کیوں واجب ہے 🔵

ہم معصومین علیھم السلام کے زمانے میں اپنی شرعی ذمّہ داریاں ڈائریکٹ معصوم علیہ السلام سے لیتے ہیں ۔لیکن زمانہ غیبت میں کیا ہماری شرعی ذمّہ داریاں معاف ہیں؟

ہرگز نہیں کیونکہ قرآن کی آیات اور احادیث متواترہ اور عقل یہ سب شرعی ذمّہ داریوں کے جاری رہنے کا کہتے ہیں. اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ تکالیف شرعیہ صرف اس کے لیے نہیں ہیں جو معصوم علیہ السلام کو درک کرتا ہو. اس لیے ہم آزاد نہیں ہیں کہ جس طرح ہمارا دل چاہے کرتے پھریں بلکہ ہم شرعی تکالیف کے پابند ہیں. جب ہم شرعی تکالیف کے پابند ہیں تو پھر ہمیں کس طرح پتہ چلے کہ کون سی تکلیف ہمارے اوپر واجب ہے اور کون سی حرام اور کون سی حلال ہے   تاکہ اس پر عمل کرکے الله عزّوجلّ کے سامنے اپنی شرعی تکلیف کو ادا کریں.
تو اپنی شرعی تکالیف جاننے کے لیے ہمارے پاس چند اختیارات ہیں..

1⃣⬅️  یا تو ہم میں سے ہر کوئی مجتھد بن جائے اور قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی شرعی تکالیف کو معلوم کرے اور ان  پر عمل کرے.

 2⃣⬅️ یا ہم کسی مجتھد کی طرف رجوع کریں جو قرآن وسنت کی روشنی میں ہمیں الله کے احکام بتاتا ہو اس شرط کے ساتھ کہ وہ مجتھد زیادہ علم والا ہو، متقی اور پرہیز گار شخص ہو.

3⃣⬅️ یا ہم  مجتھدین کی اخذ کردہ شرعی تکالیف کے درمیان احتیاط پر عمل کریں.

⏪اس لیے اگر آپ کسی کی تقلید نہیں کرنا چاہتے تو یا آپ خود مجتھد بن جائیں۔ یا مجتھدین کے بتائے ہوئے احکامات میں احتیاط کریں. اور اگر یہ دونوں کام آپ نہیں کر سکتے تو جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کریں. کیونکہ تقلید کا معنی یہ نہیں ہے کہ آپ مجتھد کی اطاعت کر رہے ہیں مجتھد تو آپ کو الله کا حکم بتاتا ہے اطاعت آپ الله کی کر رہے ہیں.
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کی تقلید کرتے ہیں تو ہمارا ان سے سوال ہے کہ ہمیں بھی بتائیں فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہاں ملتے ہیں. سالوں سے دنیا ان کے انتظار میں تڑپ رہی ہے.
اللھم عجل لولیک الفرج

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:05
جعفر علی نقوی


💬 حکومت اسلامی  کی کیا ذمه داری هے.. اور اسکے مقابلے میں لوگوں کی کیا ذمه درای هے...❓❓❓❓ 🤔

جواب )  حکومت اسلامی کی کلی طور پر سب سے اساسی اور بنیادی ذمےداری یه هے که لوگوں سے کیے هوۓ وعدوں  کو وفاکرے. اپنے اختیارات کو استعمال کرتے هوۓ تمام وسائل بروۓکار لاۓ،اپنی تمام تر کوششیں لوگوں کی خدمت کیلۓ صرف کرے ...  حکومت اسلامی کی کچھ ذمےداریاں ہم قارئین کی خدمت میں بیان کررهے هیں❗️❗️❗️❗️

👈🏾 قومی عزت ، غیرت اور حمیت  کو برقرار رکهے اور هر قسم کی ظالم اور جابر  طاقتوں کی نفی کرے. 💭
👈🏾 دینی ، ثقافتی اور اخلاقی پهلوؤں میں رشد و تکامل پیدا کرنے کے لۓ سعی اور کوشش کرے.. 💭
👈🏾ملکی سالمیت کیلۓ داخلی اور خارجی امنیت کو بر قرار کرے.. 💭
👈🏾 لوگوں کے لیۓ رفاهی ، فلاحی کاموں کو انجام دے ، مادی ضروریات کا خیال رکهے.. ❗️❗️
👈🏾حکومت  اسلامی کا رویه لوگوں کے لیے خاشع و خاضع هو.. 💭

* حکومت اسلامی کے بارے میں لوگوں کی ذمےداریاں
 
👈🏾  لوگ حکومت اسلامی ، اسکے وزرءا ، اداروں  اور اراکین کی  بھر پور حمایت کریں ❗️❗️
👈🏾 اپنی مخلص آراء سے حکومت کو آگاه کریں اور ھر مشوره دیں  جو حکومت اسلامی کی تقویت کا باعث بنے ....❗️❗️

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:00
جعفر علی نقوی



ولایت فقیه کی آسان اور ساده زبان میں تعریف کریں ؟
🤔💭
جواب)  ولایت فقیه یعنی ایسے انسان کی حاکمیت جو تفکر اور ایمان میں اپنے معاشرے میں سب سے بهتر هو..❗️❗️.. معاملات کو بهتر جانتا هو..... ایسا انسان هی اپنے معاشرے کو فلاح و نجات اور مادی اور معنوی تکامل تک پهنچا سکتا هے.❗️❗️....

فقیه وه هے جو دین کو پهچانتا هو اس راستے کو پهچانتا هو جو دین نے لوگوں کے لیے مشخص کیا هے...... تاکه اس راستے پر عمل پیرا هو کر  خوش بخت ،☺️ سعادتمند❤️  بن سکے .....

        فقیه یعنی ایسے انسان کی حکومت جسکے هر فیصلے میں منطق🤔 اور عقلی منابع موجود هوں......
    
        فقیه یعنی معاشرے کو طاقت☄️💫 ، نشاط و تازگی بخشنے والا ، معاشرے کو فعال رکهے.......  فقیه ایک ایسا مرکز 🏩هے جس سے تمام 🌧چشمے گذر کر معاشرے تک پهنچتے هوں    ....... تمام قوانین  کو اجرا کرنا جانتا هو.   تمام لوگ اسکے پیچهے چلیں🚶🚶🚶🚶🚶 ...........  تاریکیوں میں معاشرے    کو روشن راهوں کی طرف لیجا سکے.... برگرفته از کتاب سایه عظمی ولایت........

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:35
جعفر علی نقوی


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

*💡ولایت فقیہ پر عقلی دلیل💡*

🖊ہماری فقہ میں  متفقہ علیہ امر ہے کہ کسی بھی حکم شرعی کو چار طرح سے استناد کیا جا سکتا ہے.
۱- قرآن
۲- سیرت معصومین
۳- اجماع
۴- عقل  

ان میں سے ایک سے بھی کسی چیز کا حکم ثابت ہوجائے تو وہ چیز شریعت کا حصہ بن سکتی ہے.

🔎اب ہم سب جانتے ہیں کہ انبیاء (ع) کے بعد ولایت آئمہ (ع) کے اختیار میں آئی آئمہ (ع) جب امام مہدی (عج) غیبت میں گئے تو پیچھے اپنے نواب بنا کر یہ ثابت کر گئے کہ آئمہ (ع) کے وارث یہ فقہاء ہیں.

🖇اب جب حکومت کی بات آتی ہے تو یا تو حاکم نبی ہو، یا امام معصوم ہو. اچھا اگر یہ دونوں نہ ہوں تو عقل کیا کہتی ہے، ظاہر ہے یہ ہی کہ جو ان سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہو وہ ہی ہو. یعنی وہ علوم دین پر مہارت رکھتا ہو. عادل ہو، عقل و شعور رکھتا ہو، شجاع ہو...
تو ایسے میں جب معصوم امام کی ظاہری حکومت ممکن نہیں ہے تو کیا ہم حکومت سے دستبردار ہوجائیں کہ نہیں صاحب چاہیئے تو معصوم کی حکومت نہیں تو بس!
🔓ایسا کرنا عقل کے خلاف ہوگا کیونکہ قانون ہے کہ اگر ۱۰ لوگ سمندر میں ڈوب رہے ہوں اور صرف سات کو بچایا جا سکتا ہے تو ان کو بچایا جائے یہ نہیں کہ بچانا ہے تو پورے دس کو ہی بچانا ہے ورنہ نہیں.

سو جب عقل کہتی سے ولایت فقیہ یعنی ایک فقیہ کی حکومت ثابت ہوگئی تو اب آپ اس کا انکار نہیں کر سکتے.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:34
جعفر علی نقوی