معارف قرآن و اھل البیت (ع)

معارف قرآن و اھل البیت (ع)

۲۲ مطلب با موضوع «فقه» ثبت شده است

🎓ولایت فقیہ🎓
⁉️کہا جاتا ہے کہ ولایت فقیہ امام خمینیؒ  کی ایجاد ہے اس سے پہلے ولایت فقیہ کا تصور اسلام میں نہ تھا ؟؟ کیا یہ بات صیح ہے ؟؟؟
📍ولایت فقیہ ، شیعہ فقہ کا ایک بہت اہم جز ہے ۔ جن کو فقہ کا علم نہیں انہیں اس بات کا تصور ہے کہ یہ امام خمینیؒ  کی ایجاد ہے ۔ قدیمی شیعہ علماء بھی ولایت فقیہ کو تسلیم کرتے ہیں ۔ امام خمینیؒ  نے اس ولایت فقیہ کے نظریے کو آج کی دنیا اور سیاست کے مطابق ڈھال کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس کو ایسا سادہ اور عملی زبان میں بیان کیا کہ ہر صاحب نظر اس نظریے کو سمجھ سکے ۔

📍مرحوم میرزا  شیرازی نے بھی اپنے دور میں تمباکو کے حرام ہونے پر جو فتویٰ لگوایا اسکی جڑیں سیاسی تھیں اور باقی فقہاء اور علماء پر بھی اس پر عمل کرنا واجب تھا ۔
📍اسی طرح میرزا محمد تقی شیرازی نے بھی جہاد اور دفاع کا حکم دیا ۔ جو کے ایک حکومتی حکم تھا ۔ ان شخصیات نے اس وقت مسلمانوں کی صلاح کیلئے یہ سیاسی احکام لاگو کروائے باقی علماء جو ولایت فقیہ کی فقہی ہونے سے موافق ہیں ان میں مرحوم کاشف الغطاء ، مرحوم نراقی اور مرحوم آقا نائینی ہیں ۔

🔎مرحوم کاشف الغطاء ⬅️ ولایت کے چار رتبے ہیں اور تیسرا وه ہے جس میں مجتھد کی ولایت هوتی هےاور وه نائب امام هےاور دلائل سے ثابت هوتا هےکه فقیه معاشرے کے تمام عمومی امور اور معاشرے کی نظام دهی کے لیے ولایت رکھنا هے (الفردوس الاعلی ..ص 54)

🔎مرحوم نراقی ⬅️جهاں جهاں پیغمبر ص اور آئمه کی ولایت کا اطلاق ہوتا ہے (جو اسلام کے محافظ هیں)  فقیه بھی اسی دائره کار میں ولایت اور اختیار رکھتا ہے
(عوان الایام . عائده تحدید ولایه الحاکم ص 178 -188)
📝انصاف کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فقہ شیعہ میں ولایت فقیہ کی جڑیں محکم اور مضبوط ہیں ۔ ہاں اسکی جزئیات میں علماء کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر قدیم زمانے میں علماء نے اسے اہمیت نہیں دی تو اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے اور لوگ اسے قبول کرنے کی آمادگی نہیں رکھتے ہیں لیکن جب آپ ان علماء کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو کوئی عالم بھی اسلام کے علاوہ کسی حاکمیت کو قبول نہیں کرتا ہے ۔
📋صاحب جواہر نے اپنی کتاب جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام ج 21 میں ولایت فقیہ کو ولایت کے باب میں اسے بیان نہیں کیا بلکہ جہاد اور اسکے متعلق ابواب میں ولایت فقیہ کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب جواہر بھی ولایت فقیہ کے دائرہ کار کو وسیع تسلیم کرتے ہیں ۔
کسی بھی اسلامی معاشرے کو کمال تک پہنچنے کے لیے ولی فقیہ کی ضرورت الزامی ہے اور قدیم سے تمام علماء شیعہ کا اس پر اتفاق ہے ۔
🔎محمد  بن نعمان 413 ھ۔ق شیخ مفید ⬅️ جب بھی کسی معاشرے پر سلطان عادل ( امام معصوم ؑ ) کا وجود نہ ہو ۔ فقیہ جو اہل حق ، عادل، تجربہ کار اور صاحب عقل و فضل ہو، اس سلطان عادل کے فرائض کو اپنے دوش پر سنبھالے ۔
المقنہ ص 95
منبع: کتاب ولایت فقیہ،کانون عزت و اقتدار
سازمان بسیج مستضعفین

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 September 17 ، 23:24
جعفر علی نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 17 ، 17:07
جعفر علی نقوی

بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہم خود قرآن و حدیث پڑھ سکتے

ہیں اور احادیث کی کتابوں سے اور قرآن سے اپنے مسائل کا حل دریافت

کر سکتے ہیں تو پھر ہمیں مجتہدین کی تقلید کی کیا ضرورت ہے؟

جواب

اگر کسی کو علوم قرآن اور علوم حدیث میں اتنی ہی نظر ہو تو پھر وہ شخص خود مجتہد ہے اور اسے واقعی کسی کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اگر کوئی قرآن میں ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، مطلق و مشروط آیات، لغات عرب کا عالم ہو اور حدیث کے مندرجہ ذیل علوم کا ماہر ہوتو پھر واقعا اس پر سے تقلید ساقط ہی ہو جائے گی اور وہ علوم احادیث درج ذیل ہیں جن کو مجتہد بننے کے لئے حاصل کرنا ضروری ہے۔

1 محدث کی صداقت کا علم

2 اسناد حدیث کا علم

3 حدیث عالی کا علم

4 حدیث نازل کا علم

5 روایات موقوفہ کا علم

6 ان اسناد کا علم جس کی سند پیغمبر اسلام سے ذکر نہ ہو

7 صحابہ کے مراتب کا علم

8 احادیث مرسلہ اور ان کے سلسلے میں پیش کی جانے والی دلیلوں کی معرفت

9 تابعین سے نقل کی گئی احادیث کا علم

10 اسناد مسلسل کا علم

11 احادیث معنعنہ کا علم

12 روایات معضل کا علم

13 احادیث مدرج کی پہچان کا علم

14 تابعین کی شناخت کا علم

15 تباع تابعین کی معرفت

16 اکابر و اصاغر کی معرفت

17 اولاد اصحاب کی معرفت

18 علم جرح و تعدیل کی معرفت

19 صحیح و سقیم کی پہچان

20 فقہ الحدیث کا علم

21 ناسخ و منسوخ احادیث کا علم

22 متن میں جو غریب (نامانوس) الفاظ استعمال ہوں ان کا علم

23 احادیث مشہور کا علم

24 غریب اور نامانوس احادیث کا علم

25 احادیث مفرد کی پہچان کا علم

26 ان لوگوں کی معرفت جو حدیث میں تدلیس کر دیتے ہیں

27 حدیث کی علتوں کا پہچاننا

28 شاذ روایات کا علم

29 پیغمبر کی ان حدیثوں کا جانچنا جو دوسری احادیث سے معارض نہ ہو

30 ان حدیثوں کی معرفت جن کا کوئی رخ کسی رخ سے معارض نہ ہو

31 احادیث میں الفاظ زائد کی معرفت

32 محدیثین کے مذہب کی اطلاع

33 متون کی تحری غلطیوں سے آگاہی

34 مذاکرہ حدیث کا جانچنا اور مذاکرہ کرتے ہوئے راستگو کی معرفت

35 اسناد میں محدثین کی تحریری غلطیوں کی اطلاع

36 صحابہ، تابعین اور ان کے بھائیوں،بہنوں  کی عصر حاضر تک معرفت

37 ان صحابہ، تابعین،تباع تابعین کی معرفت جن میں سے بس ایک راوی نے روایت کی ہو

38 ان صحابہ تابعین اور ان کے پیرئووں میں سے جو راوی ہیں عصر حاضر تک ان کے قبائل کی معرفت

39 صحابہ سے عصر حاضر تک کے محدثین کے انساب کا علم

40 محدثین کے ناموں کا علم

41 صحابہ، تابعین، تباع تابعین اور عصر حاضر تک ان کے پیرئوں کی نیت کا جاننا

42 روایان حدیث کے وطن کی پہچان

43 صحابہ، تابعین، تباع تابعین کی اولاد اور ان کے غلاموں کی معرفت

44 محدثین کی عمر کی اطلاع۔ولادت سے وفات تک

45 حدثین کے القابات کی معرفت

46 ان راویوں کی معرفت جو ایک دوسرے سے قریب ہیں

47 راویوں کے قبائل، وطن، نام، کنیت اور ان کے پیشوں میں متشابہات کی پہچان

48 غزوات پیغمبر ان کے ان خطوط وغیرہ کا علم جو انہوں نے بادشاہوں کو تحریر فرمائے

49 اصحاب حدیث نے جن ابواب کو جمع کیا ہے ان کی معرفت اور اس بات کی جستجو کہ ان میں سے کون سا حصہ ضائع ہو گیا ہے

50 اس کے علاوہ احادیث کی مندرجہ ذیل اقسام کا علم بھی ہونا چاہئیے۔

1صحیح       2 حسن

3 ضعیف     4 مسند

5 متصل     6 مرفوع

7 موقوف   8 مقطوع

9 مرسل    10 معضل 11 تدلیس  12 شاذ

13 غریب   14 معنعن

15 معلق   16 مفرد

17 مدرج   18 مشہور

19 مصحف 20 عالی

21 نازل    22 مسلسل

23 معروف 24 منکر

25 مزید    26 ناسخ

27 منسوخ  28 مقبول

29 مشکل 30 مشترک

31 موتلف  32 مختلف

33 مطروح  34 متروک

35 مول     36 مبین

37 مجمل   38 معلل

39 مضطرب 40 مہمل

41مجہول   42 موضوع

43 مقلوب  44 حدیث ماثور

45 قدسی   46 عزیز

47 زائد الثقہ 48 موثوق

49 متواتر

اب اگر کوئی شخص تقلید نہ کرنا چاہے تو ٹھیک ہے وہ ان تمام علوم کوحاصل کرے اور احادیث و قرآن سے اپنے مسائل کا حل نکالے اور جو ایسا نہ کرسکے  یا اس کے پاس اتنا وقت نہ ہو تو اس کے پاس سوائے تقلید کرنے کا اور کونسا راستہ رہ جاتا ہے.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:09
جعفر علی نقوی



کچھ حضرات سوال کرتے ہیں کہ توضیح المسائل پرانے دور میں نہیں تھی تو اب کیوں،

پھر کہتے ہیں کہ فلاں فقیہ نے توضیح نہ لکھی فلاں نے نہیں تو آج کل کے مراجع کیوں لکھتے ہیں؟

شروعاتی صدیوں میں توضیح المسائل اس شکل و صورت میں بیشک نہیں تھی جس طرح آج ہے کیونکہ ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی، عوام میں اکا دکا بندہ ہی پڑھا لکھا نظر آتا تھا. سو عوام چونکہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی تو زیادہ تر گفتگو کے ذریعے ہی سوال جواب کا سلسلہ ہوتا. خط و کتابت بس علماء کے ہی بس کی بات تھی.

 لیکن فقہی رسالے مخلتف روایات کے نسخوں کی صورت میں دستہ بند موجود تھے، ھر دستے کو "اصل" کہا جاتا تھا. علماء ان سے استفادہ کرتے تھے.

اس کے بعد شیخ مفید علیہ رحمہ ''متوفی ۴۱۳'' نے *"المقنعہ"* لکھی اور پہلی بار شیعوں کو ایک ایسی فقہی کتاب ملی جس میں آئمہ "ع" روایات نہیں تھی اور مسائل کا جواب فتووں کی صورت میں تھا.  جیسے کے قبلے رخ کا تعین، مجبوری میں نجس پانی پینا وغیرہ.  یہ کتاب باعث بنی کے عوام کے مسائل کا آسان حل پیش کیا جا سکے.
 
اس کے بعد شیخ طوسی علیہ رحمہ نے بھی اسی طرز پر اپنی کتاب *"النھایہ"* لکھی جو فقہی مسائل کے جوابات پر مبنی تھی. اس کے بعد اسی بزرگوار نے *"المبسوط"* بھی لکھی.
شیخ طوسی "رض" کے انتقال اور حوزہ علمیہ بغداد کے سقوط کے دو صدیاں بعد حلہ کے حوزہ میں فقہ تشیع نے زور پکڑا اور اس کے بعد فقہ امامی ترقی کرتی کرتی نجف و اصفہاں کے حوزہ ھائے علمیہ سے ہوتی قم کے حوزہ علمیہ تک پہنچی. یہاں شیخ بہائی کی *"جامع عباسی"* کو پہلی توضیح المسائل کہا جا سکتا ہے. اس کے بعد آیت اللہ  بروجردی "رض" کے دور میں علامہ کرباسچیان نے باقائدہ طور پر *توضیح المسائل* مرتب کی اور آیت اللہ بروجردی "رض" کی اجازت سے چھپوائی.

 فقہ وہ واحد علم کی شاخ ہے جس نے اتنا مسلسل اور کٹھن سفر طے کیا ہے. اتنی کتب کسی موضوع پر نہیں جتنی فقہ پر ہیں اور مسلسل علماء و فقہاء نے عوام کے مسائل کا حل بتا کر ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا کی.
 
آج جب ہمارا بچہ بچہ پڑھا لکھا ہے تو فقہی مسائل کے حل کیلئے ایک جامع کتاب بنام *توضیح المسائل* یا استفتات کے جوابات مختلف زبانوں میں چھپوا کر عوام کی دہلیز تک پہنچانا ممکن ہے تو اس کی مخالفت صرف و صرف ایک کوڑ مغز انسان ہی کر سکتا ہے اور پاک و ہند میں یہ کوڑ مغز موجود ہیں اس لیئے سوال کرتے ہیں شیخ مفید کے دور میں تو ضیح المسائل کیوں نہیں تھی، شیخ کلینی کے دور میں توضیح کیوں نہیں تھی.

*نکتہ*
اگر تمہارا معیار یہ ہی ہے کہ ہر وہ چیز لینی ہے جو آئمہ علیہم السلام کے دور میں تھی یا کسی عالم کے دور میں تو کنگن، کلاوے، شہنشاہ فضائل، بحرالمصائب، نیاز کی دیگیں، اسٹیل کے علم، سبیلیں، عماریاں، تابوت، جلوس، انگوری تابوت، چپ تابوت، بولتا تابوت، آگ کا ماتم ... سب تو آئمہ علیھم السلام کے دور میں نہیں تھا تو کیا یہ بھی چھوڑ دیں گے؟  🤔

*توضیح المسائل* حلال و حرام کا گھر بیٹھے پتہ لگانے کیلئے اللہ تعالٰی کی ایک عظیم نعمت ہے. جب لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے اور چھپائی اتنی وافر مقدار میں ممکن نہیں تھی تو یہ اس شکل میں نہ تھی اب جب پرنٹنگ پریس نے ترقی کر لی عوام بھی پڑھی لکھی ہے تو کیوں نہ ایسی کتاب ہو جو عوام کیلئے آسانی پیدا کرے.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:08
جعفر علی نقوی

🔴موضوع:تقلید اور اس کے شرائط🔴

🔘تقلید کرنے کے لیے درج ذیل امور کو خیال رکھنا ضرورى ہے :
۱) تقلید سے مراد فقہى اصطلاح ہے کہ جو شخص مجتہد یا صاحب احتیاط نہیں ہے اور اپنے مسئلہ کا حل منابع استنباط سے نہیں لے سکتا اس کے لیے ضرورى ہے کہ با شرائط مجتہد کے فتاوى کے مطابق عمل کرے۔ اگر مجتہد باشرائط نہ ہو تو تقلید فقہى جنم نہیں لیتى ۔

۲) مجتہد میں درج ذیل شرائط کا ہونا ضرورى ہے :
🔹 مرد ہو
🔹 عاقل ہو
🔹 بالغ ہو
🔹 زندہ ہو
🔹 حلال زادہ ہو
🔹 شیعہ اثنا عشرى ہو
🔹 عادل ، غیر عادل کى تقلید باطل ہے
🔻ضرورى ہے کہ جس کى تقلید کى جائے وہ مقلِّد یعنى تقلید کرنے والے کى نظر میں تمام مجتہدین سے زیادہ علم رکھتا ہو ، یعنى اَعْلَم ہو ۔

۲) مجتہد میں ان خصوصیات کا علم حاصل کرنے کے درج ذیل طریقے ہیں :
🔹انسان کو خود یقین ہو کہ فلاں مجتہد اعلم اور با شرائط ہے ، یہ تب ممکن ہے کہ انسان خود صاحب علم ہو۔ اس لیے اس طریقہ کو علماء اختیار کر سکتے ہیں ۔

🔹 دو عالم اور عادل اشخاص جو مجتہد اور اعلم ہونے کو پہچاننے کى صلاحیت رکھتے ہیں وہ گواہى دیں اور انسان کو ان کى گواہى سے اطمینان حاصل ہو جائے کہ فلان شخص با شرائط مجتہد اور اعلم ہے ۔

🔹 انسان کسى عقلائى طریقے سے علم و اطمینانِ قلبى حاصل کر لے کہ فلاں مجتہد با شرائط اور اعلم ہے ۔ مثلا اہل خبرہ یعنى مجتہدین اور با صلاحیت عادل علماء کى وہ کمیٹى یا جماعت جو اعلم با شرائط مجتہد کو پہچاننے کى صلاحیت رکھتے ہیں وہ کمیٹى کسى کا اعلان کرے ۔

🔻 دوسرا اور تیسرا طریقہ عوام الناس اختیار کر سکتے ہیں ۔ اس وقت مجتہدین اور عادل علماء میں دو مجتہدین شرائط اور اعلمیت کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں :
۱) رہبر معظم آیت اللہ العظمى سید على خامنہ اى دام ظلہ العالى ، یہ واحب مرجع تقلید ہیں جو میدان جہاد میں خاک و خون کا جہاد کرتے رہے ہیں اور سیاست اور دشمن کے خلاف مقاومت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔

۲) آیت اللہ العظمى سید على حسینى سیستانى

🔻 جو اعمال تقلید کے بغیر بجا لائے ہیں وہ اگر اس با شرائط مجتہد جس کى آپ نے تقلید کى ہے اس کے مطابق ہیں تو وہ اعمال صحیح ہیں اور اگر اعمال اس کے مطابق نہیں ہیں تو اپنے مجتہد سے سابقہ اعمال جو تقلید سے پہلے انجام پائے کے بارے میں دریافت کرنا ضرورى ہے ۔

☀️البر علمی و فکری مرکز☀️

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:07
جعفر علی نقوی

🔵 تقلید کی ضرورت 🔵

عقلًا اور شرعًا جو شخص آیات اور روایات سے حکم شرعى کا استنباط نہیں کر سکتا اسے ’’تقلیدِ فقہى‘‘ کرنا ضرورى ہے.
جو شخص خود تقلید کے مرحلہ میں ہو اور بعض ایسى روایات پیش کرے جو اس کے خیال میں قابلِ بحث ہیں، اس کى مثال اس مریض کى سى ہے جسے ڈاکٹر نے علاج کا نسخہ دیا ہو اور وہ طب کے کورس کى کتابوں سے کوئى ایک پیراگراف نکال کر لے آیا ہو اور ڈاکٹر سے کہے کہ یہاں کچھ لکھا ہے اور آپ نے کچھ اور بتایا ہے!! یقینا ڈاکٹر کے لیے تفصیل کے ساتھ اس مریض کو کچھ سمجھانا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ طب کى علمى اصطلاحات سے بھى نابلد ہے اور تحقیقى دنیا سے بھى آشنا نہیں ہے. یہى صورتحال یہاں ہے.

🔹ہم فتوى کے مقابلے میں صرف اس وقت کچھ پیش کر سکتے ہیں جب خود صاحبِ اجتہاد ہوں اور ان تمام باریکیوں کو سمجھتے ہوں. مثلا اگر ایک شخص نے مطلوبہ علومِ دینى حاصل کیے ہوں اور تمام علوم پر کامل دسترس رکھتا ہو اس مرحلہ کے بعد ایک روایت سے ایک حکم لینے کے لیے عملى طور پر درج ذیل امور سے گزرنا ضرورى ہے:
1) اس موضوع کى تمام روایات کو جمع کرے.
2) روایات کى سندى تحقیق کرے.
3) روایات کے ظاہر کو دیکھے کہ ظاہرِ روایت کیا معنى دے رہى ہے.
4) یہ دیکھے کہ ان روایات میں سے کس کى دلالت حجت ہے اور کس کى نہیں.
5) روایات میں عام و خاص، مطلق و مقیّد، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، ظاہر نص ۔۔۔ ان سب قواعد کا خیال رکھے.
6) قواعد فقہیہ اور اصولیہ اپنے مبنى کے تحت جارى کرے.
7) فقہاءِ عظام کے اقوال کو مدنظر رکھے اور ان پر دقّت کرتے ہوئے استدلالى نوعیت کو جانے.

🔹ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہم ایک حکم شرعى بیان کر سکتے ہیں. اس لیے چند روایات ذکر کر کے فتوٰی کے مقابل انہیں پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ روایات واقعًا امام علیہ السلام سے صادر ہوئى ہیں یا نہیں؟ اس کا جاننا ضرورى ہے۔ جب ثابت ہو جائے کہ فلاں فلاں روایت صحیح ہے اور فلاں ضعیف تو صحیح کے معنى پر قواعد جارى کیے جائیں گے۔

🔻پس ہم کسى فتوٰی کے مقابل اس طرح سے روایت کو پیش نہیں کر سکتے۔ بلکہ ضرورى ہے کہ روایت کو بیان کر کے کاملًا تفصیلى بحث کریں۔ اس لیے آپ ان روایات کے ذیل میں مندرجہ بالا نکات کى روشنى میں تفصیلى بحث کریں تو سلسلہِ بحث آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہمارے اوپر تقلید کرنا ضرورى ہے.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:06
جعفر علی نقوی

🔵تقلید کیوں واجب ہے 🔵

ہم معصومین علیھم السلام کے زمانے میں اپنی شرعی ذمّہ داریاں ڈائریکٹ معصوم علیہ السلام سے لیتے ہیں ۔لیکن زمانہ غیبت میں کیا ہماری شرعی ذمّہ داریاں معاف ہیں؟

ہرگز نہیں کیونکہ قرآن کی آیات اور احادیث متواترہ اور عقل یہ سب شرعی ذمّہ داریوں کے جاری رہنے کا کہتے ہیں. اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ تکالیف شرعیہ صرف اس کے لیے نہیں ہیں جو معصوم علیہ السلام کو درک کرتا ہو. اس لیے ہم آزاد نہیں ہیں کہ جس طرح ہمارا دل چاہے کرتے پھریں بلکہ ہم شرعی تکالیف کے پابند ہیں. جب ہم شرعی تکالیف کے پابند ہیں تو پھر ہمیں کس طرح پتہ چلے کہ کون سی تکلیف ہمارے اوپر واجب ہے اور کون سی حرام اور کون سی حلال ہے   تاکہ اس پر عمل کرکے الله عزّوجلّ کے سامنے اپنی شرعی تکلیف کو ادا کریں.
تو اپنی شرعی تکالیف جاننے کے لیے ہمارے پاس چند اختیارات ہیں..

1⃣⬅️  یا تو ہم میں سے ہر کوئی مجتھد بن جائے اور قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی شرعی تکالیف کو معلوم کرے اور ان  پر عمل کرے.

 2⃣⬅️ یا ہم کسی مجتھد کی طرف رجوع کریں جو قرآن وسنت کی روشنی میں ہمیں الله کے احکام بتاتا ہو اس شرط کے ساتھ کہ وہ مجتھد زیادہ علم والا ہو، متقی اور پرہیز گار شخص ہو.

3⃣⬅️ یا ہم  مجتھدین کی اخذ کردہ شرعی تکالیف کے درمیان احتیاط پر عمل کریں.

⏪اس لیے اگر آپ کسی کی تقلید نہیں کرنا چاہتے تو یا آپ خود مجتھد بن جائیں۔ یا مجتھدین کے بتائے ہوئے احکامات میں احتیاط کریں. اور اگر یہ دونوں کام آپ نہیں کر سکتے تو جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کریں. کیونکہ تقلید کا معنی یہ نہیں ہے کہ آپ مجتھد کی اطاعت کر رہے ہیں مجتھد تو آپ کو الله کا حکم بتاتا ہے اطاعت آپ الله کی کر رہے ہیں.
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کی تقلید کرتے ہیں تو ہمارا ان سے سوال ہے کہ ہمیں بھی بتائیں فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہاں ملتے ہیں. سالوں سے دنیا ان کے انتظار میں تڑپ رہی ہے.
اللھم عجل لولیک الفرج

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:05
جعفر علی نقوی


💬 حکومت اسلامی  کی کیا ذمه داری هے.. اور اسکے مقابلے میں لوگوں کی کیا ذمه درای هے...❓❓❓❓ 🤔

جواب )  حکومت اسلامی کی کلی طور پر سب سے اساسی اور بنیادی ذمےداری یه هے که لوگوں سے کیے هوۓ وعدوں  کو وفاکرے. اپنے اختیارات کو استعمال کرتے هوۓ تمام وسائل بروۓکار لاۓ،اپنی تمام تر کوششیں لوگوں کی خدمت کیلۓ صرف کرے ...  حکومت اسلامی کی کچھ ذمےداریاں ہم قارئین کی خدمت میں بیان کررهے هیں❗️❗️❗️❗️

👈🏾 قومی عزت ، غیرت اور حمیت  کو برقرار رکهے اور هر قسم کی ظالم اور جابر  طاقتوں کی نفی کرے. 💭
👈🏾 دینی ، ثقافتی اور اخلاقی پهلوؤں میں رشد و تکامل پیدا کرنے کے لۓ سعی اور کوشش کرے.. 💭
👈🏾ملکی سالمیت کیلۓ داخلی اور خارجی امنیت کو بر قرار کرے.. 💭
👈🏾 لوگوں کے لیۓ رفاهی ، فلاحی کاموں کو انجام دے ، مادی ضروریات کا خیال رکهے.. ❗️❗️
👈🏾حکومت  اسلامی کا رویه لوگوں کے لیے خاشع و خاضع هو.. 💭

* حکومت اسلامی کے بارے میں لوگوں کی ذمےداریاں
 
👈🏾  لوگ حکومت اسلامی ، اسکے وزرءا ، اداروں  اور اراکین کی  بھر پور حمایت کریں ❗️❗️
👈🏾 اپنی مخلص آراء سے حکومت کو آگاه کریں اور ھر مشوره دیں  جو حکومت اسلامی کی تقویت کا باعث بنے ....❗️❗️

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 17 ، 21:00
جعفر علی نقوی



ولایت فقیه کی آسان اور ساده زبان میں تعریف کریں ؟
🤔💭
جواب)  ولایت فقیه یعنی ایسے انسان کی حاکمیت جو تفکر اور ایمان میں اپنے معاشرے میں سب سے بهتر هو..❗️❗️.. معاملات کو بهتر جانتا هو..... ایسا انسان هی اپنے معاشرے کو فلاح و نجات اور مادی اور معنوی تکامل تک پهنچا سکتا هے.❗️❗️....

فقیه وه هے جو دین کو پهچانتا هو اس راستے کو پهچانتا هو جو دین نے لوگوں کے لیے مشخص کیا هے...... تاکه اس راستے پر عمل پیرا هو کر  خوش بخت ،☺️ سعادتمند❤️  بن سکے .....

        فقیه یعنی ایسے انسان کی حکومت جسکے هر فیصلے میں منطق🤔 اور عقلی منابع موجود هوں......
    
        فقیه یعنی معاشرے کو طاقت☄️💫 ، نشاط و تازگی بخشنے والا ، معاشرے کو فعال رکهے.......  فقیه ایک ایسا مرکز 🏩هے جس سے تمام 🌧چشمے گذر کر معاشرے تک پهنچتے هوں    ....... تمام قوانین  کو اجرا کرنا جانتا هو.   تمام لوگ اسکے پیچهے چلیں🚶🚶🚶🚶🚶 ...........  تاریکیوں میں معاشرے    کو روشن راهوں کی طرف لیجا سکے.... برگرفته از کتاب سایه عظمی ولایت........

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:35
جعفر علی نقوی


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

*💡ولایت فقیہ پر عقلی دلیل💡*

🖊ہماری فقہ میں  متفقہ علیہ امر ہے کہ کسی بھی حکم شرعی کو چار طرح سے استناد کیا جا سکتا ہے.
۱- قرآن
۲- سیرت معصومین
۳- اجماع
۴- عقل  

ان میں سے ایک سے بھی کسی چیز کا حکم ثابت ہوجائے تو وہ چیز شریعت کا حصہ بن سکتی ہے.

🔎اب ہم سب جانتے ہیں کہ انبیاء (ع) کے بعد ولایت آئمہ (ع) کے اختیار میں آئی آئمہ (ع) جب امام مہدی (عج) غیبت میں گئے تو پیچھے اپنے نواب بنا کر یہ ثابت کر گئے کہ آئمہ (ع) کے وارث یہ فقہاء ہیں.

🖇اب جب حکومت کی بات آتی ہے تو یا تو حاکم نبی ہو، یا امام معصوم ہو. اچھا اگر یہ دونوں نہ ہوں تو عقل کیا کہتی ہے، ظاہر ہے یہ ہی کہ جو ان سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہو وہ ہی ہو. یعنی وہ علوم دین پر مہارت رکھتا ہو. عادل ہو، عقل و شعور رکھتا ہو، شجاع ہو...
تو ایسے میں جب معصوم امام کی ظاہری حکومت ممکن نہیں ہے تو کیا ہم حکومت سے دستبردار ہوجائیں کہ نہیں صاحب چاہیئے تو معصوم کی حکومت نہیں تو بس!
🔓ایسا کرنا عقل کے خلاف ہوگا کیونکہ قانون ہے کہ اگر ۱۰ لوگ سمندر میں ڈوب رہے ہوں اور صرف سات کو بچایا جا سکتا ہے تو ان کو بچایا جائے یہ نہیں کہ بچانا ہے تو پورے دس کو ہی بچانا ہے ورنہ نہیں.

سو جب عقل کہتی سے ولایت فقیہ یعنی ایک فقیہ کی حکومت ثابت ہوگئی تو اب آپ اس کا انکار نہیں کر سکتے.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 September 17 ، 22:34
جعفر علی نقوی